وجود

... loading ...

وجود

اپوزیشن اتحاد کا خوابِ پریشاں

بدھ 03 مئی 2023 اپوزیشن اتحاد کا خوابِ پریشاں

معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپوزیشن اتحاد کا سوال اس ملک کے مشکل ترین سوالوں میں سے ایک ہے ۔ اس راہ میں عوام کو اب تک جو تلخ تجربات ہوئے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مرکز میں جب جب اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے کوئی حکومت بنی ہے ، اس کا انجام بخیر نہیں ہوا ہے ۔ اسی لیے عوام اس تجربے پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے ، لیکن موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نظر نہیں آرہا ہے ، اس لیے اس پر تیزی سے کام شروع کردیا گیا ہے ۔ایک بار پھر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو یکجا کرکے بی جے پی کو زیرو پر آؤٹ کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ بی جے پی کو زیرو پر آؤٹ کرنے کا خیال جتنا دل آویز ہے ، اتنا ہی پریشان کن بھی ہے ۔کسی نے درست ہی کہا تھا کہ اپوزیشن لیڈروں کو متحد کرنے کا خیال مینڈکوں کو تولنے جیسا عمل ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کا ہر لیڈر وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتا ہے ۔جبکہ ملک میں وزیراعظم کی ایک ہی کرسی ہے ۔ ایک کرسی پر اتنے لیڈروں کا بیٹھناممکن نہیں ہے ۔ وزیراعظم کی کرسی کسی ایک ہی کو ملنی ہے ۔ وہ ‘ایک ‘ کون ہوگا، یہی سب سے بڑا سوال ہے جس پر اکثر اپوزیشن اتحاد پارہ پار ہوتا رہا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جنتا دل کے دور میں جب لیڈروں کے درمیان رسہ کشی جاری تھی تو ملک کے سب سے بڑے کارٹونسٹ آرکے لکشمن نے ایک معرکة الآرا کا رٹون بنایا تھا۔ اس کارٹون میں وزیراعظم بننے کے سوال پر ایک میٹنگ میں خاصی ماتھا پچی ہورہی ہے کہ اچانک ایک شخص یہ کہتے ہوئے میٹنگ میں داخل ہوتا ہے کہ اس نے اپوزیشن اتحاد کا فارمولا ڈھونڈ نکالا ہے ۔یعنی پانچ وزیراعظم، تین نائب وزیراعظم وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ دور تھا جب وی پی سنگھ کابینہ میں دیوی لال ملک کے پہلے نائب وزیراعظم بنے تھے ۔
یہ تو ماضی کی باتیں ہیں، لیکن اس مرتبہ نتیش کمار نے اپوزیشن کو متحد کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے ، اس میں کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ نظر آرہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑی ہوئی ہے ۔ مرکزی ایجنسیوں سی بی آئی اور ای ڈی کو جس طرح اپوزیشن لیڈروں کے پیچھے لگادیا گیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت ملک میں ‘اپوزیشن فری’ جمہوریت چاہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہرمحاذ پر اپوزیشن کو ملیا میٹ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار آج کل مشن 2024 پر تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ ان کا مقصد بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا ایک مضبوط اتحاد قایم کرنا ہے ۔انھوں نے اس سلسلے کی تازہ ملاقات مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو سے کی ہے ۔ قبل ازیں وہ کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے اور راہل گاندھی سے بھی مل چکے ہیں۔بلاشبہ نتیش کمار ایک سنجیدہ سیاست داں ہیں اورجے پی تحریک کے اکلوتے لیڈر ہیں جو اس وقت عملی سیاست میں سرگرم ہیں۔اس تحریک میں ان کے ساتھی رہے لالو پرسادیادو اپنی بیماری کی وجہ سے عملی سیاست سے دور ہوچکے جبکہ جے پی تحریک کے دولیڈر شردیادو اور رام ولاس پاسوان اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی بار بی جے پی سے ہاتھ ملانے کی وجہ سے نتیش کمار کی سیکولرشبیہ کسی قدر دھندلی ضرور ہوئی ہے ، لیکن وہ فی الحال جس کردار میں نظر آرہے ہیں، اس میں ان پر یقین کرنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی نظریں وزیراعظم کی کرسی پر ہیں، لیکن وہ خود اس خیال کو مسترد کرچکی ہیں۔
نتیش کمار کے ساتھ تازہ ملاقات کے بعد کلکتہ میں ممتا بنرجی اور لکھنؤ میں اکھلیش یادو نے بی جے پی کوروکنے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کا محاذ بنانے اور لوک سبھا الیکشن متحد ہوکر لڑنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ ظاہر ہے عام انتخابات میں اب ایک سال ہی باقی رہ گیا ہے اور اس کے لیے ابھی سے تیاری نہیں کی گئی تو بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تازہ سرگرمی کا مقصد اترپردیش، مغربی بنگال اور بہار میں لوک سبھا کی تقریباً ایک تہائی سیٹوں پر زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنا ہے ۔ اترپردیش میں سب سے زیادہ 80 سیٹیں ہیں۔ اس کے بعد مغربی بنگال کا نمبر ہے ، جہاں 42لوک سبھا نشستیں ہیں، جبکہ بہار سے 40 لوک سبھا ممبر چنے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تینوں صوبے اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی سے نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد کے مختلف پہلوؤں پر کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کارآمدگفتگو کی۔ دونوں نے اپوزیشن پارٹیوں کا محاذ بنانے کی وکالت کی اور2024کے لوک سبھا چناؤ کے لیے متحدہوکر تیاری کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس کے بعدنتیش کمار نے لکھنؤ میں اکھلیش یادو سے ایک گھنٹہ طویل بات چیت کی۔بعد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں اکھلیش یادو نے اپوزیشن اتحاد کی مہم میں ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ظاہر ہے یہ خبر ان سبھی لوگوں کے لیے خوش آئند ہے جو بی جے پی کی منافرانہ سیاست سے عاجز آچکے ہیں اور ملک میں ایک نئی تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن صرف خواب دیکھنے سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اس کے لیے عملی جدوجہد اور اشتراک عمل ضروری ہوتا ہے ۔ اپوزیشن کا اتحاد اس ملک میں جن تجربات سے گزرچکا ہے ، ان میں لوگوں کے اندیشے بھی اپنی جگہ درست ہیں۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی بنیاد کیا ہوگی؟ کچھ علاقائی پارٹیاں غیر بی جے پی اور غیرکانگریس اتحاد کی بات کرتی ہیں، جہاں سے اپوزیشن کے انتشار کا عمل شروع ہوتا ہے ۔ کانگریس اپنی تمام ترخرابیوں کے باوجود اس ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے ، جس کی قومی شناخت اب بھی برقرار ہے ۔کانگریس کے بغیر اپوزیشن کا اتحاد بے معنی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تلنگانہ کی حکمراں جماعت نے بھی کانگریس کی زیر قیادت کسی قومی اتحاد میں شامل ہونے پر اپنے رخ میں نرمی کے اشارے دئیے ہیں۔حالانکہ اب تک وہ ایک غیربی جے پی اور غیرکانگریس تیسرے محاذ کی وکالت کرتی رہی ہے ۔ تاہم اس معاملے میں ممتا بنرجی، اکھلیش یادو اور نوین پٹنائک کا رخ ابھی تک واضح نہیں ہے ۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران نوین پٹنائک کو چھوڑ کر کمیونسٹ پارٹیوں سمیت جن جن لیڈروں سے نتیش کمار نے ملاقات کی ہے ، ان میں جن سوالوں کے تعلق سے شبہات ظاہر کئے گئے ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس سے اپوزیشن اتحاد میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔ہاں سبھی نے بی جے پی کے خلاف متحد ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔ نتیش کی کوششوں کو ممتا اور اکھلیش ہی نہیں بلکہ راہل گاندھی، اروند کجریوال نے بھی سراہا ہے ۔ابھی کئی اور لیڈروں سے نتیش کی ملاقات ہوگی۔ اگلا پڑاؤ ان سب کی مشترکہ میٹنگ ہے ، جو نہایت اہمیت کی حامل ہوگی اور اسی میٹنگ میں آئندہ حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔ اس میٹنگ میں اقل ترین پروگرام، سیٹوں کی تقسیم اور
لیڈر کے انتخاب پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر غور ہوگا۔ ظاہرہے ان سوالوں پر مفاہمت آسان نہیں ہوگی اور اسی پر مستقبل کا دارومدار بھی ہوگا۔صحیح تصویر کرناٹک اسمبلی کے انتخابی نتائج کے بعد واضح ہوگی، جہاں بی جے پی کا اقتدار داؤ پر لگا ہواہے ۔اپوزیشن کے پاس سلگتے ہوئے موضوعات کی کوئی کمی نہیں ہے ۔
مہنگائی، بے روزگاری،بڑھتی ہوئی معاشی نابرابری،سماجی انصاف اور فرقہ وارانہ منافرت جیسے اہم موضوعات براہ راست عوام سے جڑے ہوئے ہیں اور ووٹروں کے ایک بڑے طبقے کے لیے کشش بھی رکھتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن ان موضوعات کو بھنانے میں کتنا کامیاب ہوگااور حکمراں جماعت کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کس طرح کرے گا۔اپوزیشن کا ایک پرچم تلے جمع ہونا موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضروری ہے ۔اس میں ہرلیڈر کو اپنی انا قربان کرنا ہوگی، تب ہی کو ئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر