وجود

... loading ...

وجود

تباہی کار استہ

بدھ 10 مئی 2023 تباہی کار استہ

ایم سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹرانس جینڈر کے بھیانک نتائج آناشروع ہوگئے ہیں مسلم معاشرے کو اس ایکٹ پر بہت سے تحفظات تھے۔ اس قانون کے نفاذ سے خاندانی نظام پر کاری ضرب لگی ہے اور یہ مادرپدر آزادی کی طرف اٹھنے والا انتہائی خوفناک اقدام ہے۔ اس کی آڑمیں مردکی مرد اور عورت کی عورت سے شادی ممکن بنادی گئی ہے۔ اسلام نے ہم جنس پرستی کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے حضرت لوط علیہ السلا م کی امت کو عذاب میں مبتلاکرکے تباہ کردیا تھا لیکن روشن خیالی کے نام پر کچھ اسلام دشمن قوتیں دنیا بھرٹرانس جینڈر کو پروموٹ کررہی ہیں جو سراسر تباہی کا راستہ ہے۔ اسی حوالے سے ایک خوفناک خبرمیں انکشاف ہوا ہے کہ اسی سال کے اوائل میں بھارت میں تین سال سے ایک ساتھ رہنے والے ٹرانس جینڈر کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہے، یہ پہلا ٹرانس جینڈر جوڑا ہوگا جن کے یہاں بچے کی پیدائش ہوگی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کیرالہ میں ٹرانس جینڈر جوڑے ضیا پول اور زہد نے انسٹاگرام پر حاملہ ہونے کا اعلان کیا۔ ضیاء پول ایک مرد تھا جو جنس تبدیل کرکے عورت بنا یاگیا جبکہ زہد ایک عورت تھی جو اپنی جنس تبدیل کروا رہی تھی کہ اسی دوران حمل ٹھہر گیا اور اب وہ اگلے دو ماہ میں بچے کو جنم دیں گی۔ ٹرانس جینڈر جوڑے نے ہارمون تھراپی کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کروائے تھے۔ زہد کے نسوانی تولیدی اعضا کا آپریشن نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح ابھی ضیاء نے بھی مردانہ تولیدی اعضا کا آپریشن نہیں کروایا تھا۔ ٹرانس جینڈر جوڑے کا کہنا ہے کہ پہلے ہم دونوں نے بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن قانونی چارہ جوئی آڑے آرہی تھی لیکن اب قدرت نے انھیں ان کا اپنا بچہ دیدیا ہے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ کو 2018ء میں پاکستان میں پارلیمنٹ نے 2018 میں قانونی طور پر خواجہ سرا افراد کو مساوات فراہم کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نافذ کیا تھا۔ اس قانون کا مقصد ملک میں خواجہ سرا افراد کو قانونی طور پر تسلیم کرنا ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں نے مبینہ طور پر 479 تشدد کے واقعات کا سامنا کیا۔ ستمبر 2020 میں، ایک ممتاز ٹرانس جینڈر کارکن گل پانڑا کو چھ بار گولی مار دی گئی۔ نایاب علی پر مبینہ طور پر جنسی زیادتی اور تیزاب سے حملہ کیا گیا جس کا دعویٰ خواجہ سرا ہونے کا تھا۔ 2019 میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا تھا کہ شمع، ایک خواجہ سرا صحافی، پاکستان کے ایک شہر، پشاور میں نو مردوں کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنی۔
1998 میں ٹرانس جینڈر لوگوں کی کل آبادی 10,418 تھی۔ 2015 میں، وزارت صحت نے اشارہ کیا کہ ملک میں خواجہ سراؤں کی تعداد تقریباً 150,000 ہے۔ ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ پہلی بار نہیں ہے جب ٹرانس لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس طرح کی حکومتی دفعات کی گئی ہوں جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2010 میں قرار دیا تھا کہ ٹرانس لوگ عام پاکستانی شہریوں کے برابر ہیں۔ ملازمت کے مواقع، تعلیم، اور انہیں امتیازی سلوک سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اس اعلان کے بعد پچھلی مردم شماری میں تقریباً 40% ٹرانس
جینڈر لوگوں نے ناخواندہ ہونے کی اطلاع دی تھی، اور پاکستان میں ٹرانس لوگوں کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ رقص اور جنسی لیبر ہے لیکن اس کی آڑ میں عیاش لوگوں نے ہم جنس پرستی کو ایک باقاعدہ کاروبار بنا ڈالا۔ ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ کے لیے پاکستان کی سپریم کورٹ نے اعلان کیا تھا، اور اس نے صرف ٹرانس لوگوں کو رسمی مساوات کی پیشکش کی ہے نہ کہ بنیادی مساوات کی حامل ہے اس پورے قانون میں واحد سزا کا ذکر ان گروہوں کے خلاف ہے جو اپنے چنوں کو بھیک مانگنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ سزاؤں کی کمی قانون کو کوئی دانت نہیں دیتی، اور شہریوں کو قانون پر عمل کرنے کے لیے کوئی حقیقی ترغیب نہیں ہے، اور اس کے نفاذ کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ یا ٹھوس سزائیں نہیں ہیں۔ یہ خاص طور پر تعلیم کے موضوع پر موجود ہے ۔قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی ٹرانس شخص کسی اسکول میں داخلے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے تو اس کی جنس اس اسکول میں ان کے داخلے کا فیصلہ کن عنصر نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ داخلے کے اصل عمل کو حل کرتا ہے جو کہ اسکول میں داخلے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، قانون سماجی داغداروں اور رسوم و رواج پر توجہ نہیں دیتا جو ایک ٹرانس فرد کے لئے ان اہداف کو پہلی جگہ حاصل کرنا انتہائی مشکل بنا دیتے ہیں۔ قانون ٹرانس کمیونٹی کے بہت سے اہم مسائل کو بھی حل نہیں کرتا ہے جن میں ٹرانس لوگوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم شامل ہیں، اور ٹرانس لوگوں کے لیے صحت کی مناسب دیکھ بھال کرنا ہے۔ 2022 میں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے قانون پر چار سال بعد دوبارہ بحث ہوئی۔ ترمیمی بل پر بحث کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کی جنس کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کا قیام ضروری ہے جبکہ اسلامی نظریات کی حامل شخصیات اور مذہبی جماعتوں نے ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ ے نافذ کرنے پر شدید احتجاج کیا تھا کہ کسی اسلامی ملک میں ایسی خرافات کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ مغربی دنیا کو خوش کرکے مسلمانوں کے مضبوط خاندانی نظام کے خلاف ایک گھنائونی سازش ہے ۔ یہ سراسر تباہی کا راستہ ہے۔ اس لئے حکومت ایسے حساس معاملات کو حل کرنے کے لئے ہوش سے کام لے کیونکہ کسی بھی شخص کو اپنی جنس کا تعین کرنے کا حق دینا انتہائی خوفناک ہے۔ اس سے نہ صرف و راثت کے مسائل گنجلک ہوجائیں گے بلکہ جنسی بے راہ روی پھیلنے سے معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر