وجود

... loading ...

وجود

نظام عدالت، کسی پر قیامت کسی پر عنایت

اتوار 04 جون 2023 نظام عدالت، کسی پر قیامت کسی پر عنایت

ڈاکٹر سلیم خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کی اعظم خاں سے کینہ پروری بے مثال ہے ۔پچھلے سال اعظم خان کو طویل عرصہ گزارنے کے بعد رہا توکیا گیا تھا لیکن ان کے خلاف مقدمات کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہوا ۔ ایک کیس ختم نہیں ہوتا کہ اس سے پہلے دوسرا شروع ہوجاتا تھا یہاں تک کہ ایسی صورتحال پیدا کردی گئی وہ نہ تو الیکشن لڑ سکتے تھے اور نہ ہی ووٹ دے سکتے تھے ۔اس کے علاوہ وہ صحت کے بھی کئی مسائل سے پریشان ہیں۔ ایسے میں اچانک ایک فرطِ مسرت کا جھونکا آیا۔ اعظم خان کو ایم پیـایم ایل اے کورٹ (سیشن ٹرائل) نے نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام سے بری کر دیا ۔ یہ فیصلہ یوگی ادیتیہ ناتھ کے لیے ایک زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں تھا۔ اس معاملے میں، ایم پیـایم ایل اے (مجسٹریٹ ٹرائل) کی عدالت نے اعظم خان کو 27 اکتوبر 2022 کو تین سال کی سزا سنائی تھی ۔اس کے بعد ان کو اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔اس فیصلے کے خلاف اعظم خان نے سیشن کورٹ میں اپیل کی تھی۔ اس معاملے میں 70 صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ایم پیـایم ایل اے سیشن کورٹ میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد کورٹ آف مجسٹریٹ ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
اعظم خان کے خلاف یہ مقدمہ بڑے دلچسپ انداز میں ختم ہواکیونکہ نفرت انگیز تقریر کا مقدمہ درج کرنے والے شخص نے یہ کہتے ہوئے اپنی شکایت واپس لے لی ہے کہ میں نے یہ شکایت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انجنیا سنگھ کے دباؤ میں کی تھی۔ ایم پی ایم ایل اے کورٹ کے جج امیت ویر سنگھ نے شکایت کنندہ انیل کمار چوہان کا بیان ریکارڈ کیا اور اس کے بعد زیریں عدالت کے اس فیصلے کو پلٹ دیا جس میں ایس پی لیڈر کو سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ اعظم خان نے کوئی فرقہ وارانہ بیان نہیں دیا اور نہ ہی ان کا بیان تشدد کو بھڑکانے والا تھا۔ عدالت نے یہ بھی پایا کہ ڈی ایم اور اعظم خاندان کے تعلقات ناخوشگوار تھے ۔اس متنازع فیصلے کے بعد رام پور صدر سیٹ کے ضمنی انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار آکاش سکسینہ نے عوامی نمائندگی ایکٹ کی مختلف دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے اعظم کے ووٹنگ کے حقوق کو چھیننے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھاتھا۔ اس کے بعد اعظم خان کی اسمبلی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔ یہ ادھورا انصاف ہے عدالت کو چاہیے کہ دباو ڈال کر جھوٹا مقدمہ درج کروانے والے انجنیا سنگھ اور آکاش سکسینہ کو بھی قرار واقعی سزا دے ۔ویسے رام پورضمنی انتخاب میں شکست خوردہ ایس پی امیدوار عاصم راجانے بی جے پی پر بدعنوانیوں کا الزام لگایا ہے اور ان کی عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے بی جے پی رکن اسمبلی آکاش سکسینہ کو نوٹس جاری کیا ہے ۔ اس مقدمہ کی اگلی سماعت اگست کے پہلے ہفتہ میں کی جائے گی اگر وہاں بھی بی جے پی کو جوتا پڑجائے تو اس کے لیے منہ چھپانا مشکل ہوجائے گا۔
عدالت کے اس واضح فیصلے کے بعد بھی اعظم خان کی رکنیتِ قانون سازی کا بحال ہونا مشکوک ہے کیونکہ چھجلت کیس میں بھی مراد آباد کی عدالت نے اعظم خان اور ان کے بیٹے عبداللہ اعظم کو دو سال قید کی سزا سنائی تھی۔ پھر بھی یوگی کے لیے یہ بڑی شکست ہے کیونکہ انہوں نے اعظم خان کے خلاف رام پور کے مختلف تھانوں میں لوٹ، ڈکیتی، ڈرانے دھمکانے ، چوری، زمین پر قبضے وغیرہ کے الزام میں 87 مقدمات درج کروائے ۔ سال 2019 میں عظیم نگر پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف کسانوں کی زمین قبضہ کرنے اور ملک میں ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں مقدمات درج کیے گئے ۔ ان بے سروپامقدمات کی سماعت ایم پیـایم ایل اے کورٹ (مجسٹریٹ ٹرائل) میں چل رہی ہے ۔ اسی طرح کے مقدمات ان کی اہلیہ ڈاکٹر تزئین فاطمہ اور بیٹے عبداللہ اعظم کے خلاف درج کیے گئے ۔ ایک زمانے میں وہ تینوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے لیکن اب سب ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔اعظم خاں کے بیٹے عبداللہ اعظم پردو پاسپورٹ رکھنے کا الزام لگا کر سال 2019 میں بی جے پی لیڈر آکاش سکسینہ نے مقدمہ درج کرایا تھا۔اس میں بھی عدالت نے عبداللہ اعظم کی ضمانت منظور کر لی تھی۔
وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ تو خیر اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کی خاطر عدلیہ کا استعمال کرتے ہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اس معاملے میں ان سے بہت آگے ہیں۔ ان کے لیے وزارت انصاف سودے بازی کا وسیلہ ہے ۔ اسی لیے پچھلے دنوں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے ذریعہ سابق وزیر قانون کرن رجیجو کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ صدر مملکت نے ایک اعلامیہ جاری کرکے کہا کہ وزیر اعظم کے مشورے پر انہیں مرکزی وزراء کی کونسل میں محکموں کی تقسیم نو کی ہدایت کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے ۔اس پیغامِ مسرت نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی کو بھی خوش کردیا ہوگا کیونکہ لندن کے سفر کی تنقید میں کرن رجیجو اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے بھی آگے چین تک نکل گئے تھے ۔ غیر متوقع طور پر ہونے والی اس وزارتی ردو بدل میں ارضیاتی سائنسز کی وزارت کا قلمدان کرن رجیجو کو تفویض کیا گیانیز ارجن رام میگھوال کو ان کی جگہ موجودہ محکموں کے ساتھ قانون اور انصاف کی وزارت میں وزیر مملکت کا آزادانہ چارج دے دیا گیا۔
اس فیصلے سے حکومت کی نظر میں وزارتِ قانون و انصاف کا قلمدان کی بے وقعتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کابینی وزیر کے بجائے ایک وزیر مملکت کو دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ اضافی طور تھما دینا اس عہدے کی توہین ہے ۔ اس پر پہلے ارون جیٹلی فائز تھے اس کے بعد روی شنکر پرشاد اور کرن رجیجو آئے اور اب میگھوال جیسے ہلکے پھلکے سیاستداں کویہ قلمدان سونپنا اس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ سرکار کے نزدیک عدل و انصاف کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔ اس فیصلے نے بی جے پی کے ایک فائر برانڈ ترجمان کو انصاف کے ترازو سے ڈھکیل کر دھول چٹا دی یعنی حشرات الارض کی مانند ارضیاتی سائنس کے شعبے کا ذمہ دار بنا دیا۔ اس فیصلے پر صدر مملکت کے علاوہ مودی جی تو خوش ہوئے ہوں گے مگر کرن رجیجو کے لیے یہ بہت بری خبرہے ۔ ان کے اندر اس رسوائی کے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت ہو تی تواستعفیٰ دے دیتے لیکن اس صورت میں پہلے تو ای ڈی یا سی بی آئی کا چھاپہ پڑتا اورپھر سابق وزیر قانون پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چکی پیسنے کی نوبت آجاتی ۔
مودی حکومت میں کرن رجیجو کو مختلف قلمدانوں پر فائز کرنے کے بعد وزارت قانون کی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر اس سے انہیں محروم کرنے کے بعد جس ارجن رام میگھوال کو یہ کام سونپا گیاوہ پہلے ہی پارلیمانی امور کے علاوہ ثقافت کی وزارت سنبھال رہے ہیں۔ 2009 سے ایوانِ پارلیمان میں بیکانیر کی نمائندگی کرنے والے میگھوال ماضی میں راجستھان کیڈر کے آئی اے ایس افسر رہ چکے ہیں۔ انہیں ریاست میں درج فہرست ذات کا چہرا مانا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کو عنقریب راجستھان میں ہونے والے صوبائی انتخاب سے
جوڑا جارہا ہے لیکن ایسی بات نہیں ہے کیونکہ میگھوال کو کوئی نئی ذمہ داری نہیں ملی اور نہ ترقی دے کر انہیں کابینی درجہ دیا گیا ۔ اس لیے ایک وزیر مملکت کے پاس اس اضافی ذمہ داری سے کوئی خاص سیاسی اثرات نہیں پڑیں گے الٹا اروناچل پردیش کے لوگ اس سے ناراض ہوسکتے ہیں کیونکہ وہاں سے کرن رجیجو 2014 میں کامیاب ہوئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کو اپنی کابینہ میں وزیر مملکت برائے داخلہ بنایا ۔ مودی حکومت کے دوسرے دور میں (2019) میں درجہ گھٹا کر انہیں وزیر کھیل (آزادانہ چارج) مقرر کیا گیا۔ جولائی 2021 کے اندر کابینہ میں توسیع کے دوران انہیں ترقی دے کر روی شنکر پرساد کی جگہ وزیر قانون بنا دیا گیااور اب ارضی سائنس کا قلمدان ۔ یہ ایک کٹر بھگت کی توہین و تضحیک نہیں تو اور کیا ہے ؟
کرن رجیجو کے عبرتناک انجام میں ان مودی بھگتوں کے لیے عبرت کا سامان ہے جو اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مودی جی کا کوئی قریبی سرمایہ دار مشکل میں پھنس جائے تو اسے بچانے کی خاطر ان کے عزت و وقار کو بہ آسانی بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے ۔ عدالتِ عظمیٰ کی رپورٹ میں موجودہ بحران کے لیے کئی سال محنت کرکے اڈانی کی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والے ادارے ہنڈن برگ کو ہی الٹا قصور وار ٹھہرا کر اڈانی کو بالکل پاک صاف بتایا گیا ہے ۔ اب تک کی تحقیقات میں سیبی کو اڈانی کی طرف سے کوئی گڑبڑی نہیں دکھائی پڑی اور نہ یہ پایا گیا کہ حصص کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے مصنوعی تجارت یا کوئی اور بددیانتی کا سہارا لیا گیا تھا۔رپورٹ یہ کہتی ہے کہ اس کے باوجود ہنڈن برگ جیسی کچھ تنظیموں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا نے کے لیے شارٹ پوزیشن لی اور بعد میں منافع کمایا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسٹاک مارکیٹ کے موجودہ ریگولیٹری نظام میں کوئی جھول نہیں پایا جاتاتو وہ لوگ اس کا سے فائدہ اٹھانے میں کیونکر کامیاب ہوگئے ؟ رپورٹ کہتی ہے کہ سیبی کو حاصل بے شمار اختیارات کے باوجود اس میں بہتری کی گنجائش ہے ۔یعنی سیبی جیسے صحتمند ادارے کو بھی دوا دارو درکار ہے ۔ وطن عزیز میں اعظم خان جیسے سیاستدانوں کو پھنسانے اور اڈانی جیسے سرمایہ داروں کو بچانے کے لیے عدلیہ کا بے دریغ استعمال شرمناک ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر