... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپوزیشن اتحاد کا سوال اس ملک کے مشکل ترین سوالوں میں سے ایک ہے ۔ اس راہ میں عوام کو اب تک جو تلخ تجربات ہوئے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مرکز میں جب جب اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے کوئی حکومت بنی ہے ، اس کا انجام بخیر نہیں ہوا ہے ۔ اسی لیے عوام اس تجربے پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے ، لیکن موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نظر نہیں آرہا ہے ، اس لیے اس پر تیزی سے کام شروع کردیا گیا ہے ۔ایک بار پھر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو یکجا کرکے بی جے پی کو زیرو پر آؤٹ کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ بی جے پی کو زیرو پر آؤٹ کرنے کا خیال جتنا دل آویز ہے ، اتنا ہی پریشان کن بھی ہے ۔کسی نے درست ہی کہا تھا کہ اپوزیشن لیڈروں کو متحد کرنے کا خیال مینڈکوں کو تولنے جیسا عمل ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کا ہر لیڈر وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتا ہے ۔جبکہ ملک میں وزیراعظم کی ایک ہی کرسی ہے ۔ ایک کرسی پر اتنے لیڈروں کا بیٹھناممکن نہیں ہے ۔ وزیراعظم کی کرسی کسی ایک ہی کو ملنی ہے ۔ وہ ‘ایک ‘ کون ہوگا، یہی سب سے بڑا سوال ہے جس پر اکثر اپوزیشن اتحاد پارہ پار ہوتا رہا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جنتا دل کے دور میں جب لیڈروں کے درمیان رسہ کشی جاری تھی تو ملک کے سب سے بڑے کارٹونسٹ آرکے لکشمن نے ایک معرکة الآرا کا رٹون بنایا تھا۔ اس کارٹون میں وزیراعظم بننے کے سوال پر ایک میٹنگ میں خاصی ماتھا پچی ہورہی ہے کہ اچانک ایک شخص یہ کہتے ہوئے میٹنگ میں داخل ہوتا ہے کہ اس نے اپوزیشن اتحاد کا فارمولا ڈھونڈ نکالا ہے ۔یعنی پانچ وزیراعظم، تین نائب وزیراعظم وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ دور تھا جب وی پی سنگھ کابینہ میں دیوی لال ملک کے پہلے نائب وزیراعظم بنے تھے ۔
یہ تو ماضی کی باتیں ہیں، لیکن اس مرتبہ نتیش کمار نے اپوزیشن کو متحد کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے ، اس میں کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ نظر آرہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑی ہوئی ہے ۔ مرکزی ایجنسیوں سی بی آئی اور ای ڈی کو جس طرح اپوزیشن لیڈروں کے پیچھے لگادیا گیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت ملک میں ‘اپوزیشن فری’ جمہوریت چاہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہرمحاذ پر اپوزیشن کو ملیا میٹ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار آج کل مشن 2024 پر تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ ان کا مقصد بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا ایک مضبوط اتحاد قایم کرنا ہے ۔انھوں نے اس سلسلے کی تازہ ملاقات مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو سے کی ہے ۔ قبل ازیں وہ کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے اور راہل گاندھی سے بھی مل چکے ہیں۔بلاشبہ نتیش کمار ایک سنجیدہ سیاست داں ہیں اورجے پی تحریک کے اکلوتے لیڈر ہیں جو اس وقت عملی سیاست میں سرگرم ہیں۔اس تحریک میں ان کے ساتھی رہے لالو پرسادیادو اپنی بیماری کی وجہ سے عملی سیاست سے دور ہوچکے جبکہ جے پی تحریک کے دولیڈر شردیادو اور رام ولاس پاسوان اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی بار بی جے پی سے ہاتھ ملانے کی وجہ سے نتیش کمار کی سیکولرشبیہ کسی قدر دھندلی ضرور ہوئی ہے ، لیکن وہ فی الحال جس کردار میں نظر آرہے ہیں، اس میں ان پر یقین کرنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی نظریں وزیراعظم کی کرسی پر ہیں، لیکن وہ خود اس خیال کو مسترد کرچکی ہیں۔
نتیش کمار کے ساتھ تازہ ملاقات کے بعد کلکتہ میں ممتا بنرجی اور لکھنؤ میں اکھلیش یادو نے بی جے پی کوروکنے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کا محاذ بنانے اور لوک سبھا الیکشن متحد ہوکر لڑنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ ظاہر ہے عام انتخابات میں اب ایک سال ہی باقی رہ گیا ہے اور اس کے لیے ابھی سے تیاری نہیں کی گئی تو بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تازہ سرگرمی کا مقصد اترپردیش، مغربی بنگال اور بہار میں لوک سبھا کی تقریباً ایک تہائی سیٹوں پر زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنا ہے ۔ اترپردیش میں سب سے زیادہ 80 سیٹیں ہیں۔ اس کے بعد مغربی بنگال کا نمبر ہے ، جہاں 42لوک سبھا نشستیں ہیں، جبکہ بہار سے 40 لوک سبھا ممبر چنے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تینوں صوبے اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی سے نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد کے مختلف پہلوؤں پر کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کارآمدگفتگو کی۔ دونوں نے اپوزیشن پارٹیوں کا محاذ بنانے کی وکالت کی اور2024کے لوک سبھا چناؤ کے لیے متحدہوکر تیاری کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس کے بعدنتیش کمار نے لکھنؤ میں اکھلیش یادو سے ایک گھنٹہ طویل بات چیت کی۔بعد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں اکھلیش یادو نے اپوزیشن اتحاد کی مہم میں ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ظاہر ہے یہ خبر ان سبھی لوگوں کے لیے خوش آئند ہے جو بی جے پی کی منافرانہ سیاست سے عاجز آچکے ہیں اور ملک میں ایک نئی تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن صرف خواب دیکھنے سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اس کے لیے عملی جدوجہد اور اشتراک عمل ضروری ہوتا ہے ۔ اپوزیشن کا اتحاد اس ملک میں جن تجربات سے گزرچکا ہے ، ان میں لوگوں کے اندیشے بھی اپنی جگہ درست ہیں۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی بنیاد کیا ہوگی؟ کچھ علاقائی پارٹیاں غیر بی جے پی اور غیرکانگریس اتحاد کی بات کرتی ہیں، جہاں سے اپوزیشن کے انتشار کا عمل شروع ہوتا ہے ۔ کانگریس اپنی تمام ترخرابیوں کے باوجود اس ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے ، جس کی قومی شناخت اب بھی برقرار ہے ۔کانگریس کے بغیر اپوزیشن کا اتحاد بے معنی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تلنگانہ کی حکمراں جماعت نے بھی کانگریس کی زیر قیادت کسی قومی اتحاد میں شامل ہونے پر اپنے رخ میں نرمی کے اشارے دئیے ہیں۔حالانکہ اب تک وہ ایک غیربی جے پی اور غیرکانگریس تیسرے محاذ کی وکالت کرتی رہی ہے ۔ تاہم اس معاملے میں ممتا بنرجی، اکھلیش یادو اور نوین پٹنائک کا رخ ابھی تک واضح نہیں ہے ۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران نوین پٹنائک کو چھوڑ کر کمیونسٹ پارٹیوں سمیت جن جن لیڈروں سے نتیش کمار نے ملاقات کی ہے ، ان میں جن سوالوں کے تعلق سے شبہات ظاہر کئے گئے ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس سے اپوزیشن اتحاد میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔ہاں سبھی نے بی جے پی کے خلاف متحد ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔ نتیش کی کوششوں کو ممتا اور اکھلیش ہی نہیں بلکہ راہل گاندھی، اروند کجریوال نے بھی سراہا ہے ۔ابھی کئی اور لیڈروں سے نتیش کی ملاقات ہوگی۔ اگلا پڑاؤ ان سب کی مشترکہ میٹنگ ہے ، جو نہایت اہمیت کی حامل ہوگی اور اسی میٹنگ میں آئندہ حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔ اس میٹنگ میں اقل ترین پروگرام، سیٹوں کی تقسیم اور
لیڈر کے انتخاب پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر غور ہوگا۔ ظاہرہے ان سوالوں پر مفاہمت آسان نہیں ہوگی اور اسی پر مستقبل کا دارومدار بھی ہوگا۔صحیح تصویر کرناٹک اسمبلی کے انتخابی نتائج کے بعد واضح ہوگی، جہاں بی جے پی کا اقتدار داؤ پر لگا ہواہے ۔اپوزیشن کے پاس سلگتے ہوئے موضوعات کی کوئی کمی نہیں ہے ۔
مہنگائی، بے روزگاری،بڑھتی ہوئی معاشی نابرابری،سماجی انصاف اور فرقہ وارانہ منافرت جیسے اہم موضوعات براہ راست عوام سے جڑے ہوئے ہیں اور ووٹروں کے ایک بڑے طبقے کے لیے کشش بھی رکھتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن ان موضوعات کو بھنانے میں کتنا کامیاب ہوگااور حکمراں جماعت کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کس طرح کرے گا۔اپوزیشن کا ایک پرچم تلے جمع ہونا موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضروری ہے ۔اس میں ہرلیڈر کو اپنی انا قربان کرنا ہوگی، تب ہی کو ئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا۔
٭٭٭