... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیس برس سے مسلسل اقتدار میں رہنے والے 69 سالہ طیب اردگان آخرکار باون فیصدووٹ لیکر تیسری بار ترکیہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں ۔پارلیمان کی چھ سو نشستوں پر پہلے ہی حکومتی ا تحاد کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے جبکہ مدمقابل چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد کے متفقہ امیدوار کمال کلی چی داراوغلوجو ایک چوہترسالہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں۔48 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پررہے۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ حالیہ الیکشن نو منتخب صدر کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین تھاکیونکہ اسلام پسندوں کی حمایت کے باوجود چودہ مئی کو پچاس فیصد ووٹ نہ لے سکے۔ مگر 28مئی کو دوسرے مرحلے کے دوران آخرکارجیت گئے اور جیت چاہے چند ووٹوں سے ہی کیوں نہ ہو جیت بہرحال جیت ہوتی ہے۔ اُن کی جیت سے مغربی میڈیا اور امریکہ میں مایوسی کی فضا ہے۔ عام قیاس یہ ہے کہ آئندہ پانچ برس بھی ترکیہ کے خارجہ تعلقات میں تبدیلی کی بجائے اپنی پسند کے مطابق ہی رکھیں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی مسائل حل کرنے کے امتحان میں بھی کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ کامیابی سے سرشار نومنتخب صدر عالمی رہنمائوں سے مبارکبادی پیغامات وصول کرنے جبکہ اُن کے حامی سڑکوں پر فتح کا جشن منانے میں مصروف ہیں مگر ذہن نشین رکھنے والی بات یہ ہے کہ بے شمار ایسے مسائل ہیں جو فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ وگرنہ خوشی کادورانیہ کم ہو سکتا ہے۔
موجودہ صدرکو جولائی 2016میں فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے دارالحکومت سے باہر ہونے کے باوجود نصف شب کے قریب ایک مختصر خطاب کے ذریعے عوام سے گھروں سے نکلنے کی اپیل کی۔ اِس اپیل پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے اور فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ کر فوجی بغاوت کو ناکام بنادیاجس کے بعد نہ صرف ملک سے فوجی بغاوتوں کا سلسلہ ختم ہوچکاہے بلکہ بغاتوں کو عدلیہ کی طرف سے جواز فراہم کرنے کا امکان بھی ختم ہو گیاہے ۔رواں ماہ چودہ مئی کوہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار نو منتخب صدر 49.5ووٹ لیکر اول رہے جبکہ حزبِ اختلاف کے چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار کلی چی داراغلو 44.8ووٹ لیکردوسرے نمبر پر آئے تیسری پوزیشن پر رہنے والے امیدوار سینان اغان کل ڈالے گئے ووٹوں کا محض 5.2 فیصدحاصل کر سکے ۔ترکیہ کی تاریخ کایہ پہلا صدارتی انتخاب ہے جس میں پہلے مرحلے کے دوران کوشش کے باوجود کوئی امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکا ۔دوسرے مرحلے کی فتح کو آسان بنانے میں چودہ مئی کو تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کا کلیدی کردار ہے۔ اگر یہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کی حمایت کرتے تو طیب اردگان شایدہی جیت پاتے ۔مگر اپوزیشن کی طرف جانے کی بجائے حکومتی امیدوار کا ساتھ دینے سے انتخابی پانسہ ہی پلٹ گیااور طیب اردگان کی تیسری بار صدربننے کی راہ ہموارہوگئی۔ بیس برسوں کے دوران وہ کوئی انتخاب نہیں ہارے اور مسلسل جیت رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ چودہ مئی 2003 سے لیکراگست 2014تک وزیرِ اعظم کے منصب پر بھی فائز رہے۔ اگست2014 میں پہلی بارملک کے بارہویںصدرکی حیثیت سے حلف اُٹھایا۔ استنبول بلدیہ کے سربراہ کے طورپر بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور فلاحی کاموں سے ملنے والی شہرت نے اُنھیں ملکی سطح کا رہنما بنادیا۔ اُن کے دوراقتدار میں تعلیم ،سائنس وٹیکنالوجی ،معیشت ،صحت جیسے میدانوں سمیت ہرشعبہ زندگی میں ترکیہ نے ایسی بے مثال ترقی کی کل کا مرد بیمار ترکیہ آج کا مردآہن بن گیاہے۔ ترکیہ دنیا کی تیزی سے اُبھرتی ایسی معیشت ہے جو جی ڈی پی کے حوالے سے دنیا کی سترہویں سب سے بڑی معیشت ہے ۔اِس ملک کا ارب پتیوں کے حوالے سے دنیا میں چوتھا نمبر ہے ۔ یہ ملک ہر سال آنے والے تین کروڑ سیاحوں سے 22 ارب ڈالرکی خطیررقم کماتا ہے۔ تعمیراتی صنعت چین کے بعد دوسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ اِس ملک کی 33 ایسی کمپنیاں ہیں جو دنیا بھر کی سب سے بڑی کمپنیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ یہ ترقی اردوان کی پالیسیوں کی مرہونِ منت ہے ۔9جولائی 2019 کو صدارتی نظام کے نفاذکے بعد پہلے صدر کے طورپرحلف اُٹھاکر اختیارات سنبھالے ویسے عملی طورپر2014سے اب تک اسی عہدے پر موجودہیں ۔وہ اِس وقت مسلم دنیا کے نمایاں رہنمائوں میں سے ایک ہیں کیونکہ عالمی سطح پر مظلوم مسلمانوں کے لیے اُن کی آوازہمیشہ توانا اور پُرجوش رہی ہے مگرطویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود اگر داخلی مسائل حل کرنے میں اب بھی ناکام رہے تو عوام میں بے زاری و اضطراب پیداہونا فطری بات ہے اپوزیشن امیدوار کے حاصل کردہ ووٹ کافی حیران کُن ہیں جس کا مطلب ہے کہ ترک عوام آجکل بے زاری و اضطراب کے دوراہے پر کھڑے ہیں اگر عوامی اعتماد بحال رکھنا ہے تو داخلی مسائل بھی حل کرنا ہوںگے۔
ترکیہ اِس وقت کئی اندرونی اور بیرونی مسائل کے بھنورمیں ہے نہ صر ف کرنسی کی قدرگررہی ہے بلکہ تباہ کُن زلزلے سے صنعتی و زرعی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔ نو منتخب صدر نے زلزلہ متاثرین کو ایک برس میں 19ہزار گھر بنا کر دینے کے ساتھ گھریلو صارفین کو مفت قدرتی گیس فراہم کرنے اور پچیس کیوبک میٹر تک ماہانہ گیس استعمال کرنے والوں کو ایک برس تک مفت سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زوال پزیر ترک معیشت اتنی بڑی چھوٹ کی متحمل ہو سکتی ہے کیونکہ ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کے پہلے جوہری پلانٹ کی تکمیل ،مقامی طورپر تیار کی گئی پہلی الیکٹرک کار،زمین پر نظر رکھنے کے لیے سیٹلائٹ کی لانچنگ ،بحری دفاع کو بہتر بنانے کے لیے ملک کے سب سے بڑے جنگی جہاز کی تیاری اور جدید ترین ٹینک فوج کے حوالے کرناکارنامہ سہی مگر مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کا رجحان بھی ایک حقیقت ہے اگر پالیسیوں میں تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو لامحالہ عوامی نفرت جنم لے گی ۔
بظاہرسرد جنگ کا زمانہ نہیں مگر امریکہ اور چین مخاصمت میں اب کوئی ابہام نہیں رہا دونوں بڑی معاشی طاقتیں ایک دوسرے کو تجارتی و معاشی حوالے سے زیر کرنے کی تگ و دو میں ہیں اِس تگ ودومیں روس بھی امریکی مخالفت میں پیش پیش ہے جس سے تجارتی ومعاشی لڑائی مزید وسعت اختیار کرگئی ہے حیران کُن طور پرگزشتہ کئی برس سے ترکیہ نے اپنا وزن روسی پلڑے میں ڈال رکھا ہے جس پر امریکہ اور مغربی ممالک نے ایک سے زائد بار ناپسندیدگی کا اظہاربھی کیا اور سفارتی زرائع سے پیغامات بھی دیے پھربھی نیٹو کا ممبر ہونے کے باوجود روس سے جدید ترین میزائل نظام خرید نے پرترکیہ نے نظرثانی نہیں کی شاید اسی وجہ سے 2016سے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے تعطل کا شکار بات چیت کا عمل آج تک بحال نہیں ہو سکا نیٹو کی توسیع میں بھی ترکیہ کے تعاون میں سُستی واضح ہے سویڈن نے نیٹو کی رُکنیت
کے لیے درخواست دے رکھی ہے لیکن منظوری کا عمل ترکیہ کی طرف سے رضامندی نہ ملنے کی بنا پر ہنوزنامکمل ہے مگریونان سے تنازعات کے باوجوداِس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ترک مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار مغربی ممالک ہیں لہذا طیب اردگان کو حقیقت پسند ہو کر معاملات دیکھنا ہوں گے وگرنہ جتنی تاخیر ہوگی ملکی معیشت مزیدغیر ہموار ہوتی جائے گی۔
حالیہ صدارتی انتخاب کی اچھی بات یہ ہے کہ طیب اردگان کو اپنی پالیسیاں جاری رکھنے کا ایک اور موقع مل گیا ہے لیکن یہ موقع حاصل کرنے کی لیے اُنھیں کئی سخت مراحل سے گزرناپڑا ہے اقلیتی فرقے سے تعلق کے باجود حزبِ اختلاف کے امیدوار نے 48فیصدووٹ لیکرسب کو چونکا دیا ہے حالیہ انتخابی نتائج ترک معاشرے میں نمو پاتی اِس سوچ کا اظہار ہیں کہ وہ ملک میں موجود3.7 ملین شامی مہاجرین کو بوجھ تصور کرتے ہیں جس نے نہ صرف ملک کی معاشی حالت کمزور کی ہے بلکہ ر وزگار کے کے مواقع بھی کم کیے ہیں اردگان لاکھ کہانیاں سُنائیں اُنھیں شامی مہاجرین کے بارے بھی جلد کوئی ایسا فیصلہ کرنا ہوگا جس سے اُن کی اپنے وطن جانے کی راہ ہموار ہو وگرنہ حالیہ صدارتی انتخاب اُن کے سیاسی کردار کا اختتامی نکتہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔