وجود

... loading ...

وجود

خوفناک معاشی بحران

هفته 03 جون 2023 خوفناک معاشی بحران

روہیل اکبر
گندم کی ا سمگلنگ اور کم پیداوار کی وجہ سے ہم ایک خوفناک معاشی بحران کی طرف گامزن ہیں اور حکومت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ غریب اور محنت مزدوری کرنے والا ابھی اس خوفناک مہنگائی کا مقابلہ نہیں کرپا رہا۔ 25روپے کی روٹی جب 50روپے میں ملنا شروع ہو گی توعام آدمی کیا کھائے گا؟ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی گندم کی پیداوار سے مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ پاکستان جو کبھی گندم برآمد کرنے والا ملک تھا آج گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ ملکی آبادی دو فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور گندم کی پیداوار اس حساب سے نہیں بڑھ رہی ہے ۔ اس سال گندم کی پیداور ہدف سے سولہ لاکھ ٹن کم ہونے کا امکان ہے جس کی وجہ سے چھبیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ گندم کی پیداوار کا تخمینہ 28.4 ملین ٹن لگایا گیا تھالیکن پیداوار 26.8 ملین ٹن بھی نہیں ہورہی۔ اب اس کمی کو درآمدات کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ گندم کا زیر کاشت رقبہ بھی 9.3 ملین ہیکٹرز سے کم ہو کر 9.1 ملین ہیکٹر رہ گیا ہے کیونکہ کاشتکار دوسری فصلوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
ہمارے ہاں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پڑوسی ممالک سے بہت کم ہے جسکی وجہ فصل کی کٹائی کے بعد کے نقصانات،اسٹوریج کے نامناسب انتظام، پانی سرمایہ کاری اورریسرچ کی کمی، غیر معیاری بیج، مہنگی کھاد، قدیمی طور طریقے، قرضوں کے حصول میں مشکلات اور جعلی زرعی ادویات شامل ہیں۔ فصلوں کی کٹائی کے دوران تقریباً دو سو ارب روپے کی گندم ضائع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے درآمدات کے بل میں ڈیڑھ ارب ڈالر تک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فصل کی کٹائی کے بعد دس سے پندرہ فیصد گندم ضائع ہو جاتی ہے جس کی مالیت 1.3 ارب ڈالر تک ہوتی ہے۔ یہ سارے نقصانات کم رقبے والا کسان اٹھاتا ہے کیونکہ اس کے پاس زمینداری کا کوئی جدید طریقہ نہیں اور ہمارا محکمہ زراعت بھی اس حوالے سے کوئی کام نہیں کررہا۔ صرف برجیوں پر سفیدی کروا کر نیلے پیلے اور لال رنگ سے کیڑے مارنے کا طریقہ ہی بتا کر اپنے کام سے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انکی تنخواہ حلال ہوگئی ۔ہمیں آنے والے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے زراعت میں جدید طریقے متعارف کروانے ہونگے اور غذائی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے مربوط کاوشیں عمل میں لانی ہونگیں۔ تاکہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی تنوع میںعدم توازن ،موسمیاتی تبدیلیوںاور غذائیت کے بحران پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی تیار کی جاسکے۔ اگر اس سلسلہ میں ہم چین کے ساتھ زرعی شعبے میں تعاون کرلیںتو ملک میں غذائی تحفظ کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ چین نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے زراعت کے شعبے میں نمایاں ترقی کی ،چین کے تجربے اور مہارت سے پاکستان اپنی زرعی پیداواری صلاحیت کو نمایاں طور پر بہتر کر سکتا ہے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زراعت ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر اس شعبے کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں کم پیداوار، فرسودہ کاشتکاری کے طریقے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کا فقدان اور پانی کی کمی شامل ہیں۔
چین نے زراعت جیسی جدید ٹیکنالوجیز تیار کرنے میں اہم سرمایہ کاری کی ہے جو فصلوں کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ڈیٹا اور تجزیات
کا استعمال کرتی ہے ان ٹیکنالوجیز کو اپنا کر پاکستان اپنی زرعی پیداوار کو نمایاں طور پر بہتر کر سکتا ہے اور عالمی منڈی میں مقابلہ کر سکتا ہے چین اعلی قیمت والی فصلیں تیار کرنے میں بھی پاکستان کی مدد کر سکتا ہے جن کی عالمی منڈی میں خاصی مانگ ہے چین پھلوں، سبزیوں اور پھولوں جیسی فصلیں پیدا کرنے میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ چین کے ساتھ تعاون بڑھا کر پاکستان اپنی آب و ہوا اور مٹی کے حالات کے لیے موزوں فصلوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور ان فصلوں کو پیدا کرنے کے لیے ضروری انفراسٹرکچر تیار کر سکتا ہے جس سے زرعی پیداواری لاگت کم ہوگی، کارکردگی بہتر ہوگی اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں مقامی باشندوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ حالانکہ پاکستان مختلف فصلات اور پھلوں میںدنیا کے زیادہ پیداواریت کی حامل سرفہرست میں 10 ممالک میں شامل ہے۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہماری فی ایکڑ پیداوار کافی کم ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ 2050 تک دنیا کی آبادی 9 ارب تک پہنچ جائے گی اور اس وقت تقریباً 75 فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہ رہی ہوگی اگر ہم نے بروقت زرعات کی ترقی کی لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو پھر ہم معاشی طور پر کہاں کھڑے ہونگے اس لیے ہمیں مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پائیدارزرعی استحکام کو یقینی بنانا ہوگا اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی کپاس پر بھی توجہ دینی چاہیے ایک دور تھا کہ ہمارے پاس اپنی ذرورت سے زیادہ کپاس ہوتی تھی اور یہ صورتحال ہے کہ سال -23 2022کے دوران پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار تاریخ کی کم ترین سطح تک گرگئی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان چوتھے سے ساتویں نمبر پر پہنچ گیا ہے ۔پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار 49لاکھ12ہزار گانٹھوں تک محدود رہی ہے جو کہ پچھلے کاٹن ایئر کے مقابلے میں 25لاکھ 29ہزار 764گانٹھیں (34فیصد)جبکہ مقررہ ہدف کے مقابلے میں 61لاکھ گانٹھیں کم ہے۔ پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں پچھلے سال کے مقابلے میں تقریبا 21 فیصد جبکہ سندھ میں ریکارڈ 47 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ ملک بھر کے کاٹن زونز میں گنے کی غیر معمولی کاشت اور منفی موسمی حالات سمجھے جا رہے ہیں حالانکہ چند سال قبل تک پاکستان دنیا بھر میں زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چین، بھارت اور امریکہ کے بعد چوتھا بڑا ملک تھا، بعد میں برازیل کا نمبر چوتھا جبکہ پاکستان کا پانچواں ہو گیا تاہم اب پاکستان مزید تنزلی کا شکار ہوکر آسٹریلیا اور ترکی کے بعد ساتویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک بھر کے کاٹن زونز میں گنے کی کاشت پر مکمل پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ موسمیات کو بھی اپ گریڈ کرے تاکہ کاشت کاروں کو درست اور بروقت موسمیاتی پیش گوئیاں ملنے سے کپاس کی فصل کو منفی موسمی حالات سے بچایا جا سکے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر