... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو قاسم پر پابندیوں کے بعد ہماری سیاست میں عجب کھیل تماشا شروع ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی پکڑ دھکڑ (پولیس والی نہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے شمولیت کی دعوت ہے ) کے لیے مختلف افراد کنڈیا ں،بانس اور گانٹھیا ںلیکر کھڑے ہوئے ہیں جیسے ہی یہ توڑے گئے افراد کہیں سے سر باہر نکالیں تو وہ اپنی کنڈی ان پر پھینک سکیں۔
آصف علی زرداری صاحب نے تو باقاعدہ لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ بڑے میاں صاحب لندن میں بیٹھ کر انکی اس سازش پر نالاں ہیں ۔انہوں نے اپنی پارٹی کو سندھ میں متحرک کرنے کا حکم دے دیا ہے تاکہ زرداری صاحب واپسی کا راستہ لیں۔ ان کے علاوہ کچھ اورپرانے شکاری بھی نیا جال تھامے ان مچھلیوں کے انتظار میں ہیں کہ کب وہ انکا شکار بنتی ہیں۔ اس ساری صورتحال پر شیخ رشید کا تبصرہ بڑا دلچسپ ہے کہ ہماری سیاست کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ہے ،کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ گڈی کون لوٹے گا؟آج سے تقریبا 20اور30سال قبل جب پتنگ بازی پر پابندی نہیں ہوتی تھی تو ہم سے اکثر لوگوں کو یاد ہوگا کہ کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے درجنوں لڑکے ہوتے تھے۔ کسی ڈور کے آگے کوئی روڑا باندھ کر رکھا ہوتا تھا تو کسی نے لمبی ڈانگ ہاتھ میں پکڑ رکھی ہوتی تھی اور جو پکے شکاری ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی ڈانگ کے سرے پر کانٹوں والی جھاڑی بھی باندھ رکھی ہوتی تھی اور اکثر وہی کٹی ہوئی پتنگ لوٹ لیا کرتے تھے۔ بعض پتنگیں بہت جلد لوٹ لی جاتی تھیں اور کچھ پتنگیں پہت لمبا سفر بھی کرواتی رہی۔ کچھ پتنگ باز گڈی لوٹنے کے چکر دوسروں کے گھروں کی چھتیں بھی پھلانگ جایا کرتے تھے۔ اب گڈی بازوں کو صبح سے شام تک سوائے پتنگ بازی کے اور کچھ نہیں آتا تھا۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا کہ گھر کے حالات کیسے چل رہے ہیں۔ ا سکول کا کام کرنا بھی ہے یا نہیں بس جنون ہوتا تھا تو پتنگ بازی کا اس کی خاطر گھر والوں سے لعن طعن بھی ہوتی رہتی تھی مگر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی جاتی تھی۔ اس دور میں پتنگیں بھی مختلف انداز کی آنا شروع ہوگئی تھی اور ان میں پریاں بھی ہوتی تھیں۔ اس دور میں لوگوں کی طرح ڈور بھی سادہ ہوتی تھی جو لوگوں کے گلے نہیں کاٹتی تھی ۔ پتنگ باز سارا دن پیچ لڑاتے رہتے اکثر گھروں کی چھتوں پر گڈی آڑائی جاتی تھی اور انہیں لوٹنے والے گلی محلوں میں للچائی ہوئی نظروں سے سارا دن اوپر ہی نظریں اٹھائے رکھتے تھے کہ کب پتنگ کٹے اور پھر وہ اسکے پیچھے بھاگ کھڑے ہوں۔ کچھ لوگ تو صرف اپنے شوق کی خاطر کٹی پتنگ کے پیچھے دو تین گلیاں بھاگ لیتے تھے بعض اوقت تو ایک پتنگ کے لیے اتنا رش ہوجاتا تھا کہ بچے ،جوان اور بزرگ بھی اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے تھے ۔
ایک اور مزے کی بات یہ بھی تھی کہ جب کوئی کٹی ہوئی پتنگ کسی کے گھر کی چھت پر جاگرتی تو نہ صرف محلے کے بچے بلکہ دوسری محلوں سے آئے ہوئے بچے بھی بے جھجک دروازہ کھٹکھٹا دیتے کہ خالہ جی میری گڈی تہاڈی چھت تے آگئی اے او تے دیدیو اکثر خواتین پہلے آنے والے بچے کو پتنگ دے بھی دیا کرتی تھی۔ دوپہر سے شام تک پتنگ بازی عروج پر ہوتی تھی اور پتنگیں بھی درجنوں کے حساب سے کٹتی ان میں سے 50فیصد پتنگیں ایسی ہوتی تھی جو بچوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے پھٹ جایا کرتی تھیں۔ ایک کٹی پتنگ کے پیچھے 10 اور 20 بچے معمولی بات ہوتی تھی ،جن میںسے کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہوتی تو کسی کے ہاتھ بڑی ڈاگ اور کسی کے ہاتھ میں لمبا بانس بھی ہوتا تھا۔ جس کے سرے پر کانٹے دار کوئی نہ کوئی چیز لگائی ہوتی تھی جو اوپر سے ہی ڈور کو اس پر لپیٹ لیتا اور پھر سب کو مخاطب کرکے کہتا بس بئی پھڑ لئی ،پھڑ لئی اور پھر سب چپکے سے پیچھے ہو جاتے۔ کچھ شرارتی قسم کے بچے جب خود پتنگ نہ پکڑ سکتے تو وہ اسے پھاڑ دیتے تھے اور اکثر ایسا ہوتا رہتا تھا۔ یہ اس وقت ہوتا تھا جب کوئی چھوٹا بچہ پتنگ پکڑ لیتا تو ان میں سے بڑا بچہ نیچے آتے ہی پتنگ کو پھاڑ دیتا۔
اسی دور میں ایک اور واقعہ بھی ہوجاتا تھا کہ جب اڑتی ہوئی پتنگ اچانک کٹ جاتی تھی تو کوئی پکڑ لیتا تھا پھر بعد میں معلوم ہوتا کہ کسی نے اپنی چھت سے ڈور پر گانٹھی ڈال دی ہے ،اس طریقہ سے پتنگ کٹ جاتی تھی یا پھر ڈور نیچے آجانے سے گانٹھی ڈالنے والا پکڑ کر درمیان سے ڈور توڑ دی جاتی اور پھر پتنگ آڑانے والا ہاتھ ملتا رہ جاتا۔ پتنگ باز سجنا ںسے کٹی پتنگ تک کے گانے چھتوں پر لگا کر اکثر کاریگر قسم کے لوگ پتنگ کاٹ کو اسے اپنے ساتھ ہی ڈور سے لپیٹ کر واپس لے آتے تھے ۔یہ فن ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا یہ وہ افراد جانتے تھے جو گڈی اڑاتے وقت لچھے دار ڈور دیتے اور پھر اپنی پتنگ کو ایسے گھماتے جیسے آجکل ہماری پولیس پی ٹی آئی کے ورکروں کو گھما رہی ہے۔ ایسے گھماتے گھماتے کٹی پتنگ کو اپنی پتنگ کی ڈور کے ساتھ جوڑنے والوں میں بھی مقابلے ہوتے ان میں سے بہت تیز قسم کے لوگ ایک ہی وقت میں دو دو پتنگوں کو بھی اپنی پتنگ کے ساتھ لپیٹ لاتے ۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ جیسے ہی کسی نے کٹی ہوئی پتنگ اپنے پتنگ کی ڈور کے ساتھ لپیٹی تو تھوڑی دیر بعد اسکی پتنگ بھی کٹ جاتی تھی اور پھر دونوں پتنگیں ہوا میںلہراتی ہوئی کسی بڑے لٹیرے کے بانس سے جا چمٹتی پتنگوں کو آڑانے سے لیکر پیچ لڑانے تک بڑا کمال ڈور بنانے والوں کا بھی ہوتا تھا جو مانجا تیار کرتے وقت سلیش ،کانچ اور میدہ ڈالتے ہوئے مقدار کا خاص خیال رکھتے تھے اور پھر اس مانجے کو پکانا بھی ایک فن ہوتا تھا ۔کچا مانجا بھی نقصان دیتا تھا اور زیادہ پکا ہوا بھی اس لیے اسے پکانے والا ہمیشہ سر پر بیٹھ کر اسے کسی نہ کسی لکڑی سے ہلاتا رہتا تھا۔ مانجا بن جانے کے بعد پھر آخری ٹچ ڈور لگانے کا ہوتا تھا جو ہاتھ کی صفائی کا کام ہوتا تھا۔ بلکہ مانجے کی طرح ہماری سیاسی پارٹیا ںبھی تیار کی جاتی ہیں کسی میں سلیش کم رکھی جاتی ہے تو کسی میں کانچ تیز کردیا جاتا ہے تو کسی میں دونوں چیزیں تیز کرکے میدہ کر دیا جاتا ہے ۔جب یہ سارا سامان تیار ہوجاتا ہے تو پھر ڈور بنانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ہاتھ کی صفائی دکھائی جاتی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی یہ صرف ڈور لگانے والے کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی انگلیوں کی کتنی صفائی دکھائی ہے ۔کانچ کتنا چھوڑا ہے اور دبا کر کتنی ڈور لگائی ہے اور اس ڈور سے کتنی انگلیاں کٹیں گی۔ آج کل کیمیکل کا دور ہے اور ڈور بھی خونی تیار ہورہی ہے جو چھوٹی موٹی پتنگوں کو تو ایک ہی گھسے(رگڑے) میں فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ غریب موٹر سائیکل سواروں کی گردنیں بھی کاٹ رہی ہے۔ آج کل ہماری سیاست بھی کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ہے، دیکھتے ہیں کہ گڈی کون لوٹے گا یا پھر کسی طاقتور کے ہاتھ لگ کر پھٹ جائیگی ۔
٭٭٭