... loading ...
حمید اللہ بھٹی
ْ۔۔۔۔۔۔۔
کسی پرمقدمہ درج ہو چکاہو تو قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی طرف سے گرفتار کرنے کی کوشش حیران کُن نہیں ہوتی۔ اِس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِدارے چھاپوں سے بھی گریز نہیں کرتے مگر چھاپے کی طرف جانے سے قبل عدالت سے سرچ ورانٹ لیا جاتا ہے جوکسی معقول جواز کی بنا پرہی عدالت جاری کرتی ہے۔ سرچ وارنٹ کے باجود انسانی حقوق اور چادرو چاردیواری کا تقدس ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے مگرجمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اینٹی کرپشن اور پولیس نے مشترکہ چھاپے میں جو کچھ لاہورمیں چوہدری پرویز الٰہی کے گھر کیا اُسے کسی صورت چھاپہ نہیں کہہ سکتے بلکہ ایسا حملہ تھا جس کا مقصدصرف اپوزیشن رہنما کو سبق سکھاناتھا۔ اگر یہ چھاپہ ہوتا تو پولیس اور اینٹی کرپشن والے پہلے عدالت سے سرچ وارنٹ حاصل کرتے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جس مقدمے کی آڑمیں چھاپہ مارا گیا اُس میں چودھری پرویز الٰہی کی چھ مئی تک عبوری ضمانت ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ موجودہ نظامِ انصاف پر اعتمادکرتے اور اسی سے انصاف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی بناپرچھاپے کا جوازہی نہیں رہتاکیو نکہ مطلوب نہ تو اشتہاری تھے بلکہ عدالت سے عبوری ضمانت ملنے کے بعداپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ اُن کا ملک سے فرار کابھی کوئی خدشہ نہیں،اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ یہ چھاپہ نہیں بلکہ حملہ تھا۔ حملے سے اپوزیشن کے صف ِ اول کے رہنما کودھمکایااور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چھاپے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِدارے جب کہیں جاتے ہیں توسب سے پہلے اہلِ خانہ کو سرچ ورانٹ دکھاتے ہیں پھر گھرداخل ہوتے ہیں اگر کوئی رخنہ ڈالے یا رکاوٹ بنے تو ایسے شخص کے خلاف قانونی کاروائی کا جواز بنتا ہے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اینٹی کرپشن اور پولیس کی کاروائی کسی حوالے سے بھی قانون کے مطابق نہیں تھی جس کسی قانونی ماہر سے اِس بابت گفتگو ہوئی سب کا یہی کہناہے کہ یہ کارروائی اختیارات سے بالاتر اور غیرقانونی ہے کیونکہ قانون میں ایسی کوئی دفعہ نہیں جو کسی بھی اِدارے کو بلاجواز چڑھائی کی اجازت دیتی ہو ۔ یہ کھلم کھلا حملہ ہے۔ ایک ایسا مقدمہ جس میں ضمانت قبل ازگرفتاری ہوچکی ہوکوجوازبناکر کسی کے گھر چڑھ دوڑناواضح طور پر توہینِ عدالت ہے ۔اِس کے خلاف متاثرہ فریق اگر عدالت جائے تو ذمہ داران کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ قانونی اختیارات سے تجاوز کی بناپر ذمہ داران کو سزا مل سکتی ہے۔
چھاپے اورحملے میں فرق ہوتا ہے چھاپہ قانون کی طرف سے دیے گئے اختیارات کے مطابق ہوتا ہے لیکن حملے کے لیے کسی قانونی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ طاقتور جب چاہے کسی کو کسی بھی وقت روند سکتا ہے۔ اینٹی کرپشن اور پولیس نے چوہدری پرویز الٰہی کے گھر اپنی طاقت کا مظاہرہ ہی تو کیا ہے۔ سب سے پہلے گھر کے دروازے کو آگ لگائی گئی ،جسے بجھانے کے لیے گھر کے اندرسے پانی پھینکا گیا بعد میںحملہ آورپولیس نے غصے میں بکتر بند گاڑی کے ذریعے دروازہ توڑ دیا۔ اِس سے پہلے پولیس اہلکار دیواروں سے کودتے گھر میں داخل ہوتے رہے اورپھر دروازہ ٹوٹنے کے بعد نعرے لگاتے گھر میں داخل ہو گئے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ذرائع ابلاغ کی وساطت سے حملے کے مناظر پاکستانیوں نے دیکھے تو ششدر رہ گئے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ یہ کسی سیاستدان کا گھر نہیں بلکہ کسی غیر ملکی جاسوس کا ہیڈ کوارٹر ہے جسے گرانے کے لیے ملک کی تمام تر طاقت جھونک دی گئی۔ وہی پولیس جو کچے میںآپریشن سے خوفزدہ اور بے مقصد کارروائیوں میں مصروف ہے یہاں تمام تر فسطائیت کے ساتھ حملہ آور ہوئی۔ کچے میں تو کارروائی ڈالنے پولیس اہلکار صبح جاتے اور سنسان جگہ پر بیٹھ کر گولیاں چلا کر شام کو واپس آجاتے ہیں۔ یہی پولیس الیکشن ڈیوٹی کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ امن و امان قائم کرنے میں بھی ناکام ہے لیکن ایک سیاسی رہنما کے گھر ایسی دیدہ دلیری سے جھپٹی جیسے کوئی ذاتی پرخاش ہوگھر کا بیرونی دروازہ توڑنے کے ساتھ گھر کے اندرونی دروازے تک توڑ دیے۔ اِس دوران اہلِ خانہ کے ساتھ گھریلو ملازمین کو بھی زدوکوب کیا ۔ایسا ظلم و جبر کبھی آمریت کے دورمیں بھی نہیں ہوا۔ پولیس اور اینٹی کرپشن کا یہ مشترکہ حملہ اختیارات سے تجاوز کی مذموم مثال ہے۔ اِس واقعہ سے ایسا تاثر گہراہوا کہ ملک میں حاکمانِ وقت سے اختلاف کرنے والے کو عبرت کا نشان بنا نے کی پالیسی رائج ہے۔
موجودہ حکومت میں شامل اکثر چہروں پر بدعنوانی کے الزامات ہیں جن میں وزیرِ اعظم سے لیکر وزراء تک اور مریم نواز سے لیکر میاں شہبازشریف کے صاحبزادوںنے ضمانتیں کرارکھی ہیں۔ اِن کو آتے جاتے پولیس نہ صرف تحفظ دیتی ہے بلکہ پروٹوکول پر بھی مامورہے۔ چوہدری پرویز الٰہی دوبار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے منتخب وزیرِ اعلیٰ ،دوبار اسپیکر پنجاب اسمبلی ، ایک بار اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی ، ملک کے نائب وزیر اعظم سمیت کئی بار صوبائی وزیر کے طورپرکام کر چکے ہیں وہ اِس وقت ملک کی سب سے مقبول اور بڑی اپوزیشن جماعت کے مرکزی صدر ہیں۔ اُن کا واحد جرم جو اِس وقت نظر آتا ہے وہ حاکمانِ وقت کی پالیسیوں پردلیری سے تنقید کرنا ہے۔ یہ کوئی جرم نہیں حالانکہ ہر جمہوری ملک میں حکومت کی ایسی پالیسیاں جو عوامی مفاد کے منافی ہوں اپوزیشن کی طرف سے ہدفِ تنقید بنائی جاتی ہیں جس کا مقصدحکومت کی اصلاح ہوتاہے۔ حکومت بھی اپوزیشن کی تجاویز کی روشنی میں اپنی پالیسیوں پرنظرثانی کرتی اور بہتر بناتی ہے لیکن موجودہ حکومت نے تنقید کو جرم بنادیا ہے۔ اختلافِ رائے تو جمہوریت کا حسن ہے مگرحکمران اختلافِ رائے کو برداشت کرنے سے انکاری ہیںیہ طرزِ عمل جمہوری اصولوں کے منافی ہے ۔یہ جمہوریت کی خدمت نہیں بلکہ کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
حیران کُن پہلو یہ ہے کہ اینٹی کرپشن اور پولیس نے ایسے وقت کارروائی کی جب نگران وزیرِ اعلیٰ محسن نقوی ملک میں موجود نہیں بلکہ عمرے کی دائیگی کے لیے سعودی عرب ہیں ۔ اسی طرح آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور بھی ملک سے باہر ہیں۔وزیرِ داخلہ راناثنااللہ اور محسن نقوی دونوں نے پولیس گردی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے ۔ شہبازشریف نے بھی کہا ہے اِس کارروائی کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں جس کی بناپر پولیس کا دیدہ دلیری سے معروف سیاسی رہنما کے گھر چڑھائی اور حملہ ناقابلِ فہم ہے وفاقی حکومت کی لاعلمی اور اعلیٰ پولیس آفیسران کی عدم موجودگی میں یہ حملہ حیران کُن ہے جس کی گہرائی تک انکوائری ہونی چاہیے ۔ اسی طرح کا واقعہ زمان پارک میں بھی پیش آیا۔ جب عمران خان کی غیر موجودگی میں پولیس نے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تشدد کرتے ہوئے خواتین کو بھی نہ بخشا گیا ۔ بالکل ویسا ہی چوہدری پرویز الٰہی کے گھر ہواجہاں چادر اور چار دیواری کی دھجیاں تو اُڑائی ہی گئیں مگر ایسی خواتین
جن پرآج تک کبھی کسی غیر محرم کی نظر تک نہیں پڑ ی ، اُن سے بھی مجرموں والا سلوک کیا گیا۔ گھریلو اور بے گناہ خواتین سے ایسے سلوک کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔مزید ستم یہ کہ پولیس اپنی بدمعاشی چھپانے کے لیے جو حربے اختیار کرتی ہے، یہاں بھی باز نہیں آئی۔ پولیس گردی کے تمام مناظرایک طرف ذرائع ابلاغ نے پورے ملک کو دکھادیے ہیں پھر بھی دھونس کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی سمیت کئی دفعات لگا کر متاثرین کے خلاف ہی مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایک جرم کو چھپانے کے لیے دوسرا جرم پولیس کی سراسربدمعاشی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کو قانون و قاعدے کا سختی سے پابند بنایا جائے ۔وگرنہ یاد رکھیں ابھی تو یہ حملہ عمران خان اور پرویز الٰہی کے گھروں پر ہوا ہے ،کل کو اور بھی سیاستدان زیرِ عتاب آسکتے ہیں۔ اگر پولیس گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ساتھ ذمہ داران کے خلاف بلا امتیاز سخت ترین کارروائی کرناہوگی تاکہ مستقبل میں مزید کوئی سیاستدان ایسے کسی حملے کا نشانہ نہ بن سکے۔
٭٭٭