وجود

... loading ...

وجود

طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل

اتوار 21 مئی 2023 طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ کے ذریعہ اڈانی کو کلین چٹ اور جسٹس چندر چوڑ کی موجودگی کے باوجود کرناٹک کے بدنام ِ زمانہ ڈی جی پی پروین سود کا سی بی آئی ڈائرکٹر کے طور پر تقرر اور اس کے بعد اچانک وزیر قانون کرن رجیجو کی بے وقت وداعی کے درمیان تعلق نہ ہو یہ ناممکن ہے ۔ اس پیچیدہ رشتے پر بحث بہت تفصیل کا تقاضہ کرتا ہے مگر اس کو مہاراشٹر کے معاملے میں سپریم کو رٹ کے رویہ کی مدد سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے ۔ فٹ بال کے کسی میچ میں اگر کُل پانچ گول ہوں اور ان میں سے چار ایک ٹیم مارے تو وہ فاتح قرار دی جاتی ہے لیکن ہندوستانی عدالت میں ایسا ہو یہ ضروری نہیں ہے خاص طور پر اگر متحارب ٹیمیں سیاسی ہوں ۔ ان میں سے ایک تعلق حزب اقتدار اور دوسرے کاحزب اختلاف سے ہوتو کچھ بھی ہوسکتا ہے یعنی انصاف کا ترازو کسی بھی طرف جھک سکتا چاہے اس کے پلڑے میں چار اور دوسرے میں صرف ایک گول کیوں نہ ہو ۔ اس لیے گول کے ساتھ ساتھ اس کو مارنے والا بھی کم اہم نہیں ہوتا ۔ مودی جی کی ایک کِک راہل کے چار کِک کے برابر ہو سکتی ہے ۔ اس طرح ایک گول مارنے والی ٹیم کامیاب اور چار والی شکست فاش سے بھی دوچار ہوسکتی ہے ۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ مہاراشٹر سرکار کے قضیہ میں سپریم کورٹ کی بینچ پانچ ججوں پر مشتمل تھی اور اس کے سامنے سوالات بھی پانچ تھے جن پر اسے فیصلہ سنانا تھا ۔
عدالتِ عظمیٰ کے سامنے پہلا سوال گورنر کے کردار پر تھا ۔ دوسرا چیف وہپ کے تقرر سے متعلق تھا۔ تیسرا معاملہ ارکان اسمبلی کو برخواست کرنے کی بابت تھا ۔ چوتھا مدعا ایک پرانے مقدمہ نبام ریبیا کے انطباق کا تھا اور پانچواں ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے پر بنے رہنے یا ہٹائے جانے کا تھا۔ اب آئیے دیکھیں کہ ان پانچ سوالوں کے سپریم کورٹ نے کیا جوابات دئیے ؟ ان میں سے کتنے ادھو ٹھاکرے کی حمایت میں تھے اور کون کون سے ایکناتھ شندے کے حق میں گئے ۔اس تنازع کا پس منظر یہ ہے کہ 21 جون 2022 کو شیوسینا کے رہنما ایکناتھ شندے نے 15 ارکانِ اسمبلی کے ساتھ بغاوت کردی۔ اس کے ہفتہ بھر بعد 28 جون کو گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دے دیا۔ شیوسینا نے گورنر کے حکم کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کیا مگر اس نے روک لگانے سے انکار کردیا ۔ سپریم کورٹ کے اس منفی رویہ سے بددل ہوکر سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا اور ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔
مہاراشٹر کی اس عظیم سیاسی اتھل پتھل کے گیارہ ماہ کے بعد سپریم کورٹ کا فرمان آیا کہ گورنر کوشیاری کا وہ اقدام غلط تھا کیونکہ حزب اختلاف نے عدم اعتماد کی تجویز پیش نہیں کی تھی۔ گورنر کے پاس حکومت پر شک کرنے کا کوئی جواز یعنی چٹھی یا محضر نامہ موجود نہیں تھا۔اس بات کا اشارہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ارکان اسمبلی حمایت واپس لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تو صرف ایک گروپ بنایا تھا ایسے میں سیاسی جماعت کے اندرونی چپقلش کو سلجھانے کے لیے فلور ٹسٹ نہیں کیا جاسکتا ۔ آئین و قانون گورنر کو سیاسی معاملہ میں مداخلت کرکے کسی سیاسی پارٹی کے داخلی تنازعات میں ملوث ہونے کا اختیار نہیں دیتا۔کسی خاص ہدف کو حاصل کرنے کے لیے گورنر اپنے عہدہ کا استعمال نہیں کرسکتے ۔ اس طرح پہلا گول موجودہ ریاستی اور مرکزی حکومت کے خلاف ہوگیا کیونکہ گورنر نہ صرف ان کے نمائندہ بلکہ انہیں کے اشاروں پرناچ رہے تھے ۔
دوسرا معاملہ چیف وہپ کے تقرر کا تھا۔ موجودہ سیاسی نظام میں آزادی کے تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود ہر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی اس سیاسی جماعت کے بندۂ بے دام ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں انہیں کس وقت کیا کرنا چاہیے اس کا فیصلہ وہ ازخود یا ان لوگوں سے پوچھ کر نہیں کرسکتے جن لوگوں کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ اس آزادی سے اگر عوام کے نمائندے محروم ہیں تو بھلا عام لوگوں کی کیا بساط ؟ اس طرح جمہوریت میں عوام کے خود مختار ہونے کا غباری از خود پھوٹ جاتا ہے ۔ انہیں نمائندے کا انتخاب کرنے کی آزادی تو ہے لیکن اس نمائندے کو ان کی یا اپنی مرضی کی تابعداری کا حق نہیں ہے ۔ پارٹی وہپ(ہنٹر) کے ذریعہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ آقا یعنی پارٹی کے رہنما کا حکم کیا ہے ۔ کوئی عوامی نمائندہ اگر اپنے ضمیر کی آواز پر یا عوامی فلاح و بہبود کے لیے اپنے رہنما کے حکم سے روگردانی کرے تو وہپ یعنی ہنٹر سے اس کی کھال ادھیڑ دی جاتی ہے اور ایسا کرنا جمہوری اقدار کے عین مطابق ہے اسی مقصد کے حصول کی خاطر پارٹی لیڈر اپنے وفادار ترین رکن اسمبلی کو ہنٹر تھماکرچیف وہپ بناتا ہے۔
عام حالات میں گورنر، اسپیکر (صدر ایوان) اور وہپ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی مگر جب پارٹی جب خلفشار کا شکار ہوجائے تو یہ ہنٹر والاحرکت میں آجاتا ہے ۔ شیوسینا میں بغاوت کے بعد پارٹی کے چیف وہپ نے جب سارے ارکان اسمبلی کو ایک نشست میں حاضر ہونے کا حکم دیا تو باغی رکن اسمبلی ایکناتھ شندے نے پارٹی وہپ کو ناجائز قرار دے کر سنجے گوگولے کو چیف وہپ مقرر کردیا۔ ایسا کرنا چونکہ ا ن کے اختیار میں نہیں تھا اس لیے یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوگئی ۔ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ اسپیکر کے ذریعہ گوگولے کو چیف وہپ نامزد کرنے کا فیصلہ غلط تھا کیونکہ ارکان اسمبلی کو یہ طے کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے یہ تو پارٹی سربراہ کا بلا شرکت غیرے حق ہے اور اس وقت تک شیوسینا کی کمان ادھو ٹھاکرے کے ہاتھوں میں تھی۔ سپریم کورٹ کے مطابق اسپیکر نے بھی یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کی کہ پربھو یا گوگولے میں سے کسے پارٹی کے ذریعہ متعین کیا گیا ہے ۔ عدالت کی نظر میں اسپیکر کو پارٹی کے ذریعہ مقرر کردہ چیف وہپ کو ہی تسلیم کرنا چاہیے تھا ۔ اس طرح دوسرا گول بھی ادھو ٹھاکرے نے کردیا۔
اس قضیہ کا تیسرا مدعا ارکان اسمبلی کی برخواستگی کا تھا۔ سپریم کورٹ کو گیارہ ماہ کے بعد احساس ہوا کہ وہ باغی ارکان اسمبلی کو برخواست کرنے کی مجاز ہی نہیں ہے ۔ یہ اختیار تو اسپیکر کے پاس ہے پھر بھی سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ ایک بڑی بینچ کو سونپ دیا ۔ یہ عجیب کیفیت ہے کہ جس میں اسپیکر کے فیصلے کو عدالت الٹ سکتی ہے ۔ اسپیکر کی کرسی پر فی الحال ناجائز طریقہ پر بی جے پی کے راہل نارویکر قابض ہیں۔ ان
سے وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کی رکنیت ختم کرنے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ نارویکر اگرعدالت کا بہانہ بنا کر معاملے کو لٹکائے رکھیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ شندے اور ان کے ساتھی ویسے بھی عیش کر ہی رہے ہیں اس کے باوجود آخری فیصلہ آنے وزیر اعلیٰ کے سرپر ایک تلوار لٹکتی رہے گی ۔ یعنی تیسرا گول بھی شندے کے خلاف ہوگیا ۔ اسی سے بچنے کی خاطر انہوں نے اپنی کالی کمائی کے ذریعہ کالا جادو کیا تھا جو جزوی طور پر کامیاب رہا۔چوتھا معاملہ خود اسپیکر سے متعلق ہے ۔ اس پس منظر یہ ہے کہ تنازع کے وقت این سی پی کے نرہری جیروال ڈپٹی اسپیکر کی حیثیت سے ایوان کی صدارت کررہے تھے ۔ ان کو کسی ناپسندیدہ اقدام سے روکنے کے لیے شندے گروپ نے سپریم کورٹ میں نابام ریبیا کیس کا حوالہ دے کر قدغن لگانے کی کوشش کی کیونکہ اس کی روُ سے اگر کسی اسپیکر کو ہٹانے کی تجویز ایوان میں زیر بحث ہو تو وہ ارکان اسمبلی کو برخواست نہیں کرسکتا ۔ اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے شندے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اسے سپریم کورٹ کی بڑی بینچ کے حوالے کردیا ۔ سابق ڈپٹی اسپیکر کی مانند موجودہ صدر ایوان کے خلاف بھی حزب اختلاف کی تجویز معلق ہے ۔ ایسے میں بڑی بینچ کے فیصلے تک ان کا کو فیصلہ کرنا درست نہیں ہے ۔ وہ اگر ایسا کریں تو نہ صرف عدالت کی توہین ہوگی بلکہ اس کو الٹا بھی جاسکتا ہے ۔ موجودہ اسپیکر کے اختیار پر پابندی ادھو ٹھاکرے کا چوتھا گول ہے ۔
اس قضیہ کا آخری معاملہ ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ بنے رہنے کا تھا ۔ اس پر سپریم کورٹ نے دوٹوک کہہ دیا چونکہ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا تھا اس لیے گورنر کا بی جے پی کی حمایت والے ایکناتھ شندے کو حلف دلانا درست تھاگویا اقتدار انہیں کے پاس رہے گا ۔ کورٹ کے مطابق ادھو ٹھاکرے اگر استعفیٰ نہیں دیتے تو ان کی سرکار بحال ہوسکتی تھی ۔ اس طرح پانچواں اور آخری گول شندے نے لگا دیااور چار گول کرنے کے بعد پانچویں میں چوک جانے کے سبب ادھو اقتدار سے محروم رہیں گا۔ قانون کے آنکھ پر پٹی بندھی ہونا اس لیے تاکہ وہ تفریق و امتیاز نہ کرسکے لیکن اس فیصلے کو دیکھ کر یہ کہاوت یاد آتی ہے کہ اندھا بانٹے ریوڈیاں پھیر پھیر اپنے ہی کو دے ۔ اس میں اب یہ ترمیم ہونی چاہیے کہ پھیر پھیر اپنوں ہی کودے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت اور عدالت کے درمیان اس ناجائز رشتے کو کیا نام دیا جائے ؟ایسی صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے جج حضرات اس طرح کی کمزوری کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دوسری قسط میں ہوگا ۔ ان شاء اللہ لیکن ادھو ٹھاکرے کی ڈھارس بندھانے کے لیے یہی عرض ہے کہ
قانون اس جہان کا کیسا ہے آج کل
طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل


متعلقہ خبریں


مضامین
قانون کی حکمرانی کے تقاضے وجود پیر 13 جنوری 2025
قانون کی حکمرانی کے تقاضے

خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام وجود اتوار 12 جنوری 2025
خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف وجود اتوار 12 جنوری 2025
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف

مریم نواز کا مصافحہ! وجود هفته 11 جنوری 2025
مریم نواز کا مصافحہ!

ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ وجود هفته 11 جنوری 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر