... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے بعد میںسمجھتا تھا کہ اب پاکستان ضرور ترقی کرلے گا کیونکہ عمران خان اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا جسے ہٹا دیا گیا اسکی پارٹی میں کوئی لیڈر نہیں بچا سبھی دم دبا کر بھاگ چکے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان جیسا نیک سیرت اور پاکباز شخص جسے وزارت نہیں بلکہ وزارتوں سے نوازا گیا۔ پہلی بار وزیر بننے کے بعد جس کے پاس خاتون سے مساج کروانے کے بعد اسے دینے کو بھی پیسے بھی نہیں تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ۔وہ بھی گلے شکوے سے پارٹی چھوڑ گیا اس وقت سیاسی میدان تقریبا صاف ہے۔ قومی اسمبلی میں پہلے ہی میدان صاف ہو چکا ہے وہاں بھی کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ راجہ ریاض ہاتھی کا وہ دانت ہے جو صرف دکھاوے کے لیے ہوتا ہے ۔پی ڈی ایم اور باقی ساری جما عتیں بمعہ اسٹیبلشمنٹ حکومت میں ہیں ۔ اس لیے پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا۔ ساری پارٹیاں آپس میں شیر وشکر ہوں گی نہ کوئی دھرنا ہوگا اور نہ ہی کوئی احتجاج ،فیس بک پربھی تنقیدی اوازیں دب جائیں گی۔
اسمبلی میں بھی اپوزیشن کی تقریروں اور روز کی چخ چخ سے جان چھوٹ جائے گی۔ اب پاکستان چند سالوں میں چین سے بھی ذیادہ ترقی کر لے گا کیونکہ اب حکومت کی باگ ڈور کہنہ مشق،ایماندار دنیا اور عالم اسلام کے بہترین رہنماؤں نواز شریف بمعہ اہل خانہ،زرداری بمعہ اہل خانہ،فضل الرحمن بمعہ اہل خانہ اور دیگر زعماء کے ہاتھ میں ہیں ۔اس کے علاوہ اس حکومت کے ساتھ حضرت مولانا فضل الرحمان مد ظلہ ان کی جماعت سے منسلک ہزاروں علما اور ان کے لاکھوں پیروکاروں کی دعائیں بھی ساتھ ہوں گی اور ساتھ میں مولانا صاحب نے تھائی لینڈ میںجو چلہ کشی کی ہے ۔ اس کے بھی اثرات نمایا ں ہو نگے، جلد ہی روپیہ کی قدر ڈالر سے بڑھ جائے گی۔ ملک میں امن امان کا دور دورہ ہوگا۔ صنعتی اور ٹیکنالوجیکل انقلاب برپا ہوجائے گا ۔گوگل،فیس بک اور دوسری ٹیک کمپنیوں کے سی ای اوز پاکستانی ہوں گے۔ یورپ والے پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلے اور پاکستانی ویزے کے لئے منتیں ترلے کرتے نظر ا ئیں گے، کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام دنیا کا سب سے بہترین تعلیمی نظام ہوگا ۔ہر سال ہزاروں لاکھوں سائنسدان ان یونیورسٹیوں سے فارغ ہوکر نت نئی ایجادات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امریکہ،چین اور یورپ سے لوگ لاعلاج امراض کے لئے پاکستانی ہسپتالوں میں ائیں گے جی ڈی پی گروتھ ریٹ 22 فیصد سالانہ ہوجائیگی ۔پاکستانی اگر ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور ہو جائیں گے مہنگائی کا نام ونشان نہیں رہیگا۔زر مبادلہ کے ذخائر کھربوں ڈالر ہو جائیں گے اور بہت سارے ممالک ہمارے مقروض ہونگے، مگر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ سبھی تدبیریں الٹی ہوگئی اور ملک میں اس وقت کم شرح نمو، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری، گرتی ہوئی سرمایہ کاری، وسیع ہوتا ہوا تجارتی اور مالیاتی خسارہ، غیر یقینی طور پر کم غیر ملکی ذخائر، قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم اور بیرونی عدم توازن کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، جس کی بنیادی وجہ پالیسیوں میں عدم مطابقت ، سیاسی عدم استحکام اورمتضاد اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عملدرآمد بشمول توانائی کی سبسڈی ختم کرنے سے عام لوگوں کے معاشی حالات مزید خراب ہوگئے جس کی وجہ سے ہم بلند افراط زر، روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر گراوٹ اور اشیائے ضروریہ کی شدید
قلت کے ساتھ ایک مفلوج معاشی بحران کا شکار ہو گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 10 فروری 2023 تک زرمبادلہ کے ذخائر 3.1 بلین ڈالر کی خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 60 کھرب روپے سے زائد ہو چکے ہیں ۔ہر شہری پر قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک 21 فیصد اضافے سے 216,708 روپے تک پہنچ گیا ہے جو دن بدن بڑھتا ہی رہے گا اور یہی قرضہ ہماری معاشی بدحالی کی وجہ ہے پوری قوم مل کر اس قرضہ کو اتارنے میںلگی ہوئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنہوں نے ملک کے نام پر قرضے لے کر خود کھائے وہی ادا کریں۔ اس وقت بھی ملک میں عالمی مالیاتی ادارے کا 23واں پروگرام چل رہا ہے اور ملک آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے آج ہم اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے بھی دوچار ہیں حکمرانوں اورمقتدرقوتوں کی لوٹ مار کی وجہ سے عوام نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہر طرف بدعنوانی کا دوردورہ ہے تعلیم وصحت ،خوراک سمیت ہرپراجیکٹ میں کمیشن خور مافیا اپنے دانت تیز کیے بیٹھا ہے بڑھتی غربت اور بے روزگاری نے نوجوانوںکو بدعنوانی،جہالت،ناانصافی اورسائل کی لوٹ مار نے تباہ کر دیا ۔ مفت آٹا اسکیم میں 22ارب روپے سے زائد کی کرپشن نے حکمرانوں کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے لوٹ مار کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس قسم متعدد واقعات ماضی میں بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں اربوں روپے خرد بردکیے گئے ۔غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے نام پر اربوں روپے کی بوکس پراجیکٹ بنائے جاتے رہے۔
ملک و قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ جو بھی بر سرا قتدار آیا اس نے لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سوا کچھ نہیں کیاقومی خزانے کو بے دردی سے لوٹاگیااور کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے سبھی ادارے تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں کرپٹ افراد کی کرپشن کو روکنے والا کوئی نہیں نیب سمیت چیک اینڈ بیلنس بر قرار رکھنے اورانسداد بد عنوانی کے تمام ادارے ناکام اور ان کے تمام حربے بے سود دکھائی دیتے ہیں آئے روزکرپشن کی داستانیں منظر عام پر آ رہی ہیں اور دنیا مریخ پر پہنچ گئی مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی کے میدانوں میںانقلاب آرہے ہیں اورہمارے یہاں 80فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں بجٹ بنانے کے لیے حکومت ٹکٹکی باندھ کر آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ ادارے ،سیاسی جماعتیں مفادات کے لیے دست وگریبان اور عوام غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے لڑ رہے ہیں۔ وسائل پر دو فیصد حکمران اشرافیہ قابض ہے جنہوں نے قوم کو تعصبات پر تقسیم کیا گیا جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے قوم کو تقسیم کر کے فائدہ اٹھایا اور اقتدار پر قابض رہے جنکی غلط معاشی پالیسیوں کا نتیجہ غیر موثر اقتصادی پیداوار، بے روزگاری، افراط زر، آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات، تجارتی خسارے اور کم سرمایہ کاری کا باعث بنتا ہے۔ زراعت میں جدت نہ ہونے کی وجہ سے تباہی کی جانب گامزن جعلی ادویات کی بھر مار ہے ۔
٭٭٭