... loading ...
ایم سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے وہ رات کا کون ساپہرتھامیں نیندمیں مضطرب ساہوکراٹھ بیٹھا بوجھل بوجھل بے ترتیب سانسوںکے ساتھ ایک نادیدہ سا احساس ہوا کمرے میں کوئی اور بھی موجودہے۔ یہ خیال آتے ہی شدیدسردی کے باوجودپورے جسم کی مساموںسے پسینہ بہنے لگادماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ڈرتے ڈرتے گردن گھماکرجائزہ لیاتوزیرو کے بلب کی روشنی میںکچھ دور کرسی پر ایک ہیولہ سابیٹھادکھائی دیا۔میںتورات کو دروازہ مقفل کرکے سونے کاعادی تھاپھریہ کون ہے ؟ کیسے کمرے میں داخل ہوا؟نہ جانے یہ کیامعمہ ہے؟میں بیڈسے اٹھ کرکھڑاہوگیاآہستہ آہستہ اس کے قریب جاپہنچا اس کی صورت دیکھ کرایک زوردار جھٹکاجیسے میں نے بجلی کی ننگی تاروںکوچھولیاہو کرسی پر بیٹھا وجود ہوبہومیرا ہم شکل تھا ۔اتنی زیادہ شباہت جیسے میں آئینے کے سامنے کھڑا ہوںمیں نے آنکھوںکو زور زورسے ملاپھراپنے بازو پر چٹکی کاٹی کہ جوکچھ میں دیکھ رہاہوں حقیقت ہے خواب۔۔میں اس کے مقابل آکھڑاہوبڑی جرأت سے ا اس کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کرپوچھا تم کون ہو؟
”تم نہیں جانتے۔۔اس کے لہجے میں عجب پراسراریت تھی
”تمہاری آواز۔۔میںنے ہلکاتے ہوئے کہا یہ تو بالکل میرے جیسی ہے
”وہ ہنسااورکرسی سے اٹھ کھڑا ہوا وہ کہہ رہاتھا میری صورت ۔۔آواز اورعادتیں بھی تم سے بالکل سیم ٹوسیم ملتی ہیں۔حیرت سے میرامنہ کھلے کا کھلا رہ گیامتعجب ہوکر میںنے پوچھ ہی لیا
”یہ کیسے ممکن ہے؟
”ارے نادان۔۔وہ بولامیں توتیراعکس ہوں۔تصویرکا دوسرارخ وہ بولاتوپھربولتاہی چلاگیاتم مجھے اپنا ہمزادبھی کہہ سکتے ہو
” ہمزادمیں بڑبڑایا
” وہ عجب اندازسے کہنے لگاتم صحافی ہو نادوسروںکے انٹرویو کرتے پھرتے ہو میں نے سوچاآج تمہاراانٹرویوکرلوںدیکھوں تم خودکتنے پانی میں ہو؟
”میرانٹرویو۔۔میںکون سااہم ہوںمیرالہجہ کھوکھلا تھا
” اللہ تعالیٰ کی ہرتحلیق اہم ہے ۔ہمزادنے کسی دانشورکی طرح جواب دیا مگرانسان نہیں جانتا۔نہیں مانتا وہ دوسروںکو حقیرسمجھتاہے شاید اسی لئے خسارے میں ہے۔ انسان توضمیرکی آواز دبانے پربھی قادرہے ،یہ عادت بن جائے تو ضمیر ملامت کرنابھی چھوڑدیتاہے کیا تم یہ بھی نہیں جانتے ۔
”جانتاتو ہوں میں نے کہامیں بولاتویوں لگا جیسے مجھے اپنی آواز اپنی نہ لگی
” تم بھی کالم لکھتے ہو ہمزاد کہنے لگا بڑی بڑی باتیں کرتے ہو تم نہیں جانتے دوسروںکو نصیحت کرنا بڑا آسان ہوتاہے اور عمل کرناانتہائی مشکل اوہنہ دوسروںکو نصیحت۔۔خودمیاں فصیحت۔۔کیاایسی باتیں کرتے اورلکھتے وقت کبھی ضمیرنے جھنجوڑکر نہیںکہا یہ منہ اور مسورکی دال۔
”پھرکیاکروں؟میںتو عام آدمی کی بات کرتاہوں۔اشرافیہ کو جھنجوڑنے کی کوشش کرتاہوں،لوگوںکااحساس جگانے کے لئے کوشاں رہتاہوں ۔ یہ میرے اندرکے دکھ ہیں جو خون ِجگرمیںانگلیاںڈبوکرلکھتاہوں کہ کسی کے دل میں اترجائے میری بات۔لیکن عجب بے حس معاشرہ ہے بیشتر پرکوئی اثرہی نہیں ہوتا۔
”پھرکیوں لکھتے ہو ہمزادنے وہ سوال کرڈالا جس کی مجھے کم ازکم توقع نہیں تھی ۔یہ تو انرجی ویسٹ کرنے والی بات ہوئی۔
”کسی پراثرہونہ ہو میں نے پرعزم اندازمیں جواب دیا سوئے لوگوںکوجگانے،احساس کی شمع جلانے اورمعاشرے کی منافقت کو بے نقاب کرنے کافریضہ ہمیشہ انجام دیتارہوںگا،جب اور جہاں ظلم ہوگااس کے خلاف آوازبلندکرنا میری زندگی کا حاصل ہے۔
” تم تو کبھی شعربھی کہتے رہے ہو۔۔ہمزادنے پھرسوال کرڈالا ۔۔پھرمشاعروںمیں جاناکیوں ترک کردیاکیادادنہیںملتی تھی۔
سچی بات بتائوںمیںنے بڑے سپاٹ اندازمیں جواباًکہاجتنی بے ادبی میںنے ادب میں دیکھی ہے کہیں اور نہیں ،حددرجہ منافقت۔۔اورپھر جتنے سامع اتنے ہی شاعر ۔ہرکوئی اپنی لابی،اپنے گروپ کی خوشنودی کے لئے واہ واہ میں لگارہتاہے یہ کوئی ادب کی خدمت نہیں۔۔ویسے اب ہرجگہ یہی حال ہے، میں نے جبۂ فضیلت پہنے کئی مذہبی رہنمائوںکوبھی دیکھاہے جوپوسٹرمیں محض اپنے نام کا پروٹوکول نہ دیکھ کر سیخ پاہوکرلڑنے مرنے پراترآتے تھے۔ ہمزادتمہیں کیا بتائوں آج کے انسان کے چہرے بناوٹی اور سینے منافقت کی دولت سے مالا مال ہوچکے ہیں۔ اس ماحول کے باعث میںتو مردم بیزارہوگیاہوں۔ اسی لیے مشاعروںمیں ہی نہیں محافل میں جانے سے بھی گریزاںہوں۔شایدمیںاس صدی کابندہ نہیں ہوں مجھ جیسے سپران فٹ کو 200-100سال پہلے اس جہاںسے گزرجانا چاہیے تھا ،آخرکب تلک ہم ظلم کی حکمرانی ،غریبوںکے حالات دیکھ کر جلتے،کڑھتے اور سسکتے رہیں آخرکب تلک؟
”تمہاری باتیں فرارکابہانہ ہے ہمزاد غرایا اس کافیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو کہ میں اس صدی کا بندہ نہیں ہوں۔لگتاہے حالات کے سامنے تم نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں اس کا مطلب جانتے ہو۔۔نہیں جانتے تو میں بتاتاہوںتم یہ کہنا چاہ رہے ہوتم ظالموں،انسانیت دشمنوں،بے رحم قاتلوں،معصوم بچوںکے ساتھ درندگی کرنے والے بھیڑیوںسے ہار مان چکے ہو۔
”یہی سمجھ لو میں نے بے بسی سے جواب دیا
”اس کا صاف صاف مطلب ہے تم مایوس ہوچکے ہو،ہمزادکے لہجے میں بڑاکرب تھاکیا تم نہیں جانتے مایوسی گناہ ہے تمہاراطرزِ عمل بتارہاہے کہ تم ایمان کے تیسرے درجے سے بھی نیچے گرگئے ہو۔
”میںنے ہمیشہ اپنی شاعری،کالموں،مضامین میںانسانیت کی درخشاںروایات کواجاگرکرنے کی کوشش کی میںنے ایک آہ بھرکرکہامیری تمام تحریروںکا موضوع انسان ہے قرآن میں بھی انسان کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے زندگی گذارنے کے درخشاں اصول بتائے ہیں۔
ہمزاد کہنے لگا حالات سے فرار جواں مردی نہیںایساصرف بزدل کرتے ہیں مشکلات کا مقابلہ کرنا ہی زندگی کی علامت ہے جسے یقین نہ آئے تاریخ کی کتابوںکی ورق گردانی کرکے دیکھ لے۔ اللہ کے تمام انبیاء کرام،دنیا کی سب نامورشخصیات، کوجن مشکلات کا سامناکرناپڑا ،ہمارے حالات تو ان کے عشر عشیر بھی نہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرنے والے یہ بھول گئے کہ کالی سیاہ راتوں میں جب گھپ ٹوپ اندھیرا چھاجاتاہے تو دل دہل دہل جاتے ہیں لیکن عین اسی وقت اچانک کوئی جگنو آن نکلے تو ماحول جگمگ جگمگ روشن روشن ہوجاتاہے حالانکہ ابھی سورج نہیں نکلا،رات باقی ہے صرف ایک ننھے سے پرندے جگنونے کالی سیاہ رات کا سینہ چیرکررکھ دیاہے۔ انسان توپھر اشرف المخلوقات ہے اسے مایوسی زیبا نہیں۔