... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم مئی کو مزدور کے عالمی یوم کے طور منانا ایک الگ بات ہے اور اِس دن کی مناسبت سے مزدور کو اس کے جائز حقوق دینے کے لیے عملی اقدامات کرنا بالکل ہی دوسری بات ہے۔ اگر تو ہم یومِ مزدور صرف ایک دن کی چھٹی کے لیے منارہے ہیں تو پھر یہ عالمی یوم اُس محنت کش کی سراسر توہین کے مترادف ہے ،جس کے نام پر عالمی یومِ مزدور منایا جارہاہے ۔کیونکہ بیچارے مزدور کو تو اِس دن ہونے والی عام تعطیل کا بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتااور محنت کش کا یہ دن بھی سال کے دیگر 364 ایّام کی طرح محنت و مشقت کی نذر ہوجاتاہے ۔یاد رہے کہ ماضی کی روایت کے مطابق امسال بھی عالمی یوم مزدور پر وفاقی حکومت ، وفاق میں اور ہر صوبائی حکومت اپنے اپنے صوبوں کے سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے محنت کش طبقہ کے لیے بلند و بانگ دعوے، اعلانات اور وعدے کریں گی ۔مثال کے طورپر مزدور کی کم سے کم اُجرت میں معمولی اضافہ کی نوید سنائی جائے گی اور ہر سرکاری و نجی ملازم کی ملازمت کے تحفظ کا آئینی حق تسلیم کیا جائے گا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جس وقت مذکورہ اعلانات کو سن کر اِدھر اُدھر سے پکڑ کر لائے گئے حاضرین محفل تالیاں بجاتے ہوئے مزدور زندہ باد کے نعرے لگارہے ہوں گے ۔عین اُسی وقت وفاقی نظامت تعلیمات کے ایک ڈیلی ویجز ملازم اسد محمود کے گھر میںمجبور و لاچار مزدور کی موت کا سوگ منایا جارہاہوگا۔
کیونکہ محنت کشوں کے عالمی یوم سے ٹھیک 7 دن قبل 24 اپریل 2023 کو اسد محمود کا انتقال ہوگیا تھا۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ اسد محمود گزشتہ 18 برس سے وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت ,IMCG Gـ10/2 اور IMCB Fـ10/3 میں ڈیلی ویجز پہ الیکٹریشن/ پلمبر کی خدمات اِس اُمید پر انجام دے رہا تھا کہ ایک دن اُسے وفاقی حکومت کی جانب سے مستقل کر کے وہ تمام حقوق فراہم کردیے جائیں گے ،جن کا وعدہ آئین پاکستان میں ایک سرکاری ملازم کے ساتھ کیا گیاہے۔ مگر افسوس صد افسوس اپنی سروس کی مستقلی کا انتظار کرتے کرتے دورانِ سروس ہی اسد محمود، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور اتنے طویل عرصہ تک پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے باوجود وفاقی نظامت تعلیمات کے پاس نہ تو مرحوم کی زندگی میں اُسے دینے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی مرحوم کے پسماندگان کی دل جوئی کرنے کے لیے اَب کچھ ہے ۔ اسد محمود کی موت کے بعد اُس کی بیوہ اور اُس کے چھ بچے مکمل طور پر تہی دست اور بے آسرا ہو چکے ہیں ۔
واضح رہے کہ اسد محمود نے 2005 میں وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت ادارے میں ملازمت کا آغاز کیا تھا اور 2013 میںوفاقی کیبنٹ کمیٹی نے سینکڑوں اساتذہ کے مطالبہ پر ڈیلی ویجز کی مستقلی کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا تھا اور بعدازاں تمام ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ بھی کلیئر ہو گئے تھے ۔لیکن پھر نہ جانے کیا ہو اکہ آج دس سال کی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت ادارے میں کسی بھی ملازم کو جن میں اکثریت اساتذہ کی ہے کو نہ تو پوسٹنگ دی گئی اور نہ ہی اُنہیں مستقل کیا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد محمود اور اِس جیسے ہزاروں اساتذہ کی ملازمت کی مستقلی کی راہ میں بظاہر کوئی انتظامی یا قانونی رکاوٹ نہیں تھی ۔حد تو یہ ہے انہیں مستقل کرنے کے لیئے ایف پی ایس سی کی منظوری بھی درکار نہیں تھی۔ لیکن وفاقی نظامت تعلیمات کی بیجا ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وفاقی نظامت ِ تعلیمات کے ماتحت ادارے میں ڈیلی ویجز پر ہی کام کرنے والے ملازمین اپنی زندگی کے18 سے 20 قیمتی سال وفاقی تعلیمی اداروں میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے باوجود ڈیلی ویجز ملازمین کے طور کام کررہے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ہے ۔چونکہ یہ تمام ڈیلی ویجز ملازم ہیں ،لہٰذا، ان کی دورانِ ملازمت وفات ہوجانے کی صورت میں ان کے پسماندگان لواحقین اور ان کے معصوم بچوں کو پنشن، گریجویٹی وغیرہ کی مد میں ایک دھیلے کی بھی امداد نہیں میسر آتی۔
طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں ملازمت کرنے والے اساتذہ و دیگر عملے کو آٹھ آٹھ مہینے تنخواہیں بھی نہیں دی جاتیں ۔یوں یہ ملازمین طبعی موت مرنے سے پہلے بھی سال میں کم ازکم ایک بار موت کا تلخ ذائقہ ضرور چکھتے ہیں۔ یعنی جس وفاقی حکومت کا وزیراعظم اور اُس کی کابینہ ہربرس یکم مئی کو ملک بھر کے نجی اداروں کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو حکومت کی مقررکردہ کم سے کم اُجرت کی ہر ماہ باقاعدگی سے ادائیگی کرے ۔ اُسی وفاقی حکومت کے بالکل ناک کے نیچے وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے ہزاروں محنت کش کئی کئی مہینوں تک اپنی تنخواہوں کے لیے ترستے رہتے ہیں ۔ یہ وفاقی نظامت تعلیمات کی جانب سے بے حسی کی انتہا اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ایک وفاقی ادارے کا ماتحت ہزاروں ملازمین اتنے لمبے عرصہ تک پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے باوجود بھی اپنے تمام بنیادی حقوق سے محروم رہیں۔جب وفاق کے ماتحت وفاقی نظامت تعلیمات کے ادرووں میں کام کرنے والے ملازمین کی ناقدری و کسمپرسی کا یہ عالم ہے تو اَب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں محنت کش طبقے کا کس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ استحصال کیا جا رہا ہوگا ۔
وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت ادروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اساتذہ اور دیگر عملہ کئی برسوں سے نہ صرف سراپا احتجاج ہے بلکہ عدالت عالیہ میں اپنے حقوق کے لیے قانونی جنگ بھی لڑرہا ہے ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایجوکیشن ریفارمز پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر ایک ڈیلی ویجزخاتون ٹیچر کی شکایت پر سابق وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری کو ہدایت کی تھی کہ ملازمین کی مستقلی کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ لیکن وزارت کیڈ کے چند افسران نے سابق وزیرمملکت برائے کیڈکی واضح ہدایت کے باجود بھی اعلیٰ حکام کو اندھیرے میں رکھ کر ایسی سمری تیار کی ۔ جس میں تمام ملازمین کو مستقل کرنے سے متعلق 2011کی پالیسی کو یکسر نظرانداز کردیا گیا تھا۔ تاہم مسلسل پانچ سے سات سال گزرنے پر ڈیلی ویجزاساتذہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں موقف اختیار کیا کہ اسی 2011کی پالیسی کے تحت گزشتہ دورحکومت میں ایک لاکھ سے زائد ملازمین کو مستقل کیا گیا جس کو سپریم کورٹ آف پاکستان بھی توثیق کر چکی ہے،اسی2011کی پالیسی کی روشنی میں موجودہ دورحکومت نے بھی دس ہزار سے زائد ملازمین کو مستقل کیا گیا تھا۔جبکہ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اپنے ایک مقدمہ میں ڈیلی ویجزخاتون ٹیچر (صفیہ بانو کیس) کو 2011کی پالیسی کے تحت مستقل کرنے کا حکم سناچکی ہے۔ علاوہ ازیں سلام آباد ہائیکورٹ کے متعدد ایسے فیصلے موجود ہیں جن میں ملازمین کو فوری مستقل کرنے کا حکم دیا جاچکا ہے۔مگر اس کے باوجود ہر وفاقی حکومت ،وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اساتذہ اور دیگر عملے کو مستقل کرنے میں غیر ضروری انتظامی تساہل اور سنگین مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتی آئی ہے۔ کیا ہم اُمید رکھ سکتے ہیں وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی عوام دوست حکومت ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اساتذہ اور دیگر عملے کو فی الفور مستقل کرکے اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا ادھوراکام مکمل کرے گی؟
٭٭٭٭٭٭٭