... loading ...
عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکھنے اور سکھانے کا عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے ۔ اس سفر میں بھی بہت سے ایسے مقامات آتے ہیں، جہاں ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آگے کیا ہوگا، سب کچھ قدرت کے دست غیب میں ہے ، وہ جو چاہے جس کو چاہے ، جہاں چاہے عطا کردے ، یہ رضا اور عطا کا سلسلہ ہے ، دینے والا راضی ہوجائے تو اس کی عطا کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے ۔ لیکن اس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ہے ، رمضان کا آخری عشرہ اللہ سے مانگنے کا ، اس کی رحمت سے فیض یاب ہونے ، تزکیہ نفس کرنے ، نیکیاں کرنے کا ہے ، اللہ نے آپ کو دیکھنے والی آنکھ اور بصیرت سے نوازا ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں، اس کی عنایات کا ایک شکر یہ بھی ہے کہ ہر چیز کا اظہار نہ کریں، دکھاوا نہ کریں ، کسی کا دل نہ دکھائیں ، کسی کو محرومیت کا احساس نہ دلائیں ، ہوسکتا ہے اللہ نے اپ کو زیادہ دیا ہے ، اچھا دیا ہے ، خوب دیا ہے ، لیکن یہ کیا کہ ہر وقت اس کا اظہا ر کرتے رہیں۔ ہر جگہ اپنی شخصیت کا ، اپنے پہناوے کا، اپنے بڑے گھر کا ، اپنی مال دولت کا ذکر کریں۔ ذہانت اور علم بھی اللہ کی دین ہے ، اگر آپ پر اللہ کا کرم ہے ، اس کی نوازش ہے ، تو ضروری نہیں اس کا اظہار بھی کرتے رہیں۔
جو اچھی چیز آپ کو ملی ہے ، اس میں دوسروں کو شریک کرلیں،اللہ نے جو کچھ آپ کو دیا ہے ، اس کو بانٹئے ۔ارادے کی پختگی انسان کو آگے بڑھاتی ہے ، اگر آپ کوئی نیک کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کی نیکی بھی آپ کے کھاتے میں لکھ دی جاتی ہے ، اب اگر آپ نے اس پر عمل بھی کردیا تو مزید نیکیاں آپ کومل جاتی ہیں۔انسان اپنی قوت فیصلہ سے ترقی کرتا ہے ، اگر آپ میں قوت فیصلہ نہیں ہے تو آپ کتنی عمر کے ہوجائیں،لیکن آپ اپنے بچپن سے باہر نہیں نکلیں گے ۔قوت فیصلہ آپ کو حالات اور مسائل سے مقابلہ کرنا سکھاتی ہے ۔ جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایک قوت اور طاقت موجود ہے تو وہ اس کو استعمال میں لاتا ہے ۔جن لوگوں نے مسائل اور مشکلات کا سامنا نہیں کیا ہوتا وہ زندگی کے مسائل سے بھاگنے والے ہوتے ہیں، ناکام لوگ۔لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں، جو پر عزم ہوتے ہیں قوت فیصلہ رکھتے ہیں وقت اور حالات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ہمیں اس وقت ایک پر عزم قیادت کی ضرورت ہے ، ایک ایسی قیادت جو اس ملک کے مسائل کا ادراک رکھتی ہو، مخلص ہو، اس وقت ملک میں انتخابات کی ضرورت ہے ، انتخاب ہی کے ذریعہ عوام کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔انتخابات کی راہ میں جس طرح پیچیدگیاں اور ن مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں، اس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے کہ اس ملک کو چلانے والی طاقتیں کونسی ہیں، عدلیہ ، پارلیمان، سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ، ریاستی ادارے ، اگر یہ سب جسم کے حصوں کی طرح یک جان ، اور یکسو نہیں ہوں گے تو ملک نہیں چلے گا، اب من مانی اور من پسندیدہ نتائج اور من چاہے لوگوں کو اقتدار میں لانے کے منصوبے اس ملک کو مزید تباہ کردیں گے ۔ ان تمام مقتدر قوتوں کو اس ملک اور اس کے بدحال مظلوم عوام کے بارے میں سوچنا چاہیئے ، ان کی مشکلات کے حل کے لیے مل جل کر کوشش کرنی چاہئے ۔
رمضان کی ستائیس تاریخ کو یہ ملک اللہ نے اپنے بندوں کو انعام کے طور پر دیا تھا ، اس وعدے پر دیا تھا کہ یہاں امن ،چین ، انصاف، اور اسلام کے نظام نافد ہوگا۔ ہم نے اس وعدے کو بھلا دیا، اب ہم اس ملک میں اسلام نظام کے نفاد کی بات نہیں کرتے ، ہم سود کے خاتمے کے لیے جھوٹے بہانے بناتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، انانیت اور اقتدار کی جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانہ پر کھڑا کردیا ہے ، غریب اور کمزور طبقوں کے لیے زندگی مشکل بنادی گئی ہے ، روٹی کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے ، حکومت ایک لوٹ کا نظام چلا رہی ہے ، عید سے قبل ایک بار پھر پیٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی ہے ، حکومت کے پاس معیشت چلانے کے لیے قرض مانگنے اور عوام پر ٹیکس کی بھر مار کرنے کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں رہا ہے ۔اسمگلنگ کا راج ہے ، بلوچستان اور صوبہ سرحد سے افغانستان اور ایران سے جس بڑے پیمانے پر سرکاری سرپرستی میں اسمگلنگ ہورہی ہے ، اس نے ملک میں لاقانونیت،منشیات، کو فروغ دیا ہے ۔
پاکستان اس وقت بری طرح آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ، آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کے لیے ایک کے بعد ایک مطالبہ رکھ رہا ہے ، بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ ایسے میں آئی ایم ایف مزید شرائط بڑھا رہا ہے ، حالیہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، حالانکہ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کے نرخ کم ہیں۔ اب آئی ایم ایف نے تازہ شرط یہ رکھی ہے کہ معاہدے سے پہلے پاکستان اپنے دوست ممالک سے مزید یقین دہانیاں حاصل کرے کہ وہ اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم فراہم کریں گے ۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں پاکستان کو امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جب کہ چین نے بھی قرض روول اوور کر دیا ہے ۔ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف اسٹاف اور منیجمنٹ کے درمیان یہ مزاکرات ایک سال سے جاری ہیں ۔وزیر خزانہ کئی مرتبہ معاہدے کے قریب پہنچنے کا دعویٰ کرچکے ہیں۔ اور انتخابات کی تاریخ میں توسیع بھی بار بار اسی لیے کی جارہی ہے کہ کسی طرح یہ معاہدہ ہوجائے ۔ لیکن اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ثالثی کے لیے امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں، 2018 میں بھی جب عمران خان دھرنا دیے ہوئے تھے ۔اس وقت بھی سراج الحق صاحب نے دونوں فریقوں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ایسی ہی بات چیت کی تھی، لیکن اس کے بعد عمران خان کو اپنے دور اقتدار میں کبھی سراج الحق یاد نہ آئے ، دوسری جانب نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی جماعت اسلامی سے وعدہ خلافیوں کی ایک تاریخ ہے ، عمران خان جب کسی معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک مذاکراتی ٹیم بنا دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے اتحاد کے لیے بھی انھوں نے منور حسن کے دور میں ایک کمیٹی بنائی تھی، اس کو جو حال ہوا تھا وہی اب ہوگا، مذاکرات جن کی ضرورت ہے وہ قاضی فائز عیسی کو بھی پارلیمنٹ میں لے جاتے ہیں، نتیجتاً قاضی صاحب مفت بدنام ہوئے ،
کوئلے کے دلالی کے اس کاروبار میں ہاتھ کالے ہونے کے سوا کیا حاصل ہوگا۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور وفاقی وزیر مفتی عبد الشکور کی حاڈثاتی موت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ، مولانا فضل الرحمان کو اپنے وزیر کی اس موت کی تحقیقات کرانی چاہئے ، مفتی شکور ایک درویش صفت انسان تھے ، اب بھی موٹر سائیکل پر سفر کرتے تھے ۔ ان کی وزارت مذہبی امور کے دور میں گزشتہ سال حج بیت اللہ کے بارے میں بہت سے حجاج گواہی دیتے ہیں کہ وہ حج کے دنوں میں ہر جگہ پر پاکستانی حجاج کے ساتھ موجود ہوتے تھے ۔ سرکاری پروٹوکول کے تحت فائیو اسٹار ہوٹل پر قیام کے بجائے عام حجاج کے ساتھ قیام کرتے ، انھوں نے گزشتہ سال حج اخراجات نو لاکھ سے کم کروایا اور تمام حجاج کو ایک لاکھ پچاس ہزار روپے واپس کیے ۔ اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔
٭٭٭٭