... loading ...
!
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب کی مفاہمتی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔ تقریباً تمام جماعتیں سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ امید ہے کہ سیاسی قوتیں ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں گی۔ تاہم اس میں وقت لگے گا۔ ایسے انتخابات چاہتے ہیں جن کے نتائج سب تسلیم کریں۔امیر جماعت کا کہنا ہے کہ صرف پنجاب میں الیکشن سے خانہ جنگی اور احتجاج ہوگا۔ سیاسی لڑائی سے معاشی بحران خطرناک صورت حال اختیار کر چکا جس میں غریب سینڈوچ بن گیا ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر کسی سے سوال ہوتا ہے کہ آپ ایوان کی طرف ہیں یا عدالت کی طرف۔ سیاسی افراتفری ہی آئینی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ ادارے اور ججز تقسیم، سیاست دان بجنگ ہیں۔ چند سیاسی جماعتوں نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں اور سپریم کورٹ کی کارروائی سے یہ تاثر بھی سامنے آیا کہ اعلیٰ عدلیہ کی بھی خواہش ہے کہ سیاست دان مسئلے کا حل نکالیں۔جماعت اسلامی نے متعدد سیاسی جماعتوں سے رابطے اور ابتدائی مشاورت کی ہے۔ اب عید گزر چکی ہے لہذاضروری ہے کہ ان رابطوں میں تیزی لائی جائے۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے بیان کا تعلق ہے تو وہ ان کا حق ہے، وہ ایک سینئر سیاست دان ہیں اور قطعی طور پر ملک میں انارکی اور فساد کے حامی نہیں، وہ بھی ملک کی بہتری چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سیاسی مذاکرات میں قطعی مداخلت نہیں کرے۔ اسٹیبلشمنٹ وہی کام کرے جس کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔ الیکشن جمہوریت سو فیصد سیاسی معاملات ہیں اور سیاست دانوں کو ہی ان مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔
جماعت اسلامی کا ون پوائنٹ ایجنڈا پورے ملک میں الیکشن کی ایک تاریخ پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ اگر گزشتہ کئی ماہ کی عدالتوں کی کارروائی کا جائزہ لیا جائے تو ہر طرف سیاست ہی سیاست نظر آتی ہے، عوامی مسائل دب کر رہ گئے۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ عدالتیں سیاست کی بجائے عوام کے ایشوز پر توجہ مرکوز کریں۔ پنجاب کے انتخابات انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو گئے ہیں۔ جماعت اسلامی ملک میں ایسے انتخابات کے لیے کوشاں ہے الیکشن ماضی کی طرح جھرلو نہ ہوں اور الیکشن اغوا نہ کیے جائیں۔سیاسی مفاہمت کے سلسلے میں محترم سراج الحق نے پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الہٰی سے ٹیلی فون پر ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیاجس میں اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کردار ادا کرنا ہو گا۔اس سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف اور امیر جماعت اسلامی کے درمیان بھی ٹیلیفون پر رابطہ ہوا تھا، جس کے دوران دونوں رہنماؤں نے موجودہ سیاسی صورتِ حال پر گفتگو کی۔جناب سراج الحق نے کہا کہ بطور وزیر اعظم آپ کی زیادہ ذمے داری ہے کہ سیاسی بحران کا حل نکالیں۔جواب میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ سے ملاقات کے بعد اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر رہا ہوں، 26 اپریل کو اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلایا ہے۔
ایک ہی دن میں ملک بھر میں عام انتخابات کروانے سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے آغاز میں ہی چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی طرف سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقات کرنے کے اقدام کو سراہا اور کہا کہ سپریم کورٹ اس کاوش میں ان کے ساتھ ہے۔ عدالت میں بھی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والوں نے اس موقف کو دھرایا کہ سیاسی تلخیوں کو کم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ضروری ہیں اور حکومت میں شامل جماعتوں نے اس معاملے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔جناب سراج الحق نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت مذاکرات کرنے والا معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑ دے اور خود کو اس معاملے سے الگ کرے۔
پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی سیاسی اور معاشی نظم و نسق میں ناکامی کے بعد دوبارہ اسے حاصل کرنے کے لیے آئین کو پاما ل کر رہی ہے۔ ملکی تاریخ گڈ اینڈ بیڈ ججزکی اصطلاحوں اور مرضی کے فیصلوں کے حصول کے سکینڈلز سے بھری پڑی ہے۔ ابھی تک نظریہ ضرورت دفن نہیں ہوا۔ عدالتیں پورا عدل کریں، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیادوں پر فیصلے تو جرگوں اور پنچایتوں میں ہوتے ہیں۔ ایوان بے توقیر، عدالت تقسیم، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمشن کی جانبداری پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
پاکستان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک منفرد اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان صرف خطہ زمین نہیں نظریہ پہلے اور مملکت بعد میں ہے۔ ریاست کا نظام چلانے کے لئے قرارداد مقاصد، آئین پاکستان ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور اقتصادی آزادی اسلامی معاشی نظام کے لئے آئینی اور عدالتی فیصلے موجود ہیں لیکن نااہل، مفاد پرست، کرپٹ حکمرانوں نے ذاتی گروہی پارٹی مفادات کو ترجیح دی اور قومی اتحاد کو پسِ پشت ڈالا، آئین، قرآن وسنت، جمہوری پارلیمانی اقتدار کو پامال کردیا۔ اتحادوں کی سیاست چھوٹے چھوٹے مفادات کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔
٭٭٭