... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید سے ایک روز قبل میں اپنے ا سٹڈی روم میں لکھنے میں مصروف تھا کہ گھر والوں کو اطلاع ملی کہ ایک آوارہ کتے نے میرے ماموں ڈاکٹرامداد حسین صاحب پر حملہ کرکے انھیں زخمی کردیا ہے۔یہ خبر سن کر والدہ محترمہ اور گھر کے دیگر افراد شدید پریشان ہوگئے،مزیدپتہ چلا کہ ماموں جان گھر کے کسی کام کے لئے نکلے تھے کہ اچانک کہیں سے ایک آوارہ کتا بھاگتا ہوا آیا اور ان پر حملہ کردیا ۔ ماموں جان نے خود کو کتے سے بچانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور کتے نے ان کو ٹانگ پر کاٹ کر زخمی کردیااتنے میں کچھ راہگیر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے اورکتے کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔کتا بھونکتا ہوا وہاں سے تو بھاگ گیا لیکن اس کا اگلا شکار کون بنا یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔بہرحال ماموں جان کو ریسکیو1122کی مدد سے میو ہسپتال کی ایمرجنسی میںلے جایا گیا جہاںڈیوٹی پر ڈاکٹرنے ان کے زخم کا معائنہ کرکے ریبیزسے بچاو کا انجکشن لگادیا اورزخم پر دوائی لگا کر انجکشن کی اگلی ڈوز ”ڈاگ بائٹ سنٹر” جیل روڈ سے لگوانے کی ہدایت کرکے ڈسچارج کردیا۔اللہ کا شکر تھا کہ ہسپتال میں حفاظتی ٹیکہ دستیاب تھا اور ماموں جان کو بروقت لگ گیا نہیں تو اکثر اخبارات میں یہی پڑھنے کو ملتا تھا کہ ریبیز کا ٹیکہ دستیاب نہیں ہے۔اس وقت دل میں یہ خیال بھی آرہا تھا کہ نہ جانے مزید کتنے افراد اس پاگل آوارہ کتے کا شکار بن چکے ہوں گے ؟اسی دکھی دل کے ساتھ قلم اٹھائی اورکالم لکھنا شروع کردیا۔
قارئین کو یاد ہوگا سن2020میںبھی ایسے ہی لاہور کے علاقہ کوٹ لکھپت میں ایک ہی کتے نے شہریوں پر حملے کرکے 23افراد کو کاٹ لیاتھا جس کی وجہ سے علاقہ میں خوف وہراس پھیل گیاتھا پھر بعد میںلوگوں نے اس کتے کو پکڑ کر ماردیاتھا۔ایک بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر سال پاکستان میں دس لاکھ سے زائد افراد کو کتے کاٹ لیتے ہیں جس کی وجہ سے تقریبا 6ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اگر بروقت ویکسین نہ لگے توکتے کے کاٹنے کی وجہ سے انسان ایک خطرناک اور لاعلاج بیماری باولا پن(Rabies) کا شکار ہوجاتا ہے۔لفظ ریبیز (Rabies) لاطینی زبان Reberسے نکلا ہے جس کا مطلب ہے غصہ آنایا طیش میں آنا۔تاریخی کتابوں کے مطابق ریبیزبیماری کا ذکر چار ہزار سال قبل کے ادوار میں بھی ملتا ہے جس کی وجہ سے اسے قدیم بیماری کہا جاتاہے۔عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیاء میں سالانہ 31ہزار افراد کتے کے کاٹنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں چالیس کروڑ سے زائد کتے موجود ہیںجن کی 400نسلیں ہیں۔کتے کو انسان کا سب سے زیادہ وفادارجانور سمجھا جاتا ہے ۔ انسان اور کتے کا تعلق کتنا پرانا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم جرنل آف سائنس میںکتوں کے ڈی این اے کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برفانی دور کے آخر تک انسان نے کتے کواپنا پالتو جانور بنالیا تھا۔ کتا انسانوں کے لیے جتنا وفادار ہوتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتاہے کیونکہ اس کی نسل بھیڑیوں سے جاملتی ہے۔قیمتی انسانی جانوں کو پاگل آوارہ کتوں کے رحم وکرم پر چھوڑناکسی طور پر بھی درست اقدام نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کتوں کی ویکسین کی جائے ،ان کی افزائش روکنے کے انجکشن لگائے جائیں اورانھیں انسانی آبادیوں سے دور قدرتی ماحول میں رکھا جائے اورتمام سرکاری ہسپتالوں میں کتوں کے کاٹنے کے علاج معالجہ کی جدید ادویات و سہولتیں مفت فراہم کی جائیں ۔ مغربی ممالک میں جس طرح پالتو کتے کا لائسنس، ویکسین کا سرٹیفیکیٹ لینااورکتے کے منہ پر حفاظتی ماسک پہنا کر رکھنالازمی ہوتاہے۔ اسی طرز پر پاکستان میں بھی قوانین بنائے جائیںاوران کی خلاف ورزی پر جرمانے اور سزائیں بھی رکھی جائیں تاکہ شہری،خواتین،بزرگ خصوصا بچوں کو آوارہ کتوں کے حملوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔
٭٭٭