... loading ...
روہیل اکبر
الحمرا آرٹس کونسل تاریخ کے زندہ اوراق کی لازوال داستانوں میں سے ایک ہے مگر جس طرح ہمارے دوسرے قومی اداروں کا حشر ہو ا ہے، اس سے بھی بڑھ کر اس ادارے کی عزت اور وقار کو مجروع کیا گیا ، اقربا پروری اور لوٹ مار کی داستانیں تو ہیں ساتھ میں یہاں ترقیوں کی لوٹ سیل اور کلچر کے نام پرجو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ بھی ناقابل یقین ہے اس ادارے میں ترقیوں کا ایسا طوفان ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔یہاں جو کمانے اور کھلانے والا ہے وہ دنوں میں گریڈوں کی سڑھیاں پھلانگتا ہوا 17اور 18ویںا سکیل میں پہنچ جاتا ہے۔ 10ویں گریڈ میں آنے والا چند سالوں میں گریڈ 19حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے اسکولوں کے قابل فخر اساتذہ کرام نوکری کے پہلے دن سے جس ا سکیل میں آتے ہیں اسی میں ریٹائر ہوکر گھر چلے جاتے ہیں۔ سرکاری ا سکولوں میں پڑھانے والے ہمارے روحانی باپ اپنے بچوں کو پرائیوٹ ا سکول میں پڑھا نہیں سکتے اور بیرون ملک بچوں کو پڑھانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ اپنی تنخواہ سے گھر کا چولہا جلانے والے ساری عمر اپنا گھر نہیں بنا سکتے۔ اچھی سواری نہیں رکھ سکتے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد گزر بسر کے لیے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیتے ہیں۔
16ویںاسکیل میں آنے والے ایس ایس ٹی 15سال قوم کے بچوں کامستقبل بناتے بناتے اگلے ا سکیل کی خواہش لیے بزرگی کی دہلیز پر قدم رکھ دیتے ہیں، مگر ان کی ترقی نہیں ہوتی ۔ ہماری ٹاپ کی بیوروکریسی میں سے اکثریت انہی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سے پڑھی ہوئی ہے، نہ انہوں نے اپنے اساتذہ کے بارے میں سوچا اور نہ ہی کسی حکومت نے اب نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اس طرف توجہ تو دے رہے ہیں۔ ٹیچرز ابھی تک اپنی ترقیوں سے محروم ہیں۔ کیا ہمارے استاد کرپشن نہیں کرسکتے ،کیا وہ بھی دوسروں کا حق نہیں کھا سکتے۔ کیا وہ لوٹ مار نہیں کرسکتے، کیا وہ اپنی نوکری سے بددیانتی نہیں کرسکتے ،کیا وہ ا سکولوں کے فنڈز ہضم نہیں کرسکتے ،کیا وہ کلچر کے نام پر فحاشی نہیں پھیلا سکتے، کیا وہ بھی اپنے بچوں کو مہنگے پرائیوٹ سکولوں اور یورپ میں نہیں پڑھا سکتے ؟ وہ یہ سب کام بڑے احسن انداز سے کرسکتے ہیں اورایک شاطر قسم کے نوسر باز سے زیادہ کرپشن کرسکتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے کیونکہ ان کے سامنے قوم کا مستقبل ہوتا ہیوہ خود ہر پریشانی اور ظلم برداشت کرلیتے ہیں۔ اپنی تنخواہ کے علاوہ کسی سے کوئی امید اور توقع نہیں رکھتے کیونکہ والدین کے بعد استاد ہی وہ شخصیت ہوتی ہے جو بچے کو وطن سے محبت سکھاتی ہے حالانکہ ان اساتذہ کو جب کبھی اپنے ہی متعلقہ دفتر میں کام پڑ جائے تو وہاں پر بیٹھے ہوئے کلرک بادشاہ سے لیکر اوپر تک افراد نے ہر کام کے ریٹ مقرر کررکھے ہیں۔ خاص کر خواتین ٹیچروں کو تو کھاجانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک پہنچ گئی؟ الحمرا کی بات کررہا تھا کہ اتنا شاندار ماضی رکھنے والی اس عمارت کے اندر بیٹھے ہوئے افراد بھی ہمارے باقی اداروں کے کرپٹ مافیا سے کسی طور بھی کم نہیں۔ یہاں پر نہ تو کوئی ڈھنگ کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر لگ سکا اور نہ ہی اس ادارے کی شان و شوکت بڑھانے والا کوئی فرد آیا۔ اس ادارے میں سفارش پر بھرتی ہونے والوں نے خوب ترقی کی ۔مال بنایا مدت ملازمت ختم ہوئی تو دوبارہ پھر آرڈر کروالیے اس ادارے کی جتنی شاندار اور تاریخی حقیقت ہے اتنی ہی جاندار یہاں کرپشن ہوتی ہے۔ ابھی حال ہی میں
ریٹائر ہونے والا ذوالفقار زلفی گریڈ10سے 19میں پہنچ کر ریٹائر ہوگیا۔ ناصر کھوسہ جب چیف سیکریٹری پنجاب تھے تو اس دور میں موصوف اینٹی کرپشن کے قابو میں بھی آئے لیکن نوکری بچ گئی اور ترقیاں بھی ملتی رہی اور اب پھر انہیں الحمرا کی خدمت ٹرپا رہی ہے کہ دوبارہ آنے کے لیے اپنی ڈوریاں ہلانا شروع کردی۔ امید ہے وہ دوبارہ پھر اسی طرح الحمرا کی خدمت کا مشن جاری رکھیں گے جس طرح پہلے کرتے رہے ہیں اگر ترقیوں کا یہی معیار رکھنا ہے تو پھر باقی اداروں میں بیٹھے ہوئے نان گزٹڈ ملازمین کا کیا قصور ہے؟ انہیں بھی گریڈ 18اور 19سے نواز دیا جائے پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ تعلیم کی اگر ان پوسٹوں پر قابل افراد کو لگایا جائے تو ادارے بھی ترقی کریں گے اور پاکستان بھی آگے نکلے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم پستی اور کرپشن کی انتہا تک تو پہلے ہی پہنچے ہوئے ہیں ۔اخلاقی لحاظ سے بھی ہم تباہ ہوجائیں گے۔
الحمرا کی تاریخ اور اسکی خوبصورتی دیکھیں کہ سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی یہ عمارت کو الحمرا آرٹس کونسل (الحمرا ہال، الحمرا کلچرل کمپلیکس، الحمرا آرٹ گیلری اور لاہور آرٹس کونسل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جسکا ڈیزائن نیئر علی دادا نے بنایا تھا اوریہ 1992 میں مکمل ہوا تھا الحمرا آرٹس کونسل لاہور شاہراہ قائد اعظم (مال روڈ) پر واقع ہے۔ آرٹس کمپلیکس کی ابتدا نیئر علی دادا کے الحمرا آرٹس کونسل (AAC) کے لیے 1000 نشستوں پر مشتمل آڈیٹوریم ڈیزائن کرنے کے ابتدائی کمیشن سے ہوئی جس کے وہ ایک ہی رکن تھے الحمرا آرٹ کونسل کو حکومت نے یہ جگہ آزادی کے فوری بعد دے دی تھی کہ یہاں پر کلچر اور کلچر سے وابستہ افراد کو پرموٹ کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے اس ادارے نے کلچر کو تو پس پشت ڈال دیا خود کو اس بے دردری سے پرموٹ کیا کہ دوسرے ادارے والوں کی بھی خواہش رہی کہ اس ادارے میں ایک بار تعیناتی ہو جائے تو پھر انہیں کسی اور جگہ جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں ہر چیز کھلی اور وافر دستیاب ہے۔ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں اور ترقیاں بولی میں ملتی ہے۔ کلچر یہاں ایسا ہے کہ رات کو چلنے والے اسٹیج ڈراموں میں گانوں پر واہیات ڈانس اور تہذیب سے ہٹ کر بولے جانے والے جملے سادہ لوح شہریوں کے ذہنوں پر برا اثر ڈالتے ہیں ۔قبضہ گروپ ایسے ہیں کہ کسی نئے آدمی کو گھسنے نہیں دیتے ۔آئندہ کئی کئی سالوں کے لیے ہال بک کردیے گئے ہیں۔ جب اس ادارے میں کوئی آتا ہے تو بے سروسامانی کی حالت ہوتی ہے اور یہاں سے وہ رخصت ہوتا ہے تو اسے زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہوتی ہیں۔ اسی لیے تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لوگ اس ادارے کی جان نہیں چھوڑتے ۔رہی بات چیئرمین کی اسے ابھی تک کسی نے قبول ہی نہیں کیا ۔