... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔
مدر ٹریسا خود کو خدمت خلق کے لئے وقف کر دینے والی مسیحی راہبہ تھیں ،بلقان میں پیدا ہونے والی راہبہ نے اپنی زندگی غریبوں اور بے کسوں کی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی اور وہ کلکتہ میں ساٹھ برس تک غریبوں و نادار بیماروں کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ مدر ٹریسا مقدونیہ کے شہر سکوپیہ میںپیدا ہوئیں تھیں۔ تاہم ان پر البانوی اور مقدونیائی باشندوں کا یکساں دعویٰ ہے کیونکہ اس وقت مقدونیہ کے نام سے کسی ملک کا وجود نہیں تھا بلکہ یہ شہر سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ان کاتعلق ایک مذہبی خاندان سے تھا ،انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم یوگوسلاویہ کے ایک مذہبی ا سکول سے حاصل کی ، دس سال کے عمر میں والد کے انتقال سے ان کے ایمان اور عقیدت پر گھرا اثر پڑا ۔1928ء میں مدر ٹریسا کو مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئیرلینڈ کے شہر ڈبلن بھیج دیا گیا اور 1929ء میں انھیں انسانی فرائض سرانجام دینے کے غرض بنگال میں واقع لوریٹو نامی خانقاہ بھیج دیا گیا ۔1931ء میں اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے وہ راہبہ بن گئیں اور سسٹر ٹریسا گھلانے لگیں۔سن 1937ء اپنا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مدر ٹریسا بن گئیں۔انہوں نے اپنے ادارے کی بنیاد انیس سو پچاس میں محض بارہ راہباؤں کے ہمراہ رکھی تھی جن کی تعداد بعد میں بڑھ کر ساڑھے چار سو تک اور دائرہ کار ایک سو تینتیس ممالک تک جاپہنچا ۔انکے فلاحی کاموں میں مریضوں کا علاج ، یتیم اور بیواووں کی مدد شامل ہے ۔مدرٹریسا پیسوں کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور ان کے حوالے سے مشہور تھا کہ وہ مالی امداد اور عطیات قبول نہیں کرتیں بلکہ مدد میں ذاتی شرکت کو ترجیح دیتی تھیں ۔
مدر ٹریسا کو غریبوں اور ناداروں کے لئے کئی دہائیوں پر مشتمل ان کی خدمات کے صلہ میں 1989ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا،جس کی انعامی رقم مدرٹریسا نے فلاحی کاموں کیلئے پیش کردی ۔اس کے علاوہ سن 2016ء میں پاپائے روم فرانسس نے مدر ٹریسا کوانسانیت کے لئے بابرکت شخصیت قرار دیا تھا۔ یہ سعادت سینٹ قرار دیئے جانے یا عیسائیت کے تحت ولایت کا مرتبہ حاصل کرنے کے مراحل میں سے آخری مرحلہ ہے۔1985ء میں جب مدر ٹریسا روم کے دورے پر تھیں وہاں انھیں دل کا دورہ پڑا ، 1989ء میں ان کو دوبارہ دل کا دورہ پڑا جو پہلے سے زیادہ خطرناک تھا جس کی وجہ سے ان کاآپریشن کیا گیا ، 1991ء میں جب وہ میکسیکو میں تھیں تو وہاں انھیں نمونیا ہوگیا جس کی وجہ سے ان کے دل پر منفی اشرات مرتب کئے اور سن 1996ء میں ان کا پھردل کا آپریشن کرنا پڑا جس کے بعد وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکیں اور 5 ستمبر 1997انتقال کرگئیں ۔
مڈر ٹریسا کی روح آج بھی تڑپ رہی ہے کیونکہ جس بھارت میںانھوں نے بغیر کسی مذہب ،رنگ اورنسلی امتیاز کے لوگوں کی خدمت کی تھی وہیں آج مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا جارہا ہے۔مدر ٹریسا کی روح اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگانے والے مودی سے پوچھ رہی ہے کہ بھارت کی اقلیتوں کے ساتھ تعلیم،صحت اور دیگر شعبوں میں امتیازی سلوک روا رکھ کر کس طرح کا اکھنڈ بھارت بنایا جارہا ہے جہاں ہندو شدت پسند دن دیہاڑے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں جبکہ ریاست کی پولیس اس قتل عام کو روکنے کی بجائے خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھتی رہتی ہے۔مودی مدر ٹریسا کی تڑپتی روح کے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے۔مودی کے مظالم کے پیش نظر شاید اب کبھی بھی بھارت میں مدر ٹریسیا جیسی کوئی بھی شخصیت انسانیت کی بھلائی کے لئے اپنی خدمات انجام نہیں دے گی۔
٭٭٭