وجود

... loading ...

وجود

جرائم میں اضافہ، پولیس خاموش تماشائی بن گئی ہے!

جمعرات 11 مئی 2023 جرائم میں اضافہ، پولیس خاموش تماشائی بن گئی ہے!

شہر قائد ان دنوں ڈاکوؤں،لٹیروں اور جرائم پیشہ عناصر کے نرغے میں ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب سڑکوں پر بینکوں سے رقم لے کر نکلنے والوں دن بھر مزدوری کے بعد اپنی کمائی لے کر گھر جانے والوں یا بازار میں شاپنگ کیلئے جانے والی خواتین سے اسلحہ کے زور پر لوٹ مار نہ کی جاتی ہو،ہماری پولیس اس ضمن میں خاموش تماشائی بلکہ ان لوٹ مار میں ملوث لوگوں کی ہمنو ا اور مددگار نظر آتی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اس طرح کی واردات کی رپورٹ لکھوانے تھانے جاتا ہے تو رپورٹ لکھنے کے بجائے اسے مختلف انداز سے تنگ کیاجاتاہے اور بیحد اصرار پر بھی ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے کچی رپورٹ درج کرکے ٹرخادیا جاتا ہے،پولیس کے اس رویے نے مجرموں کے حوصلے بلند کردئے ہیں اور وہ انتہائی بے فکری کے ساتھ اپنی لوٹ مار کا دائرہ بڑھاتے جارہے ہیں جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاتاہے کہ اگر کوئی مجرم کسی وجہ سے پولیس کی گرفت میں آجاتا ہے تو وہ خود ہی 50-50 سے زیادہ وارداتوں کا اعتراف کرلیتاہے،جو یقینا ہماری پولیس کے ارباب اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے،کیونکہ اس سے ہماری پولیس کی غفلت اور فرض ناشناسی ثابت ہوتی ہے اگر پولیس چوکس ہو تو کسی مجرم کو اس شہر میں 50-50 سے زیادہ وارداتوں کا موقع ہی نہیں مل سکتا،آئی جی سندھ اور دوسرے اعلیٰ پولیس افسران کو اس آئینے میں اپنا منہ دیکھنے اور سرکاری خزانے سے حاصل کی جانی والی بھاری تنخواہوں اور مراعات کے حلال یا حرام ہونے کا خود ہی فیصلہ کرلینا چاہے۔
اعلیٰ پولیس افسران شہرمیں بڑھتے ہوئے جرائم خاص طورپر اسٹریٹ کرائمز سے ناواقف نہیں ہیں اور وہ خود بارہا اس بات کااعتراف کرچکے ہیں کہ شہر میں معاشرتی برائیوں اور جرائم سمیت دیگر کئی غلط کاموں کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ گھریلو ناچاقیاں، خاندانی جھگڑے، بلیک میلنگ، قتل و غارت گری، بے روزگاری، فریب، جھوٹ، دھوکہ، چوری، بات بات پہ جھگڑا کرنا یہ ان ہزاروں میں سے چند معاشرتی برائیاں ہیں جن کی شرح میں ہر منٹ کے حساب سے ہمارے معاشرے میں اضافہ ہوتا جا رہاہے،اس شہرکے معاشرے کو دیکھا جائے تو یہ ایک منتشر معاشرہ ہے جو بیک وقت مختلف عناصر مثلاً الگ سیاسی سوچوں، فرقے، رنگ، نسل، زبان، امیر، غریب، مختلف کلچر اور روایات پر مشتمل ہے اور ان مختلف عناصر کی وجہ سے ہی معاشرے میں کافی تناؤ ہے۔ یہ تناؤ صوبائیت، نسل پرستی اور امیر غریب کے فرق کو زیادہ ابھار رہا ہے۔ اس شہر کیمعاشرے کا ایک بہت اہم مسئلہ وہ سوچ ہے جو امیر غریب کے فرق کی وجہ سے پروان چڑھ رہی ہے اور جس کی وجہ سے مادہ پرستی بہت عام ہو رہی ہے۔ اس مادہ پرستی نے معاشرے کے عام آدمی کو ذہنی اور اخلاقی طور پر مفلوج کر دیا ہے اور احساسات سے عاری کردیا ہے۔ مادی زندگی کے زور پر زندگی بہت مشکل اور ناخوشگواری سے گزرتی ہے۔ جب معاشرے میں مادیت پرستی عام ہو جائے تو تخلیقی سوچ ناپید ہو جاتی ہے اور تخریبی سوچیں جنم لیتی ہے جو معاشرے میں شدید تناؤ پیدا کر رہی ہے۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت کی شرح میں اضافہ نے معاشرے کے ایک بڑے حصے کے لوگوں کو اس امیر غریب کے فرق کو مٹانے کیلئے تخریبی سرگرمیوں میں الجھایا ہْوا ہے اِسی طرح معاشرتی برائیوں میں ایک اور اہم برائی برداشت کی کمی اور سوچوں میں ہم آہنگی نہ ہونا ہے، اس کے علاوہ بیڈ گورننس، حکومتی کمزور پالیسیاں، کرپشن اور سیاسی عدم استحکام نے بیروزگاری کو بہت فروغ دیا۔ جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز، خودکشی، امن و امان کی بدتر صورتحال، انسانی اعضائکی اسمگلنگ، دہشتگردی، اغوا برائے تاوان جیسی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار، کمزور معاشی پالیسیاں اور دہشت گردی کی وجہ سے کئی بڑی صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ زراعت اور صنعت کے شعبوں کو ترقی دیں۔ صنعتکاروں کیلئے ایسے مواقع پیدا کریں اور امن وامان کو اتنا مثالی بنائیں کہ باہر سے بھی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کیلئے
آئیں، اس سے بیروزگاری کی عفریت سے نوجوانوں کو چھٹکارا ملے گااور جب نوجوانوں کومناسب روزگار ملنے لگے گا تو جرائم کی شرح میں خود بخود کمی آجائے گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت بنگلہ دیش چپقلش وجود هفته 21 دسمبر 2024
بھارت بنگلہ دیش چپقلش

مہوش نعیم مشعل راہ وجود هفته 21 دسمبر 2024
مہوش نعیم مشعل راہ

ایک اور یونان کشتی حادثہ وجود هفته 21 دسمبر 2024
ایک اور یونان کشتی حادثہ

خوف کی زنجیریں وجود هفته 21 دسمبر 2024
خوف کی زنجیریں

پولیس مقابلے کا تشویشناک پہلو وجود هفته 21 دسمبر 2024
پولیس مقابلے کا تشویشناک پہلو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر