... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے وزیراعظم کے پاس بھی ایک جعلی ڈگری ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں بھارت میں زیر بحث ہے۔بھارت کی عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کی جو ڈگری لی وہ جعلی ہے، تاہم حکمران بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے دہلی یونیورسٹی کو خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ وزیراعظم مودی سے منسوب ڈگری کی تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر عام کریں۔
مودی کا کہنا ہے کہ انھوں نے انیس سو اٹھتر میں دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا۔ ان کی ڈگری پر ان کا نام نریندر دامودر مودی درج ہے۔ اسی ڈگری کی بنیاد پر مودی نے انیس سو تراسی میں گجرات یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ انیس سو اٹھتر میں کسی نریندر دامودر مودی نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن نہیں کیا۔ البتہ نریندر مہاویر مودی نامی ایک طالب علم نے گریجویشن کیا تھا۔
بھارتی میڈیا نے نریندر مہاویر مودی سے رابطہ کیا تو اس نے تصدیق کی کہ وہ انیس سو پچھتر سے انیس سو اٹھتر کے درمیان دہلی یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔نریندر مہاویر کا تعلق راجستھان سے جبکہ وزیراعظم مودی کا تعلق گجرات سے ہے۔ گجرات یونیورسٹی نے تصدیق کر دی ہے کہ نریندر مودی نے انیس سو تراسی میں ایم اے کیا تھا مگر دہلی یونیورسٹی نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔
ایس او ایل نے جواب دیا ہے کہ اس کے پاس اس سال سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یونیورسٹی نے بتایا ہے کہ یہ اعداد و شمار ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک سال پہلے کا ہی ڈیٹا اپنے پاس رکھتی ہے۔ آر ٹی آئی میں سال 1978 میں بی اے کرنے والے تمام طلبا و طالبات کا ریکارڈ مانگا گیا تھا۔ کھوج لگانے پر معلوم ہوا ہے کہ جس سال نریندر مودی نے بی اے کی ڈگری حاصل کی اس سال کالج کا پورا ریکارڈ ہی غائب ہے۔ دہلی یونیورسٹی اسکول کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1978 اپنا جو بھی ڈیٹا مرتب کیا تھا وہ ایک سال کے بعد ضائع ہوگیا تھا۔
دہلی یونیورسٹی اسکول آف اوپن لرننگ کی جانب سے جاری بیان کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بی اے کی جعلی ڈگری کے معاملے نے نیا رخ اختیار کرلیا۔ادھر 1978 میں ہی بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والے دو افراد نے کالج سے اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لئے درخواستیں جمع کرائیں جن پر ڈین امتحانات، او ایس ڈی امتحانات اور جوائنٹ رجسٹرار امتحان نے اپنے دستخطوں کے ساتھ جواب دیا کہ ان کے پاس ریکارڈ موجود نہیں جب کہ حال ہی میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے یونیورسٹی کو ہدایت کی تھی کہ 1978 میں کامیاب ہونے والے تمام طلبہ و طالبات کا نام، والد کا نام، رول نمبر اور حاصل کردہ نمبروں سے متعلق معلوما ت بغیر کسی معاوضے کے طالبعلموں کو فراہم کی جائیں۔
بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں جاری کر دی ہیں اور دلی کے وزیرِ اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نریندر مودی سے ان کی ڈگریوں کو جعلی قرار دینے کے لیے معافی مانگیں۔ لیکن عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے اس دعویٰ کا اعادہ کیا ہے کہ یہ ڈگریاں جعلی ہیں۔
پارٹی کے صدر امیت شاہ نے کہا کہ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے وزیر اعظم کی ڈگریوں کے بارے میں بے بنیاد افواہیں پھیلا رکھی تھیں۔ انھوں نے مودی کی ڈگریاں پریس کے لیے جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے گریجویشن دلی یونیورسٹی سے اور اور ایم اے گجرات یونیورسٹی سے کیا۔ ایم اے انھوں نے سیاسیات میں کیا تھا۔ یہ تعلیم انھوں نے مراسلاتی کورس کے طور پر حاصل کی تھی۔ڈگریوں کے ساتھ ساتھ ان کی مار ک شیٹس بھی جاری کی گئی ہیں۔ کیجریوال نے پوری دنیا میں ملک کی بدنامی کی ہے۔ ‘اب وہ اس کے لیے پورے ملک سے معافی مانگیں۔انھوں نے ڈگریاں جعلی ہونے کا الزام لگایا تھا۔ انھیں اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔
عام آدمی پارٹی نے امیت شاہ کے دعوے کو مسترد کر دیا اور کہا کہ جو ڈگریاں اور مارکس شیٹ آج جاری کی گئی ہیں ان میں نام اور سنہ کا فرق ہے۔ پارٹی کے رہنما آشوتوش نے کہا کہ ‘وزیرِ اعطم بننے کے لیے باضابطہ تعلیمی لیاقت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وزیر اعظم نے بی اے اور ایم اے نہیں کیا ہے تو انھیں اس کے بارے میں مان لینا چاہیے۔ یہ ڈگریاں فرضی ہیں۔’ وزیر اعظم کی بی اے کی جو مارکس شیٹ جاری کی گئی ہیں اس میں انھیں ایک بار پاس اور ایک بار فیل دکھایا گیا ہے۔
ہندوستان میں ایم پی اور ایم ایل اے بننے کے لیے کسی قسم کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایم پی اور ایم ایل اے اپنے انتخابی حلف نامے میں فرضی ڈگری پیش کریں تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ اسی طرح کے خدشات اور شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔فرضی ڈگری پیش کرنے کا مطلب ہے کہ امیدوار نے غلط معلومات دے کررائے دہندگان کو گمراہ کیا ہے۔ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 191 کے مطابق یہ قابل سزا جرم ہے۔ رکنیت کی منسوخی کا بھی امکان ہے۔
عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ایک وزیر اعظم کے لیے تعلیم یافتہ ہونا کیوں ضروری ہے؟ ایم پی اور ایم ایل اے کی تعلیمی استعداد کے بارے میں ہندوستان کے آئین سے اخذ کردہ مفاہیم کیا ہیں؟ تعلیم سے بڑھ کر وہ کون سے معیارات ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنے لیڈروں کو پرکھنا چاہیے؟عام آدمی پارٹی کے رہنما اپنی ڈگریاں دکھا رہے تھے اور چیلنج کر رہے تھے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنی ڈگریاں دکھائیں۔ یہیں پر معاملہ اس حد تک گرم ہو گیا کہ اب ملک کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری جعلی تو نہیں ہے؟
سال 2014 میں الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اپنے حلف نامہ میں نریندر مودی نے پہلی بار قبول کیا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ 2014 سے پہلے لڑے گئے گجرات اسمبلی انتخابات میں نریندر مودی نے اپنے حلف نامے میں شادی شدہ ہونے کی بات کا کبھی اعتراف نہیں کیا تھا۔ یہی چیز لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔ لوگوں کو لگا کہ جو شخص اپنی شادی کے بارے میں غلط معلومات دے سکتا ہے وہ اپنے بارے میں بھی غلط جانکاری دے سکتا ہے۔ یہیں سے یہ شک بھی جنم لینے لگا کہ کیا نریندر مودی کی دی گئی دیگر معلومات درست ہیں؟
٭٭٭