... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشادِ ربانی ہے :پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے ، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے وا لے ہیں ‘‘۔ اقصیٰ دور کو کہتے ہیں۔القدس میں واقع بیت المقدس سے مکہ مکرمہ کی مسافت (40) دن کی ہے ۔ اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہلاتی ہے ۔
انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے اور قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت کے سبب اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے ۔رب کائنات نے نبی کریم ﷺ کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھا نے کی خاطریہ طویل سفر رات کے ایک قلیل حصے میں کرایا۔ احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے وہاں انبیاء کی امامت فرمائی اور اس کے بعد انہیں معراج کے سفر کی سعادتِ عظمیٰ سے سرفراز کیا گیا۔ آپ ﷺ کی مختلف آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے ، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ اس معجزاتی سفر کا ذکر سورہ نجم اور مختلف احادیث میں موجود ہے ۔
مسجد اقصیٰ کے تعلق سے حدیث پاک میں آیا ہے کہ یہ روئے زمین پر خانہ کعبہ کے بعد دوسری مسجد ہے ۔ حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے میں نے کہا:اے اللہ کے رسول ؐاس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ نے جواب دیا، مسجد حرام۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ نے فرمایا مسجد اقصیٰ۔ میں نے کہا ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا چالیس سال‘‘۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا قبلۂ اول فی الحال صہیونی شکنجے میں ہے لیکن ماہِ رمضان میں فلسطینی مسلمان خاص طور پر اس مسجد سے اپنے والہانہ تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت طرح طرح کی نامعقول پابندیاں لگا کر انہیں روکنے کی ناکام کوشش کرتی ہے ۔ امسال بھی تیسرے جمعہ کو فوج اور پولیس کی جانب سے جگہ جگہ ناکہ بندی اور رکاوٹیں کھڑی کرکے نمازیوں کو روکنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ ان پابندیوں کے باوجود ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ فلسطینی مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کی۔اس موقع پر مسجد اقصیٰ کے امام و خطیب الشیخ یوسف ابو سنینہ نے صہیونی دشمن کی پر زور مذمت کے بعد کہا کہ مسجد اقصیٰ اور القدس پربات چیت اور مصالحت نا قابلِ قبول ہے کیونکہ یہ مقامات صرف مسلمانوں کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کے باشندوں کو ہر جگہ رہائش اختیار کرنے کے حق ہے اس کو اسرائیل نہیں چھین سکتا۔سرکاری کوششوں کی ناکامی کے تین دن بعد فوج اور پولیس کے تحفظ میں1531 یہودی آباد کاورں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر مقامِ مقدس کی بے حرمتی کی۔ یہودی تہوار ’’ عید الفصح‘‘ کے چوتھے دن ان لوگوں کو 23 گروہوں کی شکل میں وہاں لایا گیا تھا ۔ اس کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس سنگین صورتحال سے گھبرا کر آخری عشرہ کے دوران مسجد اقصیٰ میں آباد کاروں کی دراندازی روکنے کا اعلان کردیا ۔ اس کے لیے انہیں انتہا پسند اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے اس رکاوٹ کے فیصلے کو ایک سنگین غلطی بتایا اور کشیدگی میں اضافہ کی دھمکی دی مگر اس کی پروا کیے بغیر جمعۃ الواداع کو سخت تر پابندیوں کے باوجود ڈھائی لاکھ فلسطینیوں نے قبلہ اول میں نماز جمعہ ادا کی۔ان میں اندرون فلسطین کے علاوہ غرب اردن اور القدس کے نمازی بھی شامل تھے ۔
رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ کے اندر لیلۃ قدر کا بھی خوب اہتمام کیا جاتاہے ۔ اس کی حوصلہ شکنی کے لیے اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی، ایتمار بن گویر نے پولیس کمانڈر ٹورن ٹرگیمین کو مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے اور وہاں پرموجود فلسطینی نمازیوں کو کچلنے کا فری ہینڈ دے دیا۔ بن گویر نے تو حفاظتی دستوں سے کہہ دیا کہ ’’جو چاہو کرو‘‘، مگر جانباز فلسطینی عوام پر اس گیدڑ بھپکی کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے اس دھمکی کی کوئی پروا کیے بغیر ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرکے اپنے جذبۂ ایمانی کا ثبوت دیا ۔ جمعۃ الواداع کو عالمی سطح پر یوم القدس کا اہتما م کیا جاتا ہے ۔اس موقع پر اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے غزہ میں صدر اور مرکزی رہ نما یحییٰ سنوار قبلہ اول کی حفاظت کرنے والے فلسطینیوں کے تحفظ کی خاطر ہرطرح کی قربانی پیش کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
یحییٰ سنوار نے کہا کہ’’ اے یروشلم کے باشندو، ہم آپ کے ربط کی تفصیلات کا احترام کرتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہیں اور آپ کے خلاف قابض افواج کے رویے کی نگرانی کرتے ہیں۔ مزاحمت کی قیادت یقینی طور پر ماضی کی طرح آپ کی حمایت اور حفاظت کرے گی‘‘۔ عالمی یوم قدس کی اہمیت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد بیت المقدس کو قوم اور دنیا کے ضمیر میں موجود رکھنا نیزہر سال یروشلم اور الاقصیٰ کے ساتھ عہد کی تجدید کرنا ہے ۔حماس رہ نما السنوار نے مسجد اقصیٰ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والوں کی حیرت انگیز ثابت قدمی کو سراہا۔ حماس سیاسی بیورو کے نائب سربراہ صالح العاروری نے یوم القدس کی ایک تقریب میں کہا’’ دشمن کو اندازہ ہوگیا ہے کہ مزاحمت مسجد اقصیٰ کے اندر ہرجگہ موجود ہے ۔ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت شاملِ حال ہے اور فلسطینی قوم اپنی جانوں پر کھیل کر اس کا دفاع کررہی ہے ‘‘۔یوم القدس ہر سال کی طرح اس بار بھی یہی پیغام دے رہا ہے کہ
مسلمانوں کا شیوہ ہے محمد سے وفا کرنا
نمازِ عشق تلواروں کے سائے میں ادا کرنا
٭٭٭