... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عتیق اور اشرف کی ہلاکت کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو یوگی سرکار کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔جمعہ کو سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے اتر پردیش حکومت سے نہ صرف دو ہفتے قبل پولیس حراست میں عتیق و اشرف کے قتل بلکہ اسد انکاونٹر کی رپورٹ بھی طلب کر لی ۔ سپریم کورٹ نے سوال کیا عتیق اور اس کے بھائی کو ایمبولینس میں اسپتال کیوں نہیں پہنچایا گیا؟ انہیں چلنے پر کیوں مجبور کیا گیا ؟ یوگی حکومت نے اپنی صفائی میں کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق انہیں ہر دو دن بعد طبی معائنہ کے لیے لے جانا پڑتا ہے ۔ اس معاملہ میں حکومت مدافعت میں آگئی اور بولی کہ تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے ۔عتیق احمد کے وکیل وشال تیواری نے الزام لگایا گیا کہ عتیق سمیت خاندان کے افراد کا قتل عدالتی عمل سے علی الرغم مجرموں کو ختم کرنے کے نمونے کا حصہ ہے ۔ یوگی سرکار میں اگر ہمت ہوتی تو عدالت کے اندر ببانگِ دہل اعتراف کرلیتی لیکن عوام میں کچھ اور عدالت کے اندر اس کے برخلاف موقف اختیار کرنا عفرانیوں کا پرانا پاکھنڈ ہے ۔
عتیق احمد کے بہیمانہ قتل کی واردات کے بعد وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ چندرا چندرا کر کہہ رہے ہیں کہ مافیا کو مٹی میں ملا دیا گیا ہے ۔ اتر پردیش میں اب قانون و انتظام بالکل چست اور درست ہوچکا ہے لیکن گزشتہ چند دنوں میں سلسلہ وار قتل کی وارداتیں وزیر اعلیٰ کے کھوکھلے دعووں کو منہ چڑھاتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ایٹا کوتوالی علاقہ کے تحت کوٹرہ تیراہے پر آندھا گاؤں کی رہنے والی روشنی اہیروار (20) بنتِ مان سنگھ اہیروار کا دن دہاڑے سر راہ چلتے ہوئے تھانے سے محض دو سو میٹر کے فاصلے پر گولی مار کر قتل ہے ۔ ریاست کے اندر فی الحال جرائم پیشہ بدمعاشوں کے حوصلے آسمان کو چھو رہے ہیں اور وہ اپنے کارناموں سے یوگی حکومت کے بلند بانگ دعوے کو مٹی میں ملا رہے ہیں۔ پولیس ریمانڈ میں ملزم کا تحفظ انتظامیہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے اور اسے ادا کرنے میں یوگی سرکار بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ عتیق اور اشرف کا پولیس کی حراست میں قتل دراصل حکومت کی بہت بڑی ناکامی ہیں۔ یہ نہایت بے حیا سرکار ہے ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کوتاہی کے سبب یا تو وزیر اعلیٰ استعفیٰ دے دیتے یا انہیں مرکزی حکومت باہر کا راستہ دکھا دیتی لیکن بے شرم جنتا پارٹی میں یہ روایت ہی نہیں ہے ۔
عتیق و اشرف قتل کے دودن بعد یو پی کے جالون ضلع میں روشنی اہیروار کے قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ وہ طالبہ رام لکھن پٹیل کالج سے بی اے کے دوسرے سال کا امتحان دے کر گھرلوٹ رہی تھی کہ دو موٹر سائیکل سوار نوجوان اس کو گولی مار کر اور اپنا پستول موقع واردات پر چھوڑ کے فرار ہوگئے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشہ ور قاتل نہیں ہیں لیکن چونکہ یوگی جی نے عام لوگوں کو ہیرو بننے کی خاطر مار دھاڑ کا یہ نسخۂ کیمیا سجھا دیا ہے اس لیے جو چاہتا ہے بے دریغ اس کا استعمال کرتا ہے ۔ قتل کے اطلاع پاتے ہی پولیس موقع واردات پر پہنچی نیز جانچ کے بعد راج اہیروار کو گرفتار کر لیا۔ شرپسندوں نے پولیس اسٹیشن سے تقریباً 200 میٹر کے فاصلے پر واردات کو انجام دینا یہ بتاتا ہے کہ مجرم پیشہ لوگ کتنے بے خوف ہوچکے ہیں۔ روشنی اہیروار کی خون میں لت پت زمین پر پڑی لاش اور مقامی لوگوں کی بھیڑوالی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تو یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگی۔ بہت سارے سوشل میڈیا صارفین نے ریاست میں امن و امان کی صورتحال پر سوال اٹھائے ۔
اس قتل سے علاقے میں کہرام مچ گیااور تفتیش جاری ہے ۔ اب یہ پتہ لگانا اہم ہے کہ انہوں نے یہ کارنامہ انجام دینے کے بعد’جئے شری رام ‘کا نعرہ لگایا یا نہیں؟ فی زمانہ یہ نعرہ سارے جرائم کے لیے سورکشا کووچ (تحفظ کی ڈھال ) بناہواہے ۔ یوگی یگ میں انسان جتنا چاہے سنگین جرم کرلے ایک نعرۂ مستانہ سے اس کے سارے پاپ دھل جاتے ہیں اور پوتر ہوجاتا ہے ۔ بعید نہیں کہ دن دہاڑے کنپٹی پر رکھ کر بندوق چلانے والاراج اہیروار بھی عتیق کے قاتلوں کی مانند یہ کہہ دے کہ اس نے مشہور ہونے کے لیے یہ حرکت کی کیونکہ اس کے بڑے فائدے ہیں اور کوئی نقصان تو سرے سے ہے ہی نہیں ورنہ نروڈا گام کے خود اعترافی مجرم بابو بجرنگی کے ساتھ مایا کوندنانی کو احمد آباد کی اسپیشل کورٹ میں رہائی نصیب نہیں ہوتی اور وہاں بھی اس ناعاقبت اندیش فیصلے کے بعد جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگایا جاتا۔ آج کل ہر ایرا غیر ا نتھو خیرا اپنی بزدلی ثابت کرنے کے لیے یا اپنے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے رام کے شرن میں دبک کر بیٹھ جانا کافی سمجھتا ہے ۔
قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ اسد اور غلام کے انکاونٹر سے شروع ہوا۔سماجوادی پارٹی کے سربراہ اور یوپی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے اسے فرضی بتاتے ہوئے بی جے پی حکومت پرنشانہ سادھا ہے ۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ انکاؤنٹر جھوٹا اور بے بنیاد ہے ۔ بی جے پی عوام کو اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے ۔ایس پی کے سربراہ نے کہا کہ حالیہ انکاؤنٹر کی خاص تفتیش ہونی چاہئے اور مجرموں کو کسی بھی قیمت پر چھوڑا نہ جائے ۔ ایس پی صدر اکھلیش یادو نے ٹویٹ کہا کہ، ”بی جے پی والے عدالت پر یقین نہیں رکھتے ۔ صحیحـغلط کے فیصلے کا حق اقتدار والی پارٹی کو بھی نہیں ہوتا ہے ۔ بی جے پی بھائی چارے کے خلاف ہے” ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی یوپی کی یوگی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اس انکاونٹر پر سوال اٹھائے تھے ۔انہوں نے کہا تھا کہ ، کیا بی جے پی والے جنید اور ناصر کے قاتلوں کو بھی گولی ماریں گے ، ان کا انکاونٹر نہیں کروگے کیونکہ تم (بی جے پی) مذہب کے نام پر انکاونٹر کرتے ہو۔ یہ انکاونٹر نہیں ہے ، قانون کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ اسدالدین اویسی نے یہ الزام بھی لگایا، تم لوگ انکاونٹر نہیں، آئین کا انکاونٹر کرنا چاہتے ہو۔ عدالت کس لئے ہے ، اورآئی پی سی اور سی آرپی سی کس لئے ہے ؟ اگرتم لوگ فیصلہ کروگے کہ گولی سے انصاف کریں گے تو عدالتوں کو بند کردو ۔ ججوں کا کیا کام ؟
ایک طویل عرصہ سے خاموش مایاوتی بھی اسد کے انکاونٹر پر خاموش نہیں رہ سکیں ۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی ٹوئٹ کرکے کہا، پریاگ راج کے عتیق احمد کے بیٹے اور ایک دیگر کا آج پولیس انکاونٹر میں ہوئے قتل پر مختلف طرح کی بحث ہے ۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ وکاس دوبے سانحہ کے دوہرائے جانے کا ان کا خدشہ سچ ثابت ہوا ہے ۔ آخرکار حادثہ کے پورے حقائق اور سچائی عوام کے سامنے آسکے اور اس کے لیے اعلیٰ سطحی جانچ ضروری ہے ”۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار ماورائے قانون قتل و غارتگری پر فخر کرتی ہے ۔ وہ اب تک تقریباً ڈیڑھ سو لوگوں کو اس طرح جعلی انکاونٹر میں ہلاک کرچکی ہے مگر اس سے جرائم میں کمی نہیں آئی اور آج بھی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کئی قسم کے جرائم میں اترپردیش سرِ فہرست ہے کیونکہ مختلف طبقات کے مجرم خود کو بے خوف محسوس کرنے لگے ہیں اور شتر بے مہار کی مانند مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ حکومت نے ان کو کھلی چھوٹ دینے کی خاطر جعلی انکاونٹرس کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔
اتر پردیش میں پولیس نے پہلے عتیق احمد کے بیٹے کا انکاونٹر کیا اور پھر غنڈوں نے انتظامیہ کی موجودگی میں عتیق کو ہلاک کردیا ۔ رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس قتل پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس معاشرے میں قاتل ہیرو ہوں وہاں عدالت اور نظام عدل کا کیا فائدہ؟ عتیق اور اس کا بھائی پولیس کی حراست میں تھے ۔ انہیں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ انکاؤنٹر راج کا جشن منانے والے بھی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بالکل درست بات ہے کیونکہ وہ جشن نہیں منایا جاتا تو روشنی اہیروار موت کے گھاٹ نہیں اتاری جاتی۔ اویسی نے کہا تھا کہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت قانون کے تحت نہیں بلکہ بندوق کے زور پر چل رہی ہے اور اب نہ صرف سرکار بلکہ عوام بھی گولی چلا رہے ہیں۔اویسی نے اس واقعہ کو ‘کولڈ بلڈڈ ‘ قتل سے تشبیہ دی ۔ انہوں نے اس بابت سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک کمیٹی کا مطالبہ کیا جس میں اتر پردیش کا کوئی افسر موجود نہ ہو۔قتل کے بعد چونکہ نعرے لگے اس لیے قاتلوں کو دہشت گرد کے لقب سے نوازو۔اویسی نے وزیر اعظم کو یاد دلایا وہ کہتے ہیں ‘میری سپاری لی گئی ہے ‘۔ اس کے بعد پوچھا اس ریاست میں کیا ہو رہا ہے جہاں سے وہ رکن پارلیمان ہیں۔ وہاں کا ہر شہری خود کو غیر محفوظ اور کمزور محسوس کر رہا ہے ۔عتیق اور اشرف قتل کے بعد اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ اتر پردیش میں جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہیں۔ جب پولیس کے گھیرے میں کھلے عام فائرنگ کر کے کسی کو مارا جا سکتا ہے تو پھر عام لوگوں کی حفاظت کا کیا ہوگا؟ جس کی وجہ سے عوام میں خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر ایسا ماحول بنا رہے ہیں۔روشنی اہیروار کا قتل اس بیان کی تائید کرتا ہے ۔ یوگی جی اگر اپنی عقل سے نہ سہی تو کم ازکم دیگر رہنماوں سے بھی سیکھ لیتے تو نہ اسد اور غلام کا انکاونٹر ہوتا اور نہ عتیق و اشرف کا قتل ہوتا نیز روشنی اہیروار بھی اس انجام سے دوچار نہ ہوتی۔عتیق اوراشرف کے قتل پرخوش ہونے یا خاموش رہنے والوں کو نواز دیوبندی کا یہ قطعہ یادرکھنا چاہیے
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ تم بھی چپ ہو اگلا نمبر آپ کا ہے
٭٭٭