... loading ...
شہر قائد ان دنوں ڈاکوؤں،لٹیروں اور جرائم پیشہ عناصر کے نرغے میں ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب سڑکوں پر بینکوں سے رقم لے کر نکلنے والوں دن بھر مزدوری کے بعد اپنی کمائی لے کر گھر جانے والوں یا بازار میں شاپنگ کیلئے جانے والی خواتین سے اسلحہ کے زور پر لوٹ مار نہ کی جاتی ہو،ہماری پولیس اس ضمن میں خاموش تماشائی بلکہ ان لوٹ مار میں ملوث لوگوں کی ہمنو ا اور مددگار نظر آتی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اس طرح کی واردات کی رپورٹ لکھوانے تھانے جاتا ہے تو رپورٹ لکھنے کے بجائے اسے مختلف انداز سے تنگ کیاجاتاہے اور بیحد اصرار پر بھی ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے کچی رپورٹ درج کرکے ٹرخادیا جاتا ہے،پولیس کے اس رویے نے مجرموں کے حوصلے بلند کردئے ہیں اور وہ انتہائی بے فکری کے ساتھ اپنی لوٹ مار کا دائرہ بڑھاتے جارہے ہیں جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاتاہے کہ اگر کوئی مجرم کسی وجہ سے پولیس کی گرفت میں آجاتا ہے تو وہ خود ہی 50-50 سے زیادہ وارداتوں کا اعتراف کرلیتاہے،جو یقینا ہماری پولیس کے ارباب اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے،کیونکہ اس سے ہماری پولیس کی غفلت اور فرض ناشناسی ثابت ہوتی ہے اگر پولیس چوکس ہو تو کسی مجرم کو اس شہر میں 50-50 سے زیادہ وارداتوں کا موقع ہی نہیں مل سکتا،آئی جی سندھ اور دوسرے اعلیٰ پولیس افسران کو اس آئینے میں اپنا منہ دیکھنے اور سرکاری خزانے سے حاصل کی جانی والی بھاری تنخواہوں اور مراعات کے حلال یا حرام ہونے کا خود ہی فیصلہ کرلینا چاہے۔
اعلیٰ پولیس افسران شہرمیں بڑھتے ہوئے جرائم خاص طورپر اسٹریٹ کرائمز سے ناواقف نہیں ہیں اور وہ خود بارہا اس بات کااعتراف کرچکے ہیں کہ شہر میں معاشرتی برائیوں اور جرائم سمیت دیگر کئی غلط کاموں کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ گھریلو ناچاقیاں، خاندانی جھگڑے، بلیک میلنگ، قتل و غارت گری، بے روزگاری، فریب، جھوٹ، دھوکہ، چوری، بات بات پہ جھگڑا کرنا یہ ان ہزاروں میں سے چند معاشرتی برائیاں ہیں جن کی شرح میں ہر منٹ کے حساب سے ہمارے معاشرے میں اضافہ ہوتا جا رہاہے،اس شہرکے معاشرے کو دیکھا جائے تو یہ ایک منتشر معاشرہ ہے جو بیک وقت مختلف عناصر مثلاً الگ سیاسی سوچوں، فرقے، رنگ، نسل، زبان، امیر، غریب، مختلف کلچر اور روایات پر مشتمل ہے اور ان مختلف عناصر کی وجہ سے ہی معاشرے میں کافی تناؤ ہے۔ یہ تناؤ صوبائیت، نسل پرستی اور امیر غریب کے فرق کو زیادہ ابھار رہا ہے۔ اس شہر کیمعاشرے کا ایک بہت اہم مسئلہ وہ سوچ ہے جو امیر غریب کے فرق کی وجہ سے پروان چڑھ رہی ہے اور جس کی وجہ سے مادہ پرستی بہت عام ہو رہی ہے۔ اس مادہ پرستی نے معاشرے کے عام آدمی کو ذہنی اور اخلاقی طور پر مفلوج کر دیا ہے اور احساسات سے عاری کردیا ہے۔ مادی زندگی کے زور پر زندگی بہت مشکل اور ناخوشگواری سے گزرتی ہے۔ جب معاشرے میں مادیت پرستی عام ہو جائے تو تخلیقی سوچ ناپید ہو جاتی ہے اور تخریبی سوچیں جنم لیتی ہے جو معاشرے میں شدید تناؤ پیدا کر رہی ہے۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت کی شرح میں اضافہ نے معاشرے کے ایک بڑے حصے کے لوگوں کو اس امیر غریب کے فرق کو مٹانے کیلئے تخریبی سرگرمیوں میں الجھایا ہْوا ہے اِسی طرح معاشرتی برائیوں میں ایک اور اہم برائی برداشت کی کمی اور سوچوں میں ہم آہنگی نہ ہونا ہے، اس کے علاوہ بیڈ گورننس، حکومتی کمزور پالیسیاں، کرپشن اور سیاسی عدم استحکام نے بیروزگاری کو بہت فروغ دیا۔ جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز، خودکشی، امن و امان کی بدتر صورتحال، انسانی اعضائکی اسمگلنگ، دہشتگردی، اغوا برائے تاوان جیسی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار، کمزور معاشی پالیسیاں اور دہشت گردی کی وجہ سے کئی بڑی صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ زراعت اور صنعت کے شعبوں کو ترقی دیں۔ صنعتکاروں کیلئے ایسے مواقع پیدا کریں اور امن وامان کو اتنا مثالی بنائیں کہ باہر سے بھی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کیلئے
آئیں، اس سے بیروزگاری کی عفریت سے نوجوانوں کو چھٹکارا ملے گااور جب نوجوانوں کومناسب روزگار ملنے لگے گا تو جرائم کی شرح میں خود بخود کمی آجائے گی۔
٭٭٭