... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رواں ماہ حکومتی اتحاد نے آئین کی پچاسویں سالگرہ منائی مگرعملی طورپر دیکھیں تو آئین کی پاسداری کے حوالے سے صورتحال قابلِ رشک یا قابلِ تحسین نہیں ،ہر فریق آئینی شقوں کواپنے مفاد کے تناظر میں دیکھتاہے۔ آئین کاجو حصہ مفاد کے مطابق لگے، اُس کی تعریف جو مفاد سے متصادم محسوس ہوں اسے نظراندازکرنے میں ملک کی بہتری تصورکرتاہے۔ یہ کوئی اچھا طرزِ عمل نہیں بلکہ سیاستدانوں کو جائزہ لینا چاہیے کہ انھوں نے آئین کی پچاسویں سالگرہ کی خوشیاں تومنالیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اب اپنے اطوارسے پچاسویں برس خود ہی نقصان پہنچانے کا موجب ہیں ۔آئین کو نقصان پہنچتا ہے تو ملک جس سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہے اِس کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ نیا آئین بنانے پر شاید ہی سیاسی قیادت متفق ہو موجودہ آئین سے محرومی کے بعد ملک کاسرزمین ِ بے آئین بننے کا خطرہ جنم لے سکتا ہے۔ ایسا ہونا ملک وقوم کی بدقسمتی ہوگی۔
آئین میں واضح طورپر نگران سیٹ اَپ کی مدت نوے روز ہے اور اسی عرصہ میں انتخابی عمل مکمل کرنا لازم ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس میں اسی طرف توجہ مبذول کرائی لیکن ازخود نوٹس سے معاملات سلجھنے کی بجائے پیچیدگیاں جنم لینے لگی ہیں۔ پنجاب اور کے پی کی نگران حکومتیں اپنی معینہ مدت مکمل کر چکیں مگر ابھی تک انتخابی شیڈول پر سیاسی رہنمائوں کا اتفاق نہیں ہورہا ۔دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی عمل کو نامکمل رکھنے میں نہ صرف ملک میں موجود آدھی ادھوری قومی اسمبلی کی منظورکی جانے والی قراردادوں کا کلیدی کردار ہے بلکہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف بھی قومی اسمبلی میں واپس آنے کے خواہشمند ممبران کو ایوان سے باہر رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اِسی لیے اراکین کے استعفے مرحلہ وار منظور کیے اور پھر اِ ن کے حلقے خالی قرار دیکر الیکشن کمیشن نے بھی جھٹ سے انتخابی شیڈول جاری کر دیا۔ یہاں حیرانگی والی بات یہ ہے کہ جو الیکشن کمیشن مستعفی ممبران قومی اسمبلی کے حلقوں کا ضمنی الیکشن کرانے پر بضدہے ،وہی صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کرانے سے یہ کہہ کر انکاری ہے کہ اس صورت میں انتشار و افراتفری کاخطرہ ہے۔ ایک عام فہم بات ہے کہ آٹے کی تقسیم کے لیے سینکڑوں افراد کی لگی لائنیں یا ہزاروں کے اجتماعات میں شامل افراد نے ہی ووٹ ڈالنے جانا ہے جب آج کوئی بدامنی نہیں رہی تو انتخابی عمل میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کا خوف بے جا معلوم ہوتاہے اور پیش کردہ جواز کوئی بھی فہمیدہ شخص تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اب تو امن وامان کی صورتحال پھر بھی بہتر ہے۔ اِس سے کئی گناخراب حالات کے باوجود ماضی میں ملک میں عام انتخابات ہوچکے جن کے دوران ہمارے اِداروں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے امن یقینی بنایا۔ اب انتخابی عمل سے فرارسمجھ سے بالاترہے۔
ملک کی حفاظت پر مامور عسکری حکام بھی پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے چودہ مئی کو ہونے والے انتخاب کو ملتوی کرانے کے لیے ایسے عجیب عجیب اور بچگانہ جواز پیش کررہے ہیں جن پر ہنسی آتی ہے ۔مثال کے طور پر تاثر دیاجارہا ہے کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی
کے انتخاب چودہ مئی کو کرائے تونہ صرف دشمن ملک سے جنگ کا خطرہ ہے بلکہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را بڑے پیمانے پر دہشت گردی کرا سکتی ہے ۔ یہ جواز ناقابلِ فہم ہے، ارے بھئی چودہ مئی کو جنگ لگنے نیز را کی طرف سے بدامنی کے امکانات کیا آٹھ اکتوبر کوالیکشن ہونے سے ختم ہو جائیں گے؟ ہمارے اِداروں سے را اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ نتخابی عمل کو سبوتاژ کرسکے؟ ہمارے اِداروں میں اتنی صلاحیت ہے کہ اُسے منہ توڑ جواب دے سکیں ۔اِس پر ہرشہری کو کامل یقین ہے ،علاوہ ازیں یہ یقین دہانی کس نے کرائی ہے کہ آٹھ اکتوبرکوالیکشن ہونے سے نہ تو جنگ لگے گی اور نہ ہی را جیسی بدنام ایجنسی مداخلت کرے گی؟ صاف ظاہر ہے سیکورٹی پر مامور اِدارے اور الیکشن کمیشن دراصل حکومتی ہدیات پر عمل پیرا ہیں جسے بھانپتے ہوئے سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع کی طرف سے دائر ہونے والی عرضی ناقابلِ سماعت قرار دے کر رد کردی پھر بھی سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد سے فرار کے لیے بودے جواز تراشنے کاسلسلہ تھم نہیں رہا۔ حکومت نے اسٹیٹ بینک کولیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے قائمہ کمیٹی کے ذریعے روک دیاہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ حکومت کسی صورت انتخابی میدان میں اُترنے کو تیار نہیں کیونکہ مہنگائی سے عام آدمی بلبلا رہے ہیں جوکسی صورت اُس کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دے سکتے بلکہ قوی امید ہے کہ ووٹ دیتے وقت نفرت کا اظہار کرتے ہوئے دیگر امیدواروں کو ترجیح دیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جوں ہی سپریم کورٹ نے چودہ مئی کو صوبائی اسمبلی کے انتخاب کرانے کی تاریخ دی حکومت ، الیکشن کمیشن اور دیگر اِدارے نظرثانی کی عرضی دائر کرتے اسی طرح اب جو سیکورٹی کے اِداروں نے چیف جسٹس کو بریفنگ دینے کے لیے بھاگ دوڑ کی وہی بھاگ دوڑابتدا میں کرلی جاتی تو عدالت حتمی حکم نامہ جاری کرتے وقت شاید عجلت نہ کرتی ۔اب جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا ہے توعملدرآمد میںرکاوٹیں کھڑی کی جانے لگی ہیںجس پر اذہان میں قیاس تقویت پکڑ رہے ہیں کہ بھاگ دوڑ کا مقصد انتخابی عمل رکوانے کے سوا کچھ نہیں جس کی تائید ملک میں ایک ہی روز انتخاب کرانے کی قرار داد سے بھی ہوتی ہے ۔یہاں ایک سوال ہے جو اِدارے ایک یا دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی عمل کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہیں وہ پورے ملک میں عام انتخابات کے دوران کیسے امن و امان کی صورتحال یقینی بنا سکیں گے؟ اگر حکومت چاہتی ہے پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہوں آصف زرداری بھی اِس پر آمادہ ہیں تو قومی اسمبلی توڑکر عام انتخابات کا اعلان کردیاجائے ایسا کرنے میں کسی طرف سے کوئی رکاٹ نہیں مگروہ قرارداد پاس کرنے کے ساتھ قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کی بھی آرزومند ہے اوراسی آڑ میں دوصوبوں میں خلافِ آئین روزمرہ کے امور سرانجام دینے کو جائز تصور کرتی ہے جو ذہنوں میں ایسے شبہات جنم دینے کا باعث ہے کہ حکومت کو فی الحال انتخاب کرانے سے دلچسپی ہی نہیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں اُسے بدترین شکست واضح نظر آرہی ہے ۔
سپریم کورٹ نے بہت اچھا کیا جو سیاسی جماعتوں کو گفتگو کا موقع دیا تاکہ مل بیٹھ کر کوئی درمیانی راستہ نکال سکیں مگر جب تمام جماعتیں مذاکرات پر آمادہ نیز رویے میں لچک لانے پر تیار ہیں تو مولانا فضل الرحمٰن سخت موقف سے نہ صرف الگ تھلگ کھڑے ہیں بلکہ انتخاب کی صورت میں عوام کے پاس جانے کی دھمکی دیتے نظرآتے ہیں ۔دھمکی سے عیاں ہے کہ وہ انتخابی فضا بنانے کے خلاف چلنے کی بات کررہے ہیں کیونکہ اگر ووٹوں کے لیے عوام کے پاس جانے کی بات ہوتی تو سپریم کورٹ کا حکم بھی تو یہی ہے جس پروہ طیش میں ہیں، حالانکہ انھیں کِس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ کسی سیاستدان کو سیاست سے مائنس کریں۔ یہ حق عوام کا ہے اور عوام اِس وقت بلامبالغہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اسی بنا پر تیرہ جماعتیں خوفزدہ ہیں اور الیکشن سے فرارکے جواز پیش کررہی ہیں کیونکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ایک برس کے دوران حکومت کی غلط پالیسیوں اور احمقانہ فیصلوں سے جس طرح مہنگائی اور بے روزگار ی میں اضافہ ہوا ہے اِ س کے بعد پی ڈی ایم کے کسی امیدوار کو کوئی دانشمند ووٹ دینے کا حوصلہ کرہی نہیں سکتا،ویسے بھی مولانا تو اسمبلی کے ممبر ہی نہیں اسی بناپراُن کے منہ سے مائنس کرنے کی دھمکی عجیب لگتی ہے۔ حامد میرجیسے باخبرصحافی نے ایک نجی چینل پر گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ایسے واقعات پیش آئیں گے جس سے انتخاب ملتوی ہوسکتے ہیں۔ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے جلدہی بلاول ،فضل الرحمٰن ،شہباز شریف اور عمران خان شاید اِداروں کے خلاف یکے بعد دیگرے بولتے نظر آئیں۔ ایسا ہونا ملک کی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اِدارے کمزور کرنا ملک کمزور کرنے کے مترادف ہے ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے انتخابی عمل کی طرف جانا زیادہ سودمندہے۔
٭٭٭