وجود

... loading ...

وجود

گڈی کون لوٹے گا ؟

منگل 06 جون 2023 گڈی کون لوٹے گا ؟

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو قاسم پر پابندیوں کے بعد ہماری سیاست میں عجب کھیل تماشا شروع ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی پکڑ دھکڑ (پولیس والی نہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے شمولیت کی دعوت ہے ) کے لیے مختلف افراد کنڈیا ں،بانس اور گانٹھیا ںلیکر کھڑے ہوئے ہیں جیسے ہی یہ توڑے گئے افراد کہیں سے سر باہر نکالیں تو وہ اپنی کنڈی ان پر پھینک سکیں۔
آصف علی زرداری صاحب نے تو باقاعدہ لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ بڑے میاں صاحب لندن میں بیٹھ کر انکی اس سازش پر نالاں ہیں ۔انہوں نے اپنی پارٹی کو سندھ میں متحرک کرنے کا حکم دے دیا ہے تاکہ زرداری صاحب واپسی کا راستہ لیں۔ ان کے علاوہ کچھ اورپرانے شکاری بھی نیا جال تھامے ان مچھلیوں کے انتظار میں ہیں کہ کب وہ انکا شکار بنتی ہیں۔ اس ساری صورتحال پر شیخ رشید کا تبصرہ بڑا دلچسپ ہے کہ ہماری سیاست کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ہے ،کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ گڈی کون لوٹے گا؟آج سے تقریبا 20اور30سال قبل جب پتنگ بازی پر پابندی نہیں ہوتی تھی تو ہم سے اکثر لوگوں کو یاد ہوگا کہ کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے درجنوں لڑکے ہوتے تھے۔ کسی ڈور کے آگے کوئی روڑا باندھ کر رکھا ہوتا تھا تو کسی نے لمبی ڈانگ ہاتھ میں پکڑ رکھی ہوتی تھی اور جو پکے شکاری ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی ڈانگ کے سرے پر کانٹوں والی جھاڑی بھی باندھ رکھی ہوتی تھی اور اکثر وہی کٹی ہوئی پتنگ لوٹ لیا کرتے تھے۔ بعض پتنگیں بہت جلد لوٹ لی جاتی تھیں اور کچھ پتنگیں پہت لمبا سفر بھی کرواتی رہی۔ کچھ پتنگ باز گڈی لوٹنے کے چکر دوسروں کے گھروں کی چھتیں بھی پھلانگ جایا کرتے تھے۔ اب گڈی بازوں کو صبح سے شام تک سوائے پتنگ بازی کے اور کچھ نہیں آتا تھا۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا کہ گھر کے حالات کیسے چل رہے ہیں۔ ا سکول کا کام کرنا بھی ہے یا نہیں بس جنون ہوتا تھا تو پتنگ بازی کا اس کی خاطر گھر والوں سے لعن طعن بھی ہوتی رہتی تھی مگر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی جاتی تھی۔ اس دور میں پتنگیں بھی مختلف انداز کی آنا شروع ہوگئی تھی اور ان میں پریاں بھی ہوتی تھیں۔ اس دور میں لوگوں کی طرح ڈور بھی سادہ ہوتی تھی جو لوگوں کے گلے نہیں کاٹتی تھی ۔ پتنگ باز سارا دن پیچ لڑاتے رہتے اکثر گھروں کی چھتوں پر گڈی آڑائی جاتی تھی اور انہیں لوٹنے والے گلی محلوں میں للچائی ہوئی نظروں سے سارا دن اوپر ہی نظریں اٹھائے رکھتے تھے کہ کب پتنگ کٹے اور پھر وہ اسکے پیچھے بھاگ کھڑے ہوں۔ کچھ لوگ تو صرف اپنے شوق کی خاطر کٹی پتنگ کے پیچھے دو تین گلیاں بھاگ لیتے تھے بعض اوقت تو ایک پتنگ کے لیے اتنا رش ہوجاتا تھا کہ بچے ،جوان اور بزرگ بھی اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے تھے ۔
ایک اور مزے کی بات یہ بھی تھی کہ جب کوئی کٹی ہوئی پتنگ کسی کے گھر کی چھت پر جاگرتی تو نہ صرف محلے کے بچے بلکہ دوسری محلوں سے آئے ہوئے بچے بھی بے جھجک دروازہ کھٹکھٹا دیتے کہ خالہ جی میری گڈی تہاڈی چھت تے آگئی اے او تے دیدیو اکثر خواتین پہلے آنے والے بچے کو پتنگ دے بھی دیا کرتی تھی۔ دوپہر سے شام تک پتنگ بازی عروج پر ہوتی تھی اور پتنگیں بھی درجنوں کے حساب سے کٹتی ان میں سے 50فیصد پتنگیں ایسی ہوتی تھی جو بچوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے پھٹ جایا کرتی تھیں۔ ایک کٹی پتنگ کے پیچھے 10 اور 20 بچے معمولی بات ہوتی تھی ،جن میںسے کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہوتی تو کسی کے ہاتھ بڑی ڈاگ اور کسی کے ہاتھ میں لمبا بانس بھی ہوتا تھا۔ جس کے سرے پر کانٹے دار کوئی نہ کوئی چیز لگائی ہوتی تھی جو اوپر سے ہی ڈور کو اس پر لپیٹ لیتا اور پھر سب کو مخاطب کرکے کہتا بس بئی پھڑ لئی ،پھڑ لئی اور پھر سب چپکے سے پیچھے ہو جاتے۔ کچھ شرارتی قسم کے بچے جب خود پتنگ نہ پکڑ سکتے تو وہ اسے پھاڑ دیتے تھے اور اکثر ایسا ہوتا رہتا تھا۔ یہ اس وقت ہوتا تھا جب کوئی چھوٹا بچہ پتنگ پکڑ لیتا تو ان میں سے بڑا بچہ نیچے آتے ہی پتنگ کو پھاڑ دیتا۔
اسی دور میں ایک اور واقعہ بھی ہوجاتا تھا کہ جب اڑتی ہوئی پتنگ اچانک کٹ جاتی تھی تو کوئی پکڑ لیتا تھا پھر بعد میں معلوم ہوتا کہ کسی نے اپنی چھت سے ڈور پر گانٹھی ڈال دی ہے ،اس طریقہ سے پتنگ کٹ جاتی تھی یا پھر ڈور نیچے آجانے سے گانٹھی ڈالنے والا پکڑ کر درمیان سے ڈور توڑ دی جاتی اور پھر پتنگ آڑانے والا ہاتھ ملتا رہ جاتا۔ پتنگ باز سجنا ںسے کٹی پتنگ تک کے گانے چھتوں پر لگا کر اکثر کاریگر قسم کے لوگ پتنگ کاٹ کو اسے اپنے ساتھ ہی ڈور سے لپیٹ کر واپس لے آتے تھے ۔یہ فن ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا یہ وہ افراد جانتے تھے جو گڈی اڑاتے وقت لچھے دار ڈور دیتے اور پھر اپنی پتنگ کو ایسے گھماتے جیسے آجکل ہماری پولیس پی ٹی آئی کے ورکروں کو گھما رہی ہے۔ ایسے گھماتے گھماتے کٹی پتنگ کو اپنی پتنگ کی ڈور کے ساتھ جوڑنے والوں میں بھی مقابلے ہوتے ان میں سے بہت تیز قسم کے لوگ ایک ہی وقت میں دو دو پتنگوں کو بھی اپنی پتنگ کے ساتھ لپیٹ لاتے ۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ جیسے ہی کسی نے کٹی ہوئی پتنگ اپنے پتنگ کی ڈور کے ساتھ لپیٹی تو تھوڑی دیر بعد اسکی پتنگ بھی کٹ جاتی تھی اور پھر دونوں پتنگیں ہوا میںلہراتی ہوئی کسی بڑے لٹیرے کے بانس سے جا چمٹتی پتنگوں کو آڑانے سے لیکر پیچ لڑانے تک بڑا کمال ڈور بنانے والوں کا بھی ہوتا تھا جو مانجا تیار کرتے وقت سلیش ،کانچ اور میدہ ڈالتے ہوئے مقدار کا خاص خیال رکھتے تھے اور پھر اس مانجے کو پکانا بھی ایک فن ہوتا تھا ۔کچا مانجا بھی نقصان دیتا تھا اور زیادہ پکا ہوا بھی اس لیے اسے پکانے والا ہمیشہ سر پر بیٹھ کر اسے کسی نہ کسی لکڑی سے ہلاتا رہتا تھا۔ مانجا بن جانے کے بعد پھر آخری ٹچ ڈور لگانے کا ہوتا تھا جو ہاتھ کی صفائی کا کام ہوتا تھا۔ بلکہ مانجے کی طرح ہماری سیاسی پارٹیا ںبھی تیار کی جاتی ہیں کسی میں سلیش کم رکھی جاتی ہے تو کسی میں کانچ تیز کردیا جاتا ہے تو کسی میں دونوں چیزیں تیز کرکے میدہ کر دیا جاتا ہے ۔جب یہ سارا سامان تیار ہوجاتا ہے تو پھر ڈور بنانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ہاتھ کی صفائی دکھائی جاتی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی یہ صرف ڈور لگانے والے کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی انگلیوں کی کتنی صفائی دکھائی ہے ۔کانچ کتنا چھوڑا ہے اور دبا کر کتنی ڈور لگائی ہے اور اس ڈور سے کتنی انگلیاں کٹیں گی۔ آج کل کیمیکل کا دور ہے اور ڈور بھی خونی تیار ہورہی ہے جو چھوٹی موٹی پتنگوں کو تو ایک ہی گھسے(رگڑے) میں فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ غریب موٹر سائیکل سواروں کی گردنیں بھی کاٹ رہی ہے۔ آج کل ہماری سیاست بھی کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ہے، دیکھتے ہیں کہ گڈی کون لوٹے گا یا پھر کسی طاقتور کے ہاتھ لگ کر پھٹ جائیگی ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر