... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سری نگر میں 22 سے 24 مئی 2023 تک ہونے والا متنازع Gـ20 کا اجلاس کشمیریوں کے احتجاج کی بدولت دنیا بھر کی نظروں میں آگیا۔ بھارت نے اپنی طرف سے چالاکی اور ہوشیاری دکھائی تھی جو اسی کے گلے پڑ گئی ۔اب پوری دنیا کو علم ہو چکا ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کا متنازع علاقہ قرار دیا گیا ہے، جہاں اقوام متحدہ کا کوئی بھی رکن یکطرفہ اجلاس نہیں کر سکتا اور رکن ممالک متنازع کشمیر کی حقیقت کو چھپانے کے لیے بھارت کے مذموم عزائم کا حصہ نہ بنیں کیونکہ ہندوستان جموں کشمیر پر اپنی جبری حاکمیت ثابت کرنے اور جنگی جرائم چھپانے کیلئے G20 کا اجلاس کرنا چاہتا ہے۔ مودی حکومت جو کشمیریوں کی قاتل ہے وہ مقبوضہ کشمیر جی 20 ممالک کا اجلاس کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی ریاست جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دے رکھا ہے۔ بھارت دھوکا دہی سے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 ممالک کی تنظیم کااجلاس منعقد کرکے کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا چاہتا ہے کشمیری رہنمائوں فاروق آزاد ،آفتاب نازکی اور شہزاد نازکی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ایما پر منعقد ہونے والے G20 ممالک کے اجلاس پر ریاست کے دونوں اطراف احتجاج کی کال دے کر اپنے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کی جدو جہد میں عوام ان کے شانہ بشانہ ہیں اور ہم اپنی آزادی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
ریاست بھر کی تمام سیاسی جماعتیں اور اہل کشمیر تحریک آزادی کی کامیابی کے لئے متحد و منظم اور بھرپور باہمی اتحاد واتفاق ہے G20 ممالک سے بھی کشمیری یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ سرینگر میں ہونے والے سیشن میں شرکت نہیں کریں گے جبکہ چین اور ترکی نے بھارت کے زیر اہتمام G20 ممالک کے اجلاس میں عدم شرکت کا اعلان کر کے کشمیریوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جس پر کشمیری ان ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور باقی شامل ممالک سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کریں گے اور G20 کے ممالک متنازع علاقے سرینگر میں اجلاس سے گریز کریں بھارت G20 ممالک کو سرینگر لے جاکر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ بھارت دنیا کابڑا دہشت گرد ملک ہے جس نے 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35A میں ترامیم کرکے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی بین الاقوامی جارحیت کی ہے کشمیری قوم پر بھارت نے ظلم و جبر کے تمام تر ہتھکنڈے اور جبر کرکے دیکھ لیا لیکن وہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کرسکا۔ آج بھی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی کرفیو اور گولیوں کے سائے میںپاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں اور کشمیری قیادت سید علی گیلانی کے نعرہ ” ہم ہیں پاکستانی اور پاکستان ہمارا ہے ” پوری وادی میں گونج رہاہے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے جبر سے جو بھی کشمیری شہید ہوتا ہے تو اسے بھی پاکستانی پرچم میں دفن کیا جاتا ہے۔ اس لازوال رشتہ کو ختم کرنے کے لئے ہندوستان نے کھربوں روپے اپنی فوج پر خرچ کیے لیکن وہ کشمیریوں کے ضمیر نہیں خرید سکے۔ یہی وجہ ہے کہ نام نہاد جمہوریت کے دعوے دار بھارت کے ہاتھوں 75 سالوں سے کشمیریوں کی نسل کشی کا بدترین سلسلہ جاری ہے۔ 1947 سے اب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے۔ 1989 سے اب تک 96 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں اور 23 ہزار کشمیری خواتین بیوہ اور ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہو ئے، 1990 میں ہنڈواڑہ، تینج پورہ اور زکورہ، 1993 میں سوپور، لال چوک اور بیجی بہارہ جبکہ 1994 میں کپواڑہ میں قتل عام کے ذریعے ہزاروں کشمیریوں کو شہید کیا گیا ۔بھارتی فوج کشمیر میں 11 ہزار سے زائد خواتین کے ساتھ زیادتی جبکہ 7 ہزار سے زائد ماورائے عدالت قتل کر چکی ہے۔ 6 جنوری 1993 کو سوپور میں 43 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ 300 دکانوں کو نذر آتش اور 100 سے زائد گھروں کو مسمار کر دیا گیاتھا۔ جنوری 1994 کو کپواڑہ میں 27 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ 6 جولائی 2016 کو برہان وانی کی شہادت کے بعد 200 سے زائد لوگوں کو احتجاج کے دوران شہید کیا گیا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کو دس لاکھ فوج کے ذریعے چھانی میں تبدیل کر چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس کی تنظیمیں کشمیریوں کے قتل عام کی کئی بار مذمت کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کر چکی ہیں کہ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کے ذریعے تحریک آزادی کو دبانا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر میں شرکت کرنے والے G-20 ممالک کے اراکین بھارت کی طرف سے کشمیریوں کی نسل کشی پر باز پرس کریں گے؟کیونکہ ہندوستانی فورسسز نام نہاد اور سرچ آپریشن کے دوران بسے گناہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کررہی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کو تشدد کے عقوبت خانوں میں پھینک رکھا ہے ۔ Gـ20 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہونے کے ناطے کشمیر میں بھارتی مظالم رکوانے میں مدد کریں اور کشمیریوں کا دنیا بھر کے انصاف پسند ممالک سے مطالبہ بھی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی اپنی خصوصی حیثیت کو بحال کروائیں اور بھارتی آئین میں اقوام متحدہ کے قراردادوں کے منافی ترامیم کو بھی ختم کروائیں ایک اور اہم بات کہ بھارت نے ریاست میں کشمیری کی آواز دبانے اور ان کی آزادی سلب کرنے کے لیے 10 لاکھ فوجی تعینات کررکھے ہیں جنہوں نے نہتے کشمیری قوم کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ انہیں فوری طور پر واپس ہندوستان بھیجا جائے ۔آخر میں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے درخواست ہے کہ ملک میں افراتفری اور جلائو گھرائو کی آڑ میں جو بے گناہ خاندان پکڑے ہوئے ہیں اور ان پرایک دوسرے کے سامنے تشدد کیا جاتا ہے انہیں رہا کیا جائے اور جو پولیس پنجاب میں بنگلہ دیش والا قصہ دھرا رہی ہے۔ وہ بھی ختم کیا جائے۔
٭٭٭