وجود

... loading ...

وجود

ٹائم نے کیا ،کیا حسیں ستم

جمعه 28 اپریل 2023 ٹائم نے کیا ،کیا حسیں ستم

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ستارے فی الحال گردش میں ہیں ۔معروف عالمی جریدے ٹائم نے لگا تاردوسری مرتبہ ان کے اثرات کو نظر انداز کردیا ہے ۔ ویسے پچھلے دس سالوں میں پانچ مرتبہ مودی جی کوٹائم کے بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ یعنی کرکٹ کی زبان مودی جی کا اسٹرائیک ریٹ پچاس فیصد ہے ۔ وطن عزیز میں کرکٹ کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے ۔ انڈین کرکٹ لیگ کا مخفف آئی سی ایل ہونا چاہیے تھا لیکن غلطی سے اسے آئی پی ایل یعنی انڈین پریمیرلیگ کے نام سے پکارا جاتا ہے حالانکہ آئی پی ایل کو تو انڈین پولیٹیکل لیگ کا مخفف ہونا چاہیے ۔ ویسے آئی پی ایل کی چالبازیاں تو اصلی سیاست سے بھی بدترہیں ۔ مثلاً وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘گجرات کا قصائی ‘ کہنے والے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو تو جی 20 ممالک کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہندوستا ن آنے کی دعوت دی گئی لیکن عالمی سطح پر پہلے نمبر کے بلے بازبابر اعظم اور ان کے پاکستانی ساتھیوں کو آئی پی ایل میں شریک نہیں ہونے دیا جاتا۔ ویسے جس ادارے کا سربراہ امیت شاہ کا بیٹا جئے شاہ ہو اس سے اور کیا توقع کی جائے ؟
انڈین پولیٹیکل لیگ کے زیر اہتمام سیاسی ٹورنامنٹ کا فائنل میچ تو خیر آئندہ سال ہوگا لیکن اس کے سیزن کا آغاز ہوچکا ہے ۔ پچھلے دنوں شمال مشرق کے ننھے منے صوبوں میں کچھ وارم اپ میچ ہوئے جس میں کھلاڑیوں نے اپنے اپنے ہاتھ پیر سیدھے کیے ۔ اس سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ سرزمین ِ کرناٹک میں ہونے جارہا ہے ۔ ویسے تو یہ بی جے پی کا ہوم گروانڈ ہے اس لیے اسے بے ایمانی کے بے شمار مواقع ہیں لیکن سیاسی افق پر مایوسی و بدعنوانی کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کالے دھن کی کھاد سفید کمل کو کھلانے میں کامیاب ہو سکے گی یا کانگریس کا ہاتھ چل جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ کرکٹ کی مانند سیاست کے میدان میں بھی آخری گیند تک کچھ بھی کہنا مشکل ہے ۔ کرکٹ فی زمانہ عوام کی تفریح کا بہت بڑا سامان بنا ہوا ہے، اسی لیے آئی پی ایل کھیل کے دوران کروڈوں کی اشتہار بازی ہوتی اور کھلاڑیوں کی قیمت بھی کروڈوں میں لگائی جاتی ہے لیکن ارکان اسمبلی کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ مہاراشٹر کے ہر باغی رکن اسمبلی کو چالیس کروڈ روپیہ ملنے کی خبر ہے ۔ انتخاب کی تشہیر میں خرچ ہونے والی رقم کے سامنے آئی پی ایل کا میچ ہیچ ہے ۔ خیرکرکٹ کے اس جملۂ معترضہ سے ٹائم میگزین کی جانب لوٹتے ہیں۔
ٹائم میگزین کے بااثر ترین شخصیا ت کی فہرست میں شامل ہونے کا لازمی مطلب تعریف و توصیف نہیں ہے کیونکہ یہ جریدہ مثبت اثرات ڈالنے والوں کے ساتھ ساتھ منفی انداز میں متاثر کرنے والوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا ۔ مودی کو پانچ شمولیت میں سے صرف ایک بار سراہا گیا تھا۔2014میں پہلی بار حلف برداری سے قبل انہیں بااثر لوگوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے فرید زکریا نے لکھا تھا گوکہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے روشن امکانات ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے قوت فیصلہ کی تعریف کرکے عوام کی بڑی توقعات کا ذکر کرنے کے بعد گجرات فساد کی یاد دلا کر کہا گیا تھا ایک پھوٹ ڈالنے والا سیاستداں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں قیادت کرنے کے لیے پرتول رہا ہے ۔ تعریف و تنقید کے اس حسین امتزاج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ میچ برابری پر چھوٹا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے اس وقت وزیر اعظم کے اصلی چہرے پر’اچھے دن ‘کی دبیز نقاب پڑی ہوئی تھی ۔ فرید زکریا سمیت اچھے اچھے ان کے دامِ فریب میں گرفتار ہوگئے تھے ۔
2015میں بھی ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘کا غلغلہ جاری تھا۔ اس لیے سرکار سازی کے فوراً بعد مودی جی پھر سے بااثر شخصیت کی فہرست میں نظر آئے ۔ امریکی صدر براک اوبامہ سے ا ن کاتعارف لکھوایا گیا ۔ انہوں نے مودی جی کے غربت بھرے ماضی کا حوالہ دے کر لکھا کہ وہ مفلس عوام اور خواتین کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ توقع بھی جتائی گئی کہ وہ ملک کو آگے لے جائیں گے ۔2016 خالی گیا مگر 2017کے بعد جب مودی جی بے نقاب ہوگئے تو ٹائم نے انہیں پھر سے شامل کرکے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پچھلے تین سالوں میں معاشی ، تہذیبی یا عالمی سفارتکاری کے میدان میں وہ کچھ نہیں کرپائے ۔ ان کی حامی تنظیموں نے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر بہت حملے کیے ۔ اترپردیش کا انتخاب جیتنے کے لیے یہ حکمت عملی بی جے پی کی ضرورت تھی ۔ اس کے بعد دو سال مودی جی غائب رہے مگر 2020 میں پھر سے وہ اس فہرست کی زینت بنے ۔ اس وقت کشمیر کی دفع 370ختم کی جاچکی تھی اور ملک بھر میں سی اے اے این آر سی کے خلاف زبردست تحریک چل رہی تھی اس لیے ان پر ملک کو بانٹنے کا الزام لگا کر تنقید کی گئی۔
2021 میں مودی جی کو پھر سے بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کرکے کورونا کی بابت ناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کے ساتھ یہ لکھا گیا کہ لوگ تو یہ توقع کررہے تھے مودی جی ملک کو سوشلزم سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب لے کر جائیں گے مگر وہ تو الٹا سیکولرازم سے فرقہ پرستی کی جانب لے گئے ۔ اس طرح گویا لگاتار تین مرتبہ ان کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ کرکٹ کی زبان میں کہا جائے تو پانچ مقابلوں میں سے ایک میچ برابری پر چھوٹا۔ایک میں وہ جیتے مگر تین بار ان کو ٹائم شیلڈ میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ اس لیے بعید نہیں کہ مودی جی نے اپنے نام کی عدم موجودگی پر اطمینان کا سانس لیا ہو کیونکہ اپنے کالے کرتوت سے سب سے زیادہ واقفیت خود اپنی ذات کو ہوتی ہے ۔ جہاں تک بھگتوں کا سوال ہے اقتدار کے نشے میں مست مداحوں کو ساون میں صرف ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے ۔ وہ لوگ اس بات کو ہضم نہیں کر پارہے ہیں کہ ان کے مقبول ترین رہنما کو اس نامعقول جریدے نے کیسے نظر انداز کردیا؟ یعنی شامل کیا جائے تو اسے بدنام کرنے کی سازش کہا جائے اورنہ کیا جائے تو افسوس کیا جائے گا۔
ٹائم میگزین کی اس تازہ فہرست سے بیچارے مودی بھگتوں کو دوسرا جھٹکا اداکارشاہ رخ خان کی سب سے زیادہ بااثرافراد میں جگہ پانے سے لگا حالانکہ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ نہ تو وہ لوگ بے شرم رنگ کی مخالفت کرتے اور نہ پٹھان سپر ہٹ ہوتی ۔ ٹائم 2023 کے پول میں شاہ رخ خان کو 1.2 ملین ووٹ ملے ۔ یہ ریڈرز پول میں سب سے زیادہ ووٹ کی تعداد ہے ۔ قارئین کی اس غیر معمولی پزیرائی کے سبب وہ سرفہرست رہے ۔ اس پر برہم ہوکر امیت شاہ نے نہ جانے کتنے مفت خوروں کو اپنی ٹرول آرمی سے نکال باہر کیا گیا ہوگا؟
اس لیے کہ دنیا کی امیر ترین سیاسی پارٹی کی وسیع ترین میڈیا فوج اگر ایک اداکار سے زیادہ ووٹ اپنے وزیر اعظم کو دے کر کامیاب نہیں کر سکتی تو اس کا فائدہ ہی کیا ہے ؟ شاہ جی کو سمجھنا چاہیے کہ روپیہ کے ساتھ جذبۂ عمل بھی کام کرتا ہے ۔ فی الحال دھن دولت میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہوئی لیکن جوش اور ولولہ کم ہوگیا ہے ۔ اس جذبے کا فقدان اگر خود وزیر اعظم میں ہوجائے تو بیچاری ٹرول آرمی میں یہ کیونکر بڑھ سکتا ہے ؟
ملک بھر میں محض جی 20کی ہورڈنگ پر’بڑی ذمہ داری ، بڑے عزائم ‘لکھ کر ساتھ میں ہنستا ہوا نورانی چہرہ بنادینے سے بات نہیں بنتی ۔ ٹائم میگزین والے ان سے متاثر نہیں ہوتے ۔ کاش کہ گوتم اڈانی نے این ڈی ٹی وی کی مانند ٹائم کو بھی خرید لیا ہوتا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن تھا تو اسے پتہ ہونا چاہیے کہ نومبر 2017ء میں اس امریکی جریدے کے ناشر نے ایک امریکی اشاعتی ادارے میریڈتھ کارپوریشن کو 2 ارب 80 کروڑ ڈالر میں ٹائم میگزین بیچ دیا تھا ۔ ویسے اس وقت گوتم اڈانی کے پاس اس قدر رقم نہیں تھی لیکن اگر مودی جی کہیں سے اس انتظام فرما دیتے تو اس کے رہنماوں کی فہرست میں ایک سے لے کر ٩ تک مودی جی کانام اور دسویں پر امیت شاہ ، یوگی ادیتیہ ناتھ یا اڈانی براجمان ہوتے بشرطیکہ ٹائم جریدہ گودی میڈیا کی مانند اپنے ضمیر کا بھی سودا کردیتا۔ 1923ء کے بعد یہ سانحہ پہلی بار رونما ہوگیا ہوتا اور ایک صدی کے بعد اس کے سولہ لاکھ قارئین اپنا سر پیٹ لیتے ۔ ٹائم جریدے والوں نے اپنے قارئین کو رسوا ہونے سے تو بچا لیا مگر وزیر اعظم نریندر مودی کو غمگین کردیا ۔ انہیں جب گزرے زمانے میں ٹائم میگزین کے اندر اپنے لیے لکھے جانے والے توصیفی کلمات یاد آتے ہوں گے تو یہ شعر بھی ان کی زبان پر آجاتا ہوگا
جب آ جاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر
تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر