وجود

... loading ...

وجود

نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے

منگل 23 مئی 2023 نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے


آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے لاہور کا دورہ کیا جس کے دوران انھوں نے جناح ہاؤس کا بھی جائزہ لیا۔آرمی چیف نے کور ہیڈ کوارٹر میں افسران اور سپاہیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فوج عوام سے ہی اپنی قوت حاصل کرتی ہے اور دونوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش ریاست کے خلاف عمل ہے جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔آرمی چیف نے کہا کہ جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن دشمن کی ایسی کوششوں کو قوم کی مدد سے شکست دی جائے گی۔
ایسے اشتعال انگیز بلووں کا ایک فوری اقدام تو اس جلاؤ گھیراؤ میں براہ راست ملوث افراد کے خلاف ملکی آئین و قوانین کے تحت کارروائی ہوتی ہے،اور آرمی چیف کے مطابق اس عمل کا آغاز کیا جا چکاہے اور جو نوجوان جلاؤ گھیراؤ کے اس قابل مذمت کام میں براہ راست شریک تھے فوجی عدالتوں کے ذریعے انھیں آرمی چیف کے بیان کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں گی۔ایسے اشتعال انگیز بلووں میں شریک لوگوں کو سخت سزائیں دینے کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی جاسکتی لیکن ملک کی دائمی سلامتی اور استحکام کیلئے ایک ناگزیر عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہمہ جہت فکری تجزیاتی تحقیق یہ ہو کہ ہمارا جفاکش پاکستانی۔ دہشت گردی کا شکار نوجوان۔ غربت اور بے روزگاری کے تھپیڑے سہتا جواں سال پاکستانی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر میں ناکام رہتا پڑھا لکھا نوجوان اس انتہا کی طرف کیوں گیا ہے۔ اس کیلئے یقینا عمران خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد سے گزشتہ ایک سال کی تقریروں پر بھی غور کرناہوگا،لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ عمران خان کی تندوتیز اور تلخ باتوں کو نوجوانوں نے اتنی جلدی قبول کیوں کیا اور 9 مئی کو ایسے شدید ردعمل کا اظہار کیوں کیا گیا جس کے بارے میں خود عمران خان نے بھی نہ سوچا ہوگا۔9 مئی کے واقعات کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ یک سال کی اکساہٹ یا جھنجھلاہٹ کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ اس کے اسباب جاننے کے لئے ہمیں گزشتہ کم از کم 3 عشروں کے سول اور فوجی حکمرانوں کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا ہوگا۔ 20 سے 40 سال تک کے یہ پاکستانی انہی ادوار میں پیدا ہوئے۔ پلے بڑھے۔ ان کے ماں باپ بھی پاکستانی ہیں۔ نہ جانے انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہوں گی۔ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھوں نے حق کا ساتھ دینے کے جرم میں کوڑوں کی سزا پائی اور قیدوبند کی سزائیں بھی کاٹیں،ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھیں ان کے اداروں کے دولت کے پجاری مالکان کو ہدایت دے کر ملازمتوں سے فارغ کیاگیا اور پھر ان پر باعزت روٹی کمانے کے تمام دروازے بند کردئے گئے اگر کوئی ادارہ انھیں ملازمت دینے کی جرات کرتا تو اس کے اشتہار بند کردیے جاتے اور انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں کے کھاتے کھول کر اسے اس صحافی کو فارغ کرنے پر مجبور کیا جاتاجو عزت کے ساتھ قلم کی مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا چاہتاتھا،ان میں ان کاشتکاروں کے بچے بھی شامل ہوں گے جن کے اناج سے بھرے گوداموں کو محض حکومت وقت کی مخالفت کی پاداش میں نذر آتش کرکے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کرلئے جاتے تھے،ظاہر ہے کہ یہ لاوا ایک دن میں نہیں پکا،وقت کرتاہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، ریاست کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ان غصے اور محرومیوں کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کے دلوں میں ابلتے ہوئے لاوے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے ان کی اصلاح کرے نہ کہ انہیں مستقل تخریب کار بنادیا جائے۔
پاک فوج نے گزشتہ کئی برس سے انتہاپسندی Deradicalisation کے خاتمے کا ایک بہت اچھا پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔ اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے ذہنوں میں جھانکا جائے، یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ان کے ذہنوں پر ابھی تک اپنے والد یادادا کو کوڑے لگائے جانے کے نقش تو موجود نہیں ہیں،ان نوجوانوں کے ذہن میں اپنے باپ یا دادا کو بلاوجہ بے روزگار کرانے جانے کے سبب گھر میں ہونے والے فاقوں کے اثرات ابھی تک موجود تو نہیں ہے،یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ نوجوان کسی ایک یا درجن بھر تقریروں سے اتنا متاثر کیوں ہوئے کہ انھیں کچھ سوچے سمجھے بغیر وہ سب کچھ کرڈالا برسوں کی منصوبہ بندی کے باوجود عام حالات میں کوئی سیاسی جماعت اپنے کارکنوں سے جو نہیں کرواسکتی تھی یہ نوجوان ان مقامات کی طرف جانے پر کیوں آمادہ ہوئے۔ پھر ان محفوظ مقامات میں انہیں یہ اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے کی تحریک کیوں پیدا ہوئی،اور ایک ہنگامہ خیز صورت حال میں جب کچھ بھی ممکن تھا، اتنے اہم قومی اداروں اور تنصیبات کے تحفظ کے مناسب انتظات کرنے کے بجائے سرپھرے نوجوانوں کو ان تک پہنچنے کا کھلا راستہ کس حکمت عملی کے تحت فراہم کیا گیا۔پاک فوج نے ماضی میں بھی سرجریاں کی ہیں،کراچی میں ایم کیوایم کے کارکنوں کے خلاف بھی ایسی کارروائیاں کی جاچکی ہیں،بلوچستان میں بی ایل اے یعنی بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف بھی ایسے آپریشن کیے جاتے رہے ہیں لیکن حقائق واضح ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی کارروائی کوئی بھی سرجری نہ صرف کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے جتھے اور گروپ پیدا ہوئے جو آج تک حکومت اور ریاست کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ان ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ یہ اس لئے کامیاب نہیں رہیں کہ بیماری کی تشخیص بھرپور نہیں کی گئی تھی۔ موجودہ 13رکنی حکومتی اتحاد کے رہنماؤں سے تو ایسی فکری کوشش کی توقع عبث ہے۔ کیونکہ ملک کا دائمی استحکام تو ان کی منزل ہی نہیں ہے،ان کی تمام تر توانائیاں اور کوششیں تو صرف اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو میدان سے باہر نکالا جائے،کیونکہ انھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیاہے کہ عمران خان کے رہتے ہوئے انتخابات میں ان کا جیتنا محال ہی نہیں ناممکن ہے،یہی وجہ ہے کہ ان سب کی مشترکہ کوشش نظریہ ضرورت کے تحت عمران خان کو جسد سیاست سے باہر نکالنا اور تاحیات نااہلی کے بعد لندن فرار ہوجانے والے نواز شریف کو دوبارہ لاکر اپنی پسند کی حکومت بنانا ہے۔ ان کی ساری فکری توانائیاں اسی مقصد کیلئے وقف ہیں مگر ہمارے اداروں۔ علما،دانشوروں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں جن میں جماعت اسلامی شامل ہے کو معروضی انداز میں معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو روکنے والے کہاں تھے۔ آگ لگانے والے تو حرکت میں تھے۔ آگ بجھانے والے کہاں تھے۔ پولیس، ایمبولینس، ریسکیو، سب کدھر تھے۔فوری قانونی کارروائی اپنی جگہ ضرور کی جائے۔ لیکن اس
کے طویل المیعاد حل کیلئے سوچنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کیاجائے جس سے اس ملک کے نوجوانوں کے پہلے سے زخمی دل مزید زخمی ہوجائیں ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کے دلوں کے پھپولے پھوڑنے اور ان پر نمک مرچ چھڑکنے کے بجائے ان پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے،ان کو محبت سے اپنا بنانے کی کوشش کی جائے اور فوجی عدالتوں سے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔سوا ل یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب اقتدار سرپھرے نوجوانوں کو سخت سزائیں دلواکر دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کے بجائے ان نوجوانوں کو اپنا گرویدہ اور ملک کیلئے ایک بوجھ اور مسلسل درد سر بنانے کے بجائے اپنا بنانے کی جانب توجہ دینے پر تیار ہوں گے؟


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں! وجود اتوار 22 دسمبر 2024
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں!

عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق وجود اتوار 22 دسمبر 2024
عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق

پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟ وجود اتوار 22 دسمبر 2024
پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟

مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں وجود اتوار 22 دسمبر 2024
مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں

بھارت بنگلہ دیش چپقلش وجود هفته 21 دسمبر 2024
بھارت بنگلہ دیش چپقلش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر