... loading ...
ریاض احمدچودھری
اسلامو فوبیا ایک ذہنی اختراع ہے، نفسیاتی بیماری ہے، مسلمانوں سے نفرت کرنے، تعصب برتنے کا نام ہے۔ اسلامو فوبیا مغرب میں جس طرح پھیلتا دکھائی دے رہا ہے، اس پر پوری سنجیدگی ، تندہی اور وسیع تر انداز میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ز ہر پھیلتا رہا توسب سے زیادہ مغربی معاشروں کے لئے خطرہ پیدا کردے گا۔ دور حاضر میں اسلامو فوبیا کے نام سے جو شر پھیلایا جا رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب سے اللہ کا دین آیا ہے بہت سی قوتیں جنہیں اللہ کا دین قبول نہیں انہوں نے ہر صورت دین حق سے دشمنی کرنی ہے۔ یہ اسلامو فوبیا ہے۔ موجودہ دور میں اسلام کے خلاف اسلامو فوبیا کے نام پر یہود و نصاریٰ کی سازشیں جاری ہیں ۔ قرآن پاک میں واضح طور پر اللہ نے فرمایا کہ اے محمدۖ یہ (مشرکین) چاہتے ہیں کہ آپۖ اپنا مؤقف کسی حد تک چھوڑ دیں تو یہ بھی آپ ۖکے ساتھ نرم رویہ رکھیں گے۔ مشرکین مکہ نے آپۖ سے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے عزیز ہیں، ہم ایک ہی شہر کے رہنے والے ہیں۔ کیوں ہم آپس میں لڑیں۔ ہم ایک مشترکہ لائحہ عمل تجویز کر لیں جس سے ہم دونوں کا فائدہ ہو جائے۔ تو انہوں نے کہا کہ محمدۖ ایک دن ہم آپ ۖ کے خدا کی پوجا کریں گے اور ایک دن آپۖ ہمارے بتوں کی پوجا کر لیا کریں۔جس پر یہ وحی اتاری گئی۔
اسلام کے دشمنوں کی یہ حکمت عملی آج تک کام کر رہی ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں بہت سے غیر مسلموں نے یہ کہا کہ قرآن بہت اچھی کتاب ہے۔ اس میں زندگی گزارنے کے بہت احسن طریقے ہیں بس ہماری ایک شکایت ہے کہ اس میں سے جہاد کی آیات نکال دی جائیں۔ پھر قرآن ہمیں بھی قابل قبول ہے۔ اس پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
1990 کی دہائی کے شروع میں جب روس ٹوٹا تو مغرب کو اپنی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک نیادشمن درکار تھا۔ اپنے لوگوں کو متحد رکھنے کیلئے ۔ اس میں یہودیوں نے بڑا بنیادی کردار اد ا کیا۔ انہوں نے یورپ کو یقین دلایا کہ آئندہ جمہوریت کا دشمن اسلام ہے۔ 1992 اکتوبر میں نیویارکر میں ایک ٹائٹل اسٹوری چھپی یہودی برناڈ لیوس کی۔جو بہت بڑا یہودی ا سکالر ۔ اس نے آرٹیکل میں لکھا کہ محمد ۖ کے پوری زندگی میں دو ہی رول تھے۔ ایک مکی اور ایک مدنی، مکی زندگی میں اس نے آپۖ کومکہ کی اس وقت کی حکومت کے باغی تھے ۔ نہ تو انہوں نے اہل مکہ کا مذہب اپنایا۔ نہ ان کی طرح بود و باش اختیار کی۔نہ ان کی ثقافت و مشاغل اختیار کیے۔ دوسرا رول مدینہ کا تھا جہاں وہ حاکم اعلیٰ تھے۔ سپہ سالار بھی تھے۔ ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ چیف جسٹس بھی تھے۔ اس کے آرٹیکل کے بعد بہت سے غیر مسلموں نے اسلام مخالف کتابیں تحریر کیں۔پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ مغرب میں ہا ہا کار مچ گئی کہ کہیں 58 مسلم ریاستیں آپس میں نہ مل جائیں ۔ اس لئے اسلامی ریاستوں پر اپنے پروردہ حکمران تعینات کئے گئے اور ان سے اپنے مطلب کے کام نکلوائے گئے۔
معروف اسکالر پروفیسر نوم چومسکی نے کہا ہے کہ بھارت میں اسلامو فوبیا انتہائی مہلک اور خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے جہاں 25کروڑ بھارتی مسلمانوں کو مظلوم اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نوم چومسکی نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جرائم میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔چینی اسکالرنے کہا ہے کہ عالمی برادری کو بھارت میں اسلامو فوبیا کے رجحان میں تشویش ناک حد تک اضافے کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارتی حکام کو اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے ہندو انتہا پسندوں نے حال ہی میں بھارت کی ریاست راجستھان کے علاقہ کرولی میں مسلمانوں کے 40 سے زائد مکانات جلائے اور توڑ پھوڑ کی، ایسا واقعہ نریندر مودی کی حکومت کی اجازت اور مقامی سیکورٹی حکام کی رضامندی کے بغیر رونما نہیں ہو سکتا تھا۔ حالیہ برسوں میں ایسے تکلیف دہ واقعات پیش آئے ہیں جو نہ صرف نریندر مودی حکومت کی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف گہری دشمنی کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ موجودہ حکومت کا ہندوتوا ایجنڈا بھی پوری طرح بے نقاب ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنی فسطائی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حکمت عملی اپنائی ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بے رحمی سے دبایا ہے۔
ایسے حالات میں بھارت میں تمام اقلیتیں خوف اور دہشت میں زندگی بسر کر رہی ہیں لیکن اقلیتوں کے نوجوان گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں جس سے جہاں پورا ملک انتشار کا شکار ہے وہیں سماجی اور اقتصادی ترقی سمیت اقلیتیں اور ہندوؤں کی اکثریت بھی شدید متاثر ہوتی ہے اس لیے بھارت میں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کا سماجی تقسیم پیدا کرکے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کا عمل انسانی زندگی کے خلاف سنگین جرم ہے۔
٭٭٭