... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن آج کل عالمی بینک کی سالانہ میٹنگوں میں شرکت کے لیے امریکہ کے دورے پر ہیں۔ظاہر ہے وزیرخزانہ کی حیثیت سے ان کے اس دورے کا سروکار معاشی امور ہیں، لیکن جس وقت وہ واشنگٹن میں ہندوستانی معیشت پر گفتگو کررہی تھیں تو وہاں ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق پوچھیگئے ایک سوال نے ان کے منہ کا ذائقہ ہی بگاڑ دیا۔ سوال یہ تھاکہکیا وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ تشدد کے واقعات ہندوستان میں سرمایہ کاری کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟ظاہر ہے اس سوال کا تعلق نہ تو معاشی امور سے ہے اور نہ ہی بحیثیت وزیرخزانہ وہ اس کا جواب دینے کی اہل ہیں، لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی وحشیانہ لنچنگ اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے تعلق سے جو خبریں عالمی ذرائع ابلاغ تک پہنچ رہی ہیں، ان سے امریکہ بھی بے خبرنہیں ہے ۔وزیرخزانہ نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے کی بجائے وہی سب باتیں کہیں جو بی جے پی کے لوگ کہتے چلے آئے ہیں۔
وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہہندوستان میں دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی رہتی ہے جو مسلسل ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے ۔ جو لوگ ہندوستانی مسلمانوں کی مشکلات کا رونا روتے ہیں، وہ دراصل زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہہندوستانی مسلمانوں کی حالت پاکستانی مسلمانوں سے بدرجہا بہتر ہے اور ان کی آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اگر انھیں مشکلات پیش آتیں تو ان کی آبادی کیسے بڑھتی؟انھوں نے کہا کہ پاکستان میں مہاجرین، شیعوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد برپا ہوا ہے ۔پاکستان نے خود کو اسلامی ملک قرار دیا۔ اس کے بعد پاکستان میں ہراقلیتی فرقہ کی تعداد کم ہوتی رہی۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں پر ہورہے تشدد کو ایک مفروضہ قرار دیتے ہوئے حقارت سے مسترد کردیا۔
سب سے پہلے ہمیں وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن کو داد دینی چاہئے کہ انھوں نے ایک غیر ملکی سرزمین میں ہندوستان کی آبرو کاتحفظ کیا اور اپنے سچے ہندوستانی ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔جب کہ راہل گاندھی نے پچھلے دنوں لندن میں ہندوستانی جمہوریت کے مستقبل پرسوالیہ نشان قایم کرکے ‘ملک دشمنی’ کام ایسا سنگین جرم کیا تھا، جس کے لیے بی جے پی نے انھیں ابھی تک معاف نہیں کیا ہے ۔ آج کل دیش بھکت صرف وہی ہے جو موجودہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے ۔ جوکوئی ایسا نہیں کرتا وہ ملک دشمنوں کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ ہندوستانی مسلمان تو عرصہ دراز سے اس فہرست میں شامل ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کو ترقی کرنے اور اپنی آبادی بڑھانے کے سارے مواقع حاصل ہیں۔ اب یہ ان کی نالائقی نہیں تو کیا ہے کہ وہ کبھی فسادیوں کے ہاتھوں اور کبھی نام نہاد گؤرکشکوں کے ہاتھوں قتل ہونے پر واویلا مچاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر کچھ لوگ‘مادرہند’ کے نام پر قتل ہوبھی جاتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے ، آبادی تو ان کی بڑھ رہی ہے ۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی میں سے اگر کچھ مسلمان گاؤ ماتاکے کام آتے ہیں تویہ ان کے لیے فخر کی بات ہونی چاہئے ۔
نرملا سیتا رمن کے جس بیان پر ہم یہاں بحث کررہے ہیں، وہ انھوں نے واشنگٹن میں تھنک ٹینک پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فارانٹر نیشنل اکنامکس کے ساتھ گفتگو کے دوران دیاہے ۔انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ایڈم پوسن نے ان سے دریافت کیا تھا کہ ‘کیا وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات ہندوستان میں سرمایہ کاری کو نقصان پہنچارہے ہیں؟’اس کے جواب میں مرکزی وزیرخزانہ نے متوقع سرمایہ کاروں پر زور دیا کہ آئیے اور دیکھئے کہ ہندوستان میں کیا ہورہا ہے ، بجائے اس کے کہ ان لوگوں کی باتیں سنیں جوزمینی حالات کو جانے بغیر رپورٹیں لکھ رہے ہیں۔ نرملا سیتا رمن کا اشارہ ان امریکی صحافیوں کی طرف تھا جو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہے امتیازی سلوک کے بارے میں مسلسل لکھ رہے ہیں۔ نہ صرف امریکی ذرائع ابلاغ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر مبنی رپورٹیں شائع ہورہی ہیں بلکہ امریکہ میں انسانی حقوق کے کئی ادارے بھیمسلمانوں کے خلاف تشددپر تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔امریکی حکومت بھی اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے ۔
اپریل 2022میں امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان فرقہ وارانہ تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔اس رپورٹ میں ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، ماورائے عدالت قتل، پولیس اور جیل حکام کی جانب سے من مانی گرفتاریوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ذکرکیا گیا تھا۔ رپورٹ میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین کی آڑمیں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا حوالہ بھی موجود تھا۔گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے کہا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی اور اس سے متعلق انسانی حقوق کو جن وجوہات کی بنا پر خطرہ لاحق ہے ، ان میں اقلیتوں کے تحفظ میں حکومتی پالیسیوں کی ناکامی بھی شامل ہے ۔پینل نے گزشتہ سال اپریل کی اپنی اس تجویز کو دوہرایا تھا کہ امریکہ ہندوستان کو خاص تشویش والے ملککے طورپر نشان زد کرے ۔مگر حکومت ہند نے اپریل میں بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کو جانبدارانہ اور غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جب بھی کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم سے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی بات سامنے آتی ہے تو ہماری حکومت اسے مفروضہ اور غلط اطلاعات قرار دے کر مسترد کردیتی ہے ۔ شترمرغ کی چال اسی کو کہتے ہیں۔
یوں تو ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر ان کی قتل وغارتگری آزادی کے بعد سے مسلسل جاری ہے ، لیکن 2014کے بعد کی صورتحال بالکل مختلف ہے ۔مسلمانوں کوچوطرفہ طورپر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ان کے وجود پر حملے کئے جارہے ہیں۔ان کی تاریخ، تہذیب اور کلچر کو نیست ونابود کیا جارہا ہے ۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی ہے ۔ ایسی ریاستیں بھی فسطائی عناصرکی زد پر ہیں، جہاں اس سے پہلے کبھی فسادنہیں ہوا۔ رام نومی کے جلوسوں کے دوران جس طرح مسجدوں، مدرسوں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ،وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اس سے بڑھ کر بے شرمی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی ریاست میں مدرسوں کا وجود مٹادیں گے ۔ درگاہوں پر بلڈوزر چلوادیں گے ۔مسجدیں نہیں بننے دیں گے ۔رمضان کے مقدس مہینے میں تراویح میں جس طرح رخنہ اندازی کی گئی ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ بعض
مسجدوں میں داخل ہوکر نمازیوں کو زدوکوب کیا گیا ہے ۔ ایسے میں جب وزیرخزانہ امریکہ میں بیٹھ کر ظلم وزیادتی کے تمام الزامات کو مسترد کرکے ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی کا بلند بانگ دعویٰ کرتی ہیں تو ان کے بیان پر احمد فراز کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
زخم کو پھول تو صر صر کو صبا کہتے ہیں
جانے کیا دور ہے ’ کیا لوگ ہیں’ کیا کہتے ہیں