... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عتیق احمد اور اشرف کے قتل کا مدعا اب بھی میڈیا پر چھایا ہوا ہے ۔ اس معاملے میں رکن پارلیمان اور معروف کپل سبل کا خیال ہے کہ اتر پردیش میں دو قتل ہوئے ہیں ، ایک قتل عتیق و اشرف کا اور دوسرا قانون کی حکمرانی کا۔ اس کو ڈبل مرڈر کہتے ہیں ۔ایک ڈبل انجن سرکار سے اسی طرح کی دُگنی حماقت کا ارتکاب توقع کے عین مطابق ہے ۔ اسی طرح کی بات اتر پردیش پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل وکرم سنگھ نے بھی کہی کہ عتیق احمد کا قتل ہونا ناقابل قبول ہے ۔زیر حراست ملزم کا مرنا بہت برا فعل ہے تو قتل اس سے بھی بدتر ہے ۔ یعنی یہ تو کریلا وہ بھی نیم چڑھا جیسی صورتحال ہے ۔ انتظامیہ کے نقطۂ نظر سے یہ اہم بات ہے لیکن اس معاملے میں سب سے چبھتا بیان ترنمول کانگریس کی تیز طرار رکن پارلیمان مہوا موئترا نے دیا۔ ان کا الزام ہے کہ بی جے پی نے ملک کو’مافیا ریپبلک ‘ بنا دیا ہے ۔ انگریزی زبان میں بنانا(کیلا) ریپبلک کے اصطلاح عام ہے مگر یہ مجرمانہ جمہوریہ والی بات نہایت شرمناک ہے ۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ عتیق احمد کا قتل لوگوں کی توجہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے انٹرویو سے ہٹانے کے لیے کیا گیا۔ یہ نہایت سنگین الزام بی جے پی کے ماتھے پر بہت بڑا کلنک ہے ۔الیکشن جیتنے کے لیے دھماکہ اور است چھپانے کی خاطر قتل ؟ کیا یہی ہندو راشٹر ہے ؟
آج کل کسی غیر اہم خبر کو بہت زیادہ اہمیت مل رہی ہو تو اس کے آس پاس کوئی اہم ترین واقعہ تلاش کرنا چاہیے ۔ مثلاً تمل ناڈو میں مزدوروں سے متعلق فیک ویڈیو جسے پٹنہ میں بناکر بی جے پی آئی ٹی سیل نے نشر کردیا اور اس کے لیے عدالت عظمیٰ میں بی جے پی رہنما کو معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اپوزیشن کے اتحاد کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ نے اترپردیش میں بی جے پی کے پرشانت پٹیل امراؤ کی سرزنش کی۔ انہوں نے 23 فروری کو ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تمل ناڈو میں ہندی بولنے پر 15 مزدوروں کو مارا پیٹا گیا، جن میں سے 12 کی موت ہوگئی۔ تفتیش کاروں اور ریاستی پولیس نے آخر کاراس کو فرضی بتاکر مسترد کر دیا تھا،لیکن تب تک بڑے پیمانے پر دہشت پھیل چکی تھی۔اس کے بعد پرشانت پٹیل امراؤ کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 (فساد پیدا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 504 (امن وامان کو کو خراب کرنے کے لیے جان بوجھ کر توہین کرنا) اور 505 (عوامی پریشانی کا باعث بننے والے بیانات) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔اس معاملے میں سپریم کورٹ نے پرشانت پٹیل امراؤ کو تمل ناڈو کو غلط معلومات پھیلانے پر معافی مانگنے کاحکم دیا۔
اس کے بعد حزب اختلاف کے اتحاد کو چھپانے دہلی میں نتیش کمار کی راہل گاندھی اوراروند کیجریوال سے ملاقات کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر اسد اور غلام کا انکاونٹر کیا گیا۔ یعنی نے اہم لکیر کے بغل میں ایک بہت بڑی غیر اہم لکیر کھینچ کر سرکار کی خوشنودی حاصل کر لی۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ آخر دی وائر چینل پر کرن تھاپر نے کون کون سے اہم انکشافات کیے ۔ اس میں سب سے خاص بات 2019 کے پلوامہ حملے کا ذمہ داری حکومت ہند کے سر ڈالنا ہے ۔پلوامہ کا حادثہ جب رونما ہواتو اس وقت ستیہ پال ملک جموں کشمیر کے گورنر تھے، اس لیے ان کی بات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے پلوامہ حملے کے لیے حکومت ہند یعنی مودی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرادیا۔ یہ انٹرویو جنگل کی آگ بن کر پھیل رہا تھا کہ درمیان میں عتیق احمد و اشرف کے قتل کی سازش رچی گئی ۔کیا یہ محض اتفاق ہے کوئی گہری سازش ہے ؟ستیہ پال ملک کے مطابق پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ سسٹم کی ناکامی اور لاپرواہی کا نتیجہ تھااور اس کے لیے ہوائی جہاز مہیا کرنے سے انکار کرنے والی وزارت داخلہ ذمہ دارہے ۔
ستیہ پال ملک نے یہ الزام بھی لگایا کہ سی آر پی ایف نے قافلے کے راستے میں مناسب حفاظتی تفتیش کا بندوبست نہیں کیا تھا اور یہ خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان سے 300 کلوگرام آر ڈی ایکس والی گاڑی 10 سے 12 دن تک جموں و کشمیر میں گھومتی رہی خفیہ ایجنسی اس کا سراغ لگانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکی۔ پلوامہ سانحہ کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے ستیہ پال ملک نے دعویٰ کیا کہ جب وزیر اعظم مودی نے انہیں فون کیا تو انھوں نے یہ مسائل اٹھائے ۔ اس پر وزیر اعظم نے انہیں زبان بند رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے متعلق کسی کو کچھ نہ کہیں۔یہی ہدایت ان کے ہم جماعت اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے بھی دی ۔ اس وقت انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت کا مقصد اس حملے کا الزام پاکستان پر لگا کر انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے ۔
اس معاملے میں چونکہ ایک اہم سرکاری اہلکار کی جانب سے ہم سایہ ملک پر دشنام طرازی کا اعتراف کیا گیا تھا، اس لیے پاکستان کے دفتر خارجہ نے ستیہ پال ملک کے حالیہ بیان کو اپنے فروری 2019 میں دئیے جانے والے پلوامہ حملے سے متعلق پاکستان کے مؤقف کی تائید بتایا۔ پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان انکشافات سے ہندوستانی قیادت کے ذریعہ اندرونی سیاسی فوائد کے لیے عادتاً اپنی مظلومیت کے شرمناک بیانیہ اور پاکستان مخالف ایجنڈے کا انکشاف ہوتا ہے ۔ترجمان نے عالمی برادری سے تازہ ترین انکشافات کی روشنی میں ہندوستانی خودغرضی وسیاسی مفادات پرمبنی پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لینے کی درخواست کی۔ اس کے علاوہ پلوامہ حملے کے بعد علاقائی امن کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے لیے ہندوستان کو جوابدہ ٹھہرائے جانے پر زور دیا۔ پاکستان کے سابق سفیرنے کہا کہ پلوامہ کا واقعہ حکومت ہند کا باقاعدہ منصوبہ تھا اس لیے مودی اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے ستیہ پال ملک کو خاموش رہنے کی ہدایت کی تھی۔ان کے مطابق پلوامہ کی سازش کے پیچھے ‘ہندوتوا ایجنڈا’ کارفرما تھا۔
آصف درانی نے پلوامہ کے بعد بالاکوٹ حملے کو ایک بیجا مہم جوئی قراردے کرکہا ہندوستانی میزائل نے کچھ درخت وغیرہ تباہ کیے مگر مدرسہ کو تباہ کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا جبکہ پاکستان نے 24 گھنٹے کے اندر اس کا منہ توڑ جواب دے دیا تھا۔ان کے مطابق کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 سی کو ختم کر نا پیش نظر تھا اور منصوبہ بند طریقہ پر اسی سال 5 اگست کووہ کر دیا گیا ۔انہوں نے اس سلسلے میں امریکی صدربل کلنٹن کے دورے پر کشمیر میں سکھوں کو مار کر اس کا الزام کشمیری مجاہدین پر ڈالنے اور اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بہتان کی یاد تازہ کی ۔اس سانحہ کے بارے میں آگے چل کر انکشاف ہوا کہ وہ ہندی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا کیا دھرا تھا۔ درانی نے فوجی افسران کے ایوارڈ کی خاطر بے قصور لوگوں کو مارکر اجتماعی قبر میں دفن کرنے کی یاد دلائی ۔ ویسے کلنٹن کا دورہ تو مودی جی کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے کا ہے لیکن یہ سلسلہ اس وقت سے جاری و ساری ہے ۔
ستیہ پال ملک کے بیان سے تو پاکستان نے اپنا سفارتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگران کی تائید کرنے والوں میں نوے کی دہائی کے اندر فوج میں کام کرنے والے اعلیٰ فوجی افسر جنرل شنکر رائے چودھری بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ میں جو کچھ ہوا اس سے بچا جا سکتا تھا۔ سابق فوجی افسر نے روزنامہ ٹیلی گراف کو بتایا کہ، “پلوامہ میں مرنے والوں کی بنیادی ذمہ داری وزیر اعظم کی سربراہی میں مرکزی حکومت اورمشورہ دینے والے این ایس اے پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے جس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ۔ جنرل رائے کے خیال میں سڑک کے بجائے ہوائی راستے سے جوانوں کو لے جاکر ان کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ کسی سابق فوجی کی جانب سے ستیہ پال ملک کی یہ تائیدموودی جی کے لیے سر درد بن سکتی ہے کیونکہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے فوجی جوانوں کو بھینٹ چڑھانا ناقابل معافی جرم ہے ۔
مہوا مترا کی مانند شیوسینا (ادھو ٹھاکرے ) کے رہنما سنجے راوت نے بھی سوال کیا کہ کیا 2019 کا پلوامہ دہشت گردانہ حملہ نریندر مودی حکومت نے لوک سبھا انتخابات جیتنے کے مقصد سے کیا تھا؟ راوت نے کہاکہ عوام کو پتہ تھا کہ ہندوستان۔پاکستان واقعات کو سیاسی فائدے کے لیے گھڑا جائے گا ۔ انہوں نے پوچھا کیا سیاسی فائدے کے لیے 40 جوانوں کو مارنے کی سازش کی گئی تھی؟ راوت کے مطابق اس وقت جب ایسے سوالات کرنے کی کوشش کی گئی تو حکمران جماعت نے خاموشی اختیار کر کے سوال پوچھنے والوں پرملک دشمنی کا لیبل لگا دیا۔ ان خطوط پر راشٹریہ جنتا دل نے کہا کہ پلوامہ حملے کی حقیقت اورجعلی سنگھی قوم پرستوں کا اصل چہرہ سامنے آرہا ہے ۔ سب سمجھ رہے ہیں کہ پلوامہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے کیوں ہوا؟ اس بازگشت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حزب اختلاف نے یک زبان ہو کر پلوامہ پر حکومت کو گھیرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔
ستیہ پال ملک سمیت سارے لوگوں نے پلوامہ کو مودی سرکار کی نااہلی یا سازش سے جوڑ ا لیکن مہاراشٹر کانگریس کے صدر نانا پٹولے نے 2019 کے پلوامہ دہشت گردانہ حملے میں استعمال ہونے والا آر ڈی ایکس کی بابت یہ انکشاف کرکے کہ وہ ناگپور سے بھیجا گیا تھا آر ایس ایس کو لپیٹنے کی کوشش کرڈالی۔ پٹولے نے کہااس دہشت گردانہ حملے میں استعمال ہونے والا 300 کلوگرام آر ڈی ایکس ناگپور سے بھیجا گیا تھا۔ یہ پتہ لگانے کے لیے کہ یہ دھماکہ خیز اشیاء کس نے اور کہاں سے بھیجا، سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا گیا تھا، لیکن تقریباً چار سال گزرنے کے بعد بھی اس تحقیقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس بیان کو بی جے پی کے سابق رکن اور گجرات کے وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا کے اس بیان سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے کہ اس آر ڈی ایکس سے بھری گاڑی پر گجرات کی نمبر پلیٹ تھی۔ پلوامہ میں دھماکے کے لیے استعمال کیا جانے والے دھماکہ خیز اشیاء کا ناگپور سے گجرات کی گاڑی میں جانا تمام رازہائے سر بستہ کو فاش کرنے کے لیے کافی ہے اور اس کی پردہ پوشی کے لیے عتیق احمد اور اشرف کا قتل نہایت قابلِ مذمت حرکت ہے ۔
٭٭٭