... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر جماعت کے کارکنان نے پورے ملک میں مظاہرے کئے۔کئی جگہوں پر سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی وارداتیں بھی ہوئیں۔ لاہور میں مظاہرین کے ہاتھوں جلایا جانے والا کور کمانڈر ہاؤس صرف اس لیے تاریخی اہمیت کا حامل نہیں کہ یہ ایک قدیم عمارت تھی جسے قومی ورثے کے تحت تحفظ حاصل تھا۔ اس کی اہمیت یہ تھی کہ یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا گھر تھا۔
یہ عمارت پاکستان میں قائداعظم کی جائیدادوں میں سے ایک ہے۔ قائد اعظم نے کراچی اور لاہور والے جناح ہاؤس بمبئی میں واقع اپنا لٹلز گبز والا بنگلہ اور مے فیئر فلیٹ 1943 میں فروخت کر کے خریدے تھے۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ پاکستان بننے والا ہے اور انہیں کراچی اور لاہور میں رہائش گاہوں کی ضرورت ہو گی۔ لہذا انہوں نے اپنی ذاتی رہائش گاہ کے لئے لالہ مہن لال سے 1,62,500 روپے میں جولائی 1943 ء میں خریدا ، ابھی تک موجود ہے۔ ڈیگنل روڈ ( موجودہ عزیز بھٹی روڈ ) پرموجود یہ بنگلہ نمبر53، 4.68 ایکڑ اراضی پر محیط ہے۔
محمد علی جناح نے ابھی بنگلہ کا جائزہ بھی نہیں لیا تھا کہ جنوری 1944ء میں حکومت پنجاب نے اس پر ڈیفینس آف انڈیا رولز کی دفعہ 575 کے تحت قبضہ کرلیا۔ اب کاغذی طور پر تو وہ اس بنگلہ کے مالک تھے اور صرف مقرر کردہ کرایہ حاصل کر سکتے تھے مگر آپ وہ مقصد حاصل نہ کرسکے جس مقصد کی خاطر بنگلہ خریدا گیا تھا بلکہ اس خریداری کے بعد آپ سیاسی کاموں کے علاوہ ایک نئی الجھن میں پڑ گئے۔جدوجہد اور قانونی چارہ جوئی کے باوجود بنگلہ واگزار نہ ہو سکا۔ اپریل 1947ء میں ہونے والی خط وکتابت میں فوجی حکام نے یہ تاثر دیا کہ چھاؤنی کے علاقے میں کوئی غیر فوجی رہائش اختیار نہیں کر سکتا۔وہ جائیداد بنا اور خرید سکتا ہے اور فوجی ضرورتوں کے لئے فوج کو کرایہ پر دے سکتا ہے مگر اسے ایسے حساس علاقے میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس مسئلہ پر 13 اپریل تا یکم مئی 1947 چھ خطوط کا تبادلہ ہوا۔یہ خطوط شامل نہیں کیے گئے کیونکہ انگریز اور ہندو فوجی افسران لاہور والا بنگلہ واگزار کرنے کے عمل میں رکاوٹ بن رہے تھے۔وہ ہر طرح سے آپ کے لئے مشکلات پیدا کرنے اور ذہنی پریشانی میں مبتلا رکھنے میں مصروف رہتے تھے تاکہ آپ تبدیل شدہ سیاسی حالات پر پوری توجہ نہ دے سکیں۔ کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے کہ اس آدمی کو عدم متوجہ کرنا ، پوری قوم کی اس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے برابر ہے۔
مضبوط اعصاب کے مالک محمد علی جناح کی زندگی ہی نے وفا نہ کی ، جائیداد کیا وفا کرتی۔ پہلی بار 4 جولائی 1947 ء کو یہ خبر سننے کو ملی کہ یکم اگست 1947 کو بنگلہ ڈی ہائیر کرنے کے بعد واگزار کر دیا جائے گا اور آپ کے قبضے میں 31 اگست کو دے دیا جائے گا۔ عمل درآمد پھر بھی نہیں ہوتا اور بنگلہ کے اصل مالک دیکھتے ہی دیکھتے سب کام ادھورے چھوڑ کر اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد بھی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے بنگلہ واپس لینے کی پوری کوشش کی۔مگر بنگلہ نمبر 157 جس کا سروے نمبر 53 ہے ، قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ جسے قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی وصیت کے مطابق بعد از فروخت حاصل کردہ رقم ، تعلیمی اداروں ، کو ادا کر دی جائے ، کے خواب کی تعبیر بننا تھا۔ آخر کار گفت و شنید سے مسئلہ حل ہوا اور حکومت پاکستان نے بنگلہ خود خرید کر افواج پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا۔
یہ جائیدادمحمد علی جناح کو صرف کرایہ ادا کرتی رہی۔آپ نے اس بنگلہ میں قدم بھی رکھ کر نہیں دیکھا۔اپنی زندگی میں محمد علی جناح نے بنگلہ واگزار کروانے کے لئے جو کچھ کیا ۔اس کے حوالہ جات کے لئے ماہنامہ ماہ نو جولائی 1997 صفحہ نمبر 229 ، صرف مسٹر جناح تالیف سید شمس الحسن ترجمہ صفحہ نمبر 133 تا 140 ، قائد اعظم پیپرز فائل نمبر 1127 ، 575 اور Stacey international London کی کتاب Pakistan past and present کا مطالعہ ضروری ہے۔
محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں قائد اعظم محمد علی جناح ، محترمہ فاطمہ جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب سے لاہور کے پوش علاقہ گلبرگ کی مرکزی سڑک پر 29 کنال زمین ٹرسٹ کے نام وقف کی گئی تھی۔ یہ قیمتی زمین 1943سے انہی کے نام چلی آرہی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اب یہاں شاپنگ مال اور پلازہ تیار ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ ڑھائی ایکڑ پر محیط جناح منزل کراچی انہوں نے 1943 میں ایک لاکھ 80 ہزار روپے میں خریدی تھی۔ جو اب عجائب گھر میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں قائد اعظم کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی ہوئی ہیں۔لاہور میں ہی قائداعظم نے 1945 میں نواب افتخار ممدوٹ سے اچھرہ میں 324 کنال اراضی خریدی تھی۔ اس راضی پر آج کل گلبرگ ٹو اور تھری ہے۔اس کے علاوہ ان کے پاس لبرٹی مارکیٹ میں ڈیڑھ کنال کا کمرشل پلاٹ، انڈسٹریل ایریا میں 10 کنال کا پلاٹ تھا۔ کراچی میں بھی قائداعظم نے ملیر میں 12 ایکٹر کا باغ نواب آف بہاولپور سے خریدا تھا۔ اگر فلیگ سٹاف ہاؤس کی طرف سے اس بنگلہ میں بھی کوئی محمد علی جناح ریسرچ سینٹربن جائے ، گو یہ سینٹر صرف افواج پاکستان کے لئے ہی مخصوص کردہ کیوں نہ ہو۔ قائد اعظم پیپرز کی مکمل فائلز کی نقل وہاں بڑی آسانی سے منتقل کی جا سکتی ہے جو ایک تحفہ ہونے کے علاؤہ قائد اعظم محمد علی جناحکے لئے افواج پاکستان کی طرف سے ایک خراجِ عقیدت ہو گا۔
٭٭٭