... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نرودا گام کے سارے قیدیوں کا رہا ہو جانا دراصل عدل و انصاف کے قتل عام نہیں تو اور کیا ہے ؟ اس فیصلے نے اکیس سال کے بعد پھر ایک بار ملک و قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ویسے مودی یگ میں بہت سارے لوگوں نے ازخود اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ اس لیے ان کو کوئی فرق نہیں پڑا ۔ اس فیصلے ان زخموں کو ہرا کردیا جن کے متعلق فساد کے چشم دید گواہ یونس سیدکہتے ہیں:کمبھار واڑہ میں نابینا ستار بھائی اپنی اہلیہ اور پوتی کے ساتھ رہتے تھے ۔ بھیڑیوں کے جھنڈ نے ان کے گھر کا دروازہ بند کرکے آگ لگا دی۔ پولیس چوکی کے سامنے ببن بھائی اپنی بہن ، ماں اور تین بیٹوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے ۔ ان سب کو زندہ جلا دیا گیاصرف اہلیہ بچ گئیں‘‘۔ ان دل دہلا دینے والے واقعات کو بیان کرنے کے بعد یونس سید سوال کرتے ہیں:کیا عدالت مانتی ہے کہ ان گیارہ لوگوں نے خود کو گھر میں بند کرکے خود کشی کرلی؟ ہم بھلے چھوڑ دیں ، کیا اوپر والا بھی چھوڑ دے گا ‘‘؟ یہی سوال ملک کے اندر نظامِ عدل کی خود سوزی کا شاہد ہے ۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اگر اس فیصلے کو نذرِ آتش نہ کرے تو عدلیہ کا انتم سنسکار ہوجائے گا۔
نرودا گام کے سید یونس نے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرکے بتایا28 فروری 2002 کو وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے بند کا اعلان کیا تھا۔ دوپہر تک امن تھا مگر اچانک چاروں جانب سے بھیڑ جمع ہونے لگی۔ وہ بھیڑ کسی کی منتظر تھی، اسی وقت مایا کوندنانی وہاں پہنچی۔ بھیڑ کی وجہ سے مایا بین ایک اسٹول پر کھڑی ہوئی اور ہمارے گھروں کی طرف اشارے کرتے ہوئے اشتعال انگیز باتیں کرنے لگی۔ وہ بار بار کہہ رہی تھی گودھرا کے مسلمانوں نے ہندووں کو جلا کر مار دیا ہے ۔ انہیں اب ختم کردینا ہے ‘۔ اس طرح گویا مقامی رکن اسمبلی نے درندوں کو کھلی چھوٹ دے دی اور اب عدالت نے اسے بھی چھوڑ دیا ۔ اس طرح درندگی کا ایک دائرہ مکمل ہوگیا تو مایا کوندنانی کہتی ہے :میں اس فیصلے سے خوش ہوں ۔ اب ہمیں آج میں جینا چاہیے ۔ آج کو یاد رکھو ، بیتی باتوں کو بھول جاو‘‘۔ مایا کوندنانی کا تعلق آر ایس ایس سے رہا ہے ۔ وہ اکیس سال پرانی باتوں کو تو بھول جانا چاہتی ہیں مگر اس کا سنگھ پریوار تو آئے دن ایک ہزار سال پرانے واقعات کا قصہ چھیڑ دیتا ہے ۔ بابر کے بارے ایک بڑا جھوٹ پھیلا کر اس نے سارے ملک کو خاک و خون کے حوالے کیا۔ سومناتھ سے رتھ یاترا نکال محمود غزنوی کے بہانے ملک کے اقتدار پر قابض ہوگیا۔ مایا کوندنانی اگر یہی بات اس وقت کہہ دیتی کہ گودھرا کے کل کو بھول جاؤ۔ یہاں کے مسلمانوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو نرودا گام میں گیارہ اور نرودہ پاٹیا میں 97 بے قصورلوگوں کی جان نہیں جاتی اور سُجل دیو نامی صحافی کو یہ نہیں کہنا پڑتا کہ: گلبرگ ، نرودا گام اور نرودا پاٹیا میں جو ہوا ویسا نہ میں نے کبھی دیکھا ، نہ سنا۔ان حالات کو دیکھ کر پولیس والے بھی رو پڑے ‘‘۔ نرودا سانحہ کے چشم دید گواہ سُجل دیو نے اتنی بڑی بات کہنے کے بعد یہ بھی کہہ دیا مگر کورٹ نے فیصلہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہی دیا ہوگا؟ اس پہلو پر مقدمہ کے وکیل شمشاد پٹھان کہتے ہیں : اس وقت گیارہ لوگوں کی موت کے باوجود صرف پانچ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ کئی تنظیموں اور حقوق انسانی کے کمیشن نے سپریم کورٹ میں گہار لگائی تو 2009 میں ایس آئی ٹی بنائی گئی۔ مقدمہ کے سائنسی شواہد تلاش کیے گئے ۔ تہلکہ جریدے کے آشیش کھیتان نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا۔اس میں ملزمین نے اپنی منصوبہ بندی اورحملے میں ملوث ہونے کو تسلیم کیا۔ تصاویر اور آواز کی جانچ میں تصدیق بھی ہو گئی۔ علاقہ کے موبائل ٹاور سے کوندنانی اور دوسرے ملزمین کا جائے واردات پر موجود ہونا ثابت ہوگیا۔ گواہوں نے بتایا کہ کیسے لوگوں کو جلایا اور کاٹا گیا۔ اتنے سارے شواہد کے بعد بھی عدالت نے ایسا فیصلہ کیوں دیا ؟’’ یہ بات شمشاد پٹھان تو دور شاہ رخ خان کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتی۔
ایس آئی ٹی نے خصوصی عدالت کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ورنہ شمشاد خان یہ کام کرتے ۔ 2005 سے اس مقدمہ کی پیروی کرنے والے شمشاد خان اس قتل عام کی مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے عدالتِ عظمیٰ تک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انسان کا کام کوشش کرنا ہے اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قدرت دلیروں کا ساتھ دیتی ہے ۔ یہ تو ایک محاذ پر ہونے والی شکست ہے اصل جنگ ہنوز جاری ہے اور اس میں آخری فتح حق کی ہوگی ان شاء اللہ۔ وطن عزیز میں تیز طرار سیاست تو خرگوش کی مانند چھلانگ لگاتی ہے مگر عدلیہ خرگوش سے بھی سست رفتار ہے ۔ اس مقدمہ کی مثال لیں تو ایس آئی ٹی کے بننے میں سات سال لگ گئے ۔ اس کے بعد تین سو سے زیادہ لوگوں کی گواہیاں اور سپریم کورٹ کی روزآنہ سماعت پر اصرار کے باوجود فیصلہ آنے میں تین سال کا عرصہ لگ گیا اور جب فیصلہ آیا اس نے دونوں فریقوں کو ناراض کردیا کیونکہ جہاں ایک طرف 30 لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا تھا وہیں 29بری بھی کر دئیے گئے ۔
2012کا معاملہ وہیں ختم نہیں ہوا کیونکہ اس کے بعدوہ خصوصی عدالت میں جا پہنچا اور وہاں مزید گیا رہ سال گزر جانے کے بعد سارے ملزمین کو آزادی کا پروانہ عطا کردیا گیا۔ اس فیصلے میں اگر سب کو پھانسی ہوجاتی تب وہJustice delayed is justice denied کے زمرے میں آتا مگر یہاں تو الٹا ہوگیا۔ گجرات فساد کے بعد سرکار نے جسٹس ناناوتی کمیشن کو اس کی تفتیش کا کام سونپا تھا۔ اس وقت چونکہ گجرات میں نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے اس لیے وہ طرح طرح کی دشواریوں کا شکار ہوتا رہا ۔ اس کے باوجود نرودا گام قتل عام میں سیاسی مداخلت کی بابت رپورٹ میں یہ درج ہے کہ : ‘‘۰۰۰نہ صرف علاقہ کے باشندے بلکہ وہاں موجود پولیس نے بھی کہا ہے کہ وی ایچ پی ، بجرنگ دل اور بی جے پی کے رہنماوں نے نہ صرف اس معاملہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ ان کی شئے پر اس علاقہ میں فسادات ہوئے ‘‘۔ کمیشن نے اس واضح اعتراف کے بعد نام لینے سے اس لیے گریز کیا تھا کیونکہ مقدمات زیر سماعت تھے ۔ اس کے باوجود بی جے پی کی کوندانانی، وی ایچ پی کے پٹیل اور بجرنگ دل کے بابو کا بری ہوجانا کمیشن کے ساتھ ساتھ قانون کا بھی بھونڈا مذاق ہے ۔نرودا گام معاملے میں عدلیہ نہ صرف ان بدمعاش سیاستدانوں پر قابو کرنے میں ناکام رہا بلکہ خود ان کے دباو میں آگیا۔ اس کیس کے پہلے تین سالوں میں دو سرکاری وکیلوں نے استعفیٰ دیا ۔ پہلے نگم شکلا نے راہِ فرار اختیار کی اور بعد میں ان کی جگہ لینے والے اجئے چوکسی بھی چلتے بنے بالآخر 2012 میں سی ایس شاہ کا تقرر کیا گیا ۔ مارچ 2020 میں یہ معاملہ قریب الختم تھا۔ چند گواہوں کی آخری گواہی چل رہی تھی کہ اچانک مقدمہ کی جج جیوتسنا یاگنک کا تبادلہ کردیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دلیر خاتون نرودا پاٹیا معاملہ میں زعفرانیوں کو سخت سزا سنا چکی تھیں۔ان کی جگہ شبھدا بخشی کو اسی لیے لایا گیا تاکہ سارے مجرمین کو چھڑایا جاسکے ۔قرآن حکیم میں تو ایک بے قصور کا ناحق قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے مگر نرودا گام کے گیارہ لوگوں کے مقابلے پاس کے نروسا پاٹیا میں 97 لوگوں کی ہلاکت بظاہر بڑا ظلم لگتا ہے ۔ اس معاملہ میں 2012 کے اندر مایا کوندنانی کو فساد کا سرغنہ ٹھہرا کر28 سال کی سزا سنائی گئی۔ 2018میں وہ فیصلہ سنانے والی جسٹس جیوتسنا یاگنک کو خوب دھمکیاں دی گئیں کیونکہ انہوں بابو بجرنگی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ وہ سارے قیدی اب ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں۔
نرودا گام میں ان فسادیوں نے جس طرح تباہی مچائی اور پھر عدالت کے اندر معصوم بن کر کھڑے ہوگئے اسے دیکھ کر حضرت صالح ؑکی قوم یاد آتی ہے ۔ اس نے پہلے قتل کی دھمکی دی اور پھر عمل در آمد کے لیے ان کے خلاف سازش تیار کی۔سورہ نمل کے اندر اس واقعہ کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ ‘‘اُس شہر میں نوجتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے ۔انھوں نے آپس میں کہا ’’خدا کی قسم کھا کر عہد کرلو کہ ہم صالح ؑ اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے ’ہم بالکل سچ کہتے ہیں‘‘۔ نرودا گام کے فسادیوں نے یہی کیا پہلے تو خاک و خون کی ہولی کھیلی اور پھر عدالت میں کھڑے ہوکر کہہ دیا وہ تو وہاں موجود ہی نہیں تھے ۔ آگے ارشادِ ربانی ہے :یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا۔ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا اُن کو اور ان کی پوری قوم کو۔ اُن کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میں جو وہ کرتے تھے ‘اس میں ایک نشان عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘۔ ایک دن سینٹرل وسٹا پر وجکٹ بھی صالح ؑ کی قوم کے کھنڈرات میں تبدیل ہوجائے گا لیکن اس سے قبل ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے مراحل ہیں ۔ یہ ظالم لوگ اگر وہاں چھوٹ گئے تب بھی آخر میں اللہ کی عدالت تو موجود ہی ہے جہاں کسی ظالم کی ایک نہیں چلے گی اور ہر ایک کو قرار واقعی سزا مل کر رہے گی۔
٭٭٭