... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد علی جناح دونوں ہی 20ویں صدی میں ہندوستانی سیاست کے دو اہم رہنما تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد پاکستان کے قیام کے شدید ترین مخالف تھے جبکہ دوسری جانب محمد علی جناح تھے جن کی سیاست پاکستان کے قیام کی کوششوں کے گرد گھومتی تھی۔محمد علی جناح آزاد سے عمر میں 12 برس بڑے تھے تاہم دونوں کی سیاسی زندگی کا آغاز کم و بیش ایک ہی زمانے میں ہوا۔جناح کا رہن سہن مکمل طور پر مغربی تھا، ہندوستان کی تقسیم سے قبل وہ ایک لبرل اور سیکولر قومیت کے علمبردار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سروجنی نائیڈو نے انھیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا تھا، حتیٰ کہ 1920 میں انھوں نے کانگریس سے اپنا دیرینہ رشتہ اس بات پر قطع کر لیا تھا کہ وہ سیاست میں مذہبی عناصر کو استعمال کر رہی تھی۔
آزاد 1888 میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے، عربی ان کی مادری زبان تھی۔ ان کے والد مولانا خیر الدین مذہبی عالم تھے، یوں مذہبی تعلیم ابوالکلام کو وراثت میں ملی۔بارہ، چودہ برس کی عمر میں ان کی تحریریں اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونا شروع ہو گئیں اور 25 سال کی عمر میں 1912 میں وہ ایک سیاسی رسالے ‘الہلال’ کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔ 1920 کے لگ بھگ وہ عملی سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور 33 سال کی عمر میں تحریک خلافت، تحریک ترک موالات اور عدم تعاون کے روح رواں بن گئے۔ 1923 میں جب ان کی عمر 35 برس تھی وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب کر لیے گئے تھے۔ 1940 میں وہ ایک مرتبہ پھر انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اور 1946 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تاہم اس دوران بھی وہ علمی کاموں سے غافل نہیں رہے اور مسلسل کتابیں تحریر کرتے رہے۔
وقت کے ساتھ جناح اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہے۔ اس بات کا نظارہ وہ 1937 میں کر چکے تھے جب ہندوستان بھر میں صوبائی حکومتیں قائم ہوئی تھیں اور ان میں سے چھ حکومتوں کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کانگریس اس موقع سے فائدہ اٹھاتی، مسلمانوں کی دل جوئی کرتی اور ہر صوبے میں انھیں اپنے ساتھ لے کر چلتی مگر ہوا یوں کہ جہاں جہاں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں اس نے ایسا نہیں کیا۔کانگریس کی اس سیاسی عاقبت نااندیشی کے بعد مسلمان آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔ یہی وقت تھا کہ جب دوسری عالمی جنگ کے بعد کانگریس نے وزارتوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ نے اس فیصلے پر ‘یوم نجات’ منایا اور صرف تین ماہ بعد پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کر لی۔کم و بیش اسی زمانے میں ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تو جناح نے انھیں کانگریس کے ‘شو بوائے’ کا خطاب دیا۔
1946میں عام انتخابات کے نتیجے میں پنجاب سے مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کی اور وہ اپنی حکومت بنانا چاہتی تھی مگر ابوالکلام آزادجہاز پر لاہور آئے اور سازش کر کے کانگرس اور یونینسٹوں کے درمیان اتحاد کا اعلان بڑے فاتحانہ انداز میں کیا۔ اس وزارت کا جو پندرہ کانگرسی ارکان 22 اکالی سکھوں اور دس یونینسٹوں سے مل کر بنی تھی سربراہ مخلوط وزارت سب سے چھوٹے جزو ترکیبی کے قائد سر خضر حیات خان ٹوانہ کو بنا دیا گیا جن کی جماعت کا انتخابات میں صفایا کرکے اسے آخری کنارے تک پہنچا دیا گیا تھا۔
1946 کے اواخر میں ہندوستان میں عبوری حکومت قائم ہوئی جس میں انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے نمائندے شامل تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے اس حکومت میں آزاد کو وزارت تعلیم کا قلم دان دیا۔ یہ ابوالکلام آزاد تھے جو آخری وقت تک اس تقسیم کی مخالفت کرتے رہے۔ 15 اگست 1947 کو ہندوستان تقسیم ہو گیا اور پاکستان کا وجود عمل میں آگیا۔ ہندوستان کی نئی کابینہ میں بھی ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم کی حیثیت سے شامل تھے۔ 22 فروری 1958 کو مولانا آزاد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی تہلکہ خیز کتاب ‘انڈیا ونز فریڈم’ شائع ہوئی۔مولانا آزاد نے اس کتاب میں لکھا ‘دس سال بعد میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو تسلیم کرتا ہوں کہ مسٹر جناح نے جو کچھ کہا، اس میں زور تھا، کانگریس اور لیگ دونوں اس سمجھوتے (کابینہ مشن منصوبہ) میں فریق تھیں اور ایسا مرکز، صوبوں اور گروپوں میں تقسیم کی بنیاد پر ہی ہوا تھا کہ لیگ نے منصوبے کو منظور کیا تھا۔”کانگریس نے شک کا اظہار کر کے دانش مندی کا ثبوت دیا اور نہ ہی وہ حق بجانب تھی۔ اگر وہ ہندوستان کے اتحاد کی حامی تھی تو اسے غیر مبہم انداز میں منصوبے کو منظور کر لینا چاہیے تھا۔ پس و پیش نے ہی مسٹر جناح کو ہندوستان کی تقسیم کا موقع فراہم کیا۔’اسی کتاب کے آخر میں مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ ‘پاکستان کی نئی حکومت ایک حقیقت ہے، ہندوستان اور پاکستان دونوں کے مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ باہم دوستانہ تعلقات پیدا کریں اور تعاون پر عمل پیرا ہوں۔ اس کے سوا کوئی دوسری راہ عمل اختیار کی جائے گی تو تکالیف، مشکلات اور بدنصیبی میں اضافہ ہو گا۔’
٭٭٭