... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک بھر میں آٹے کی تقسیم کے وقت مختلف مقامات پر بہت سی انسانی جانیں ضائع ہوئی ہم لوگ جب عمرہ یا حج کرنے سعودی عرب جاتے ہیں تو وہاں پر بھی ہمارے بھائیوں کی اکثریت کسی نہ کسی لائن میںلگی ہوئی نظر آتی ہے۔ اکثر مقامات پر لنگر ختم ہونے کے بعد بھی لائن میں کھڑے رہتے ہیں کہ شاید کوئی بریانی کا پیکٹ مل جائے اور پاکستان میں تو مفت آٹا مل رہا تھا تو پھر ہم اسکے حصول میں پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں ۔ ہم تو رمضان المبارک میں موقع ملنے پر افطاری بھی وقت سے پہلے کرلیتے ہیں اور شریف روز دار صرف منہ دیکھتے رہتے ہیں ان سب معاملات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے، جہاں کی بیشتر آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے لوگوں کو اپنی محدود آمدنی سے اپنی زندگی کے معاملات چلانا پڑتے ہیںبالخصوص ملازمت پیشہ افراد کو گھر چلانے میں کافی تگ ودود کرنی پڑتی ہے۔ مہنگائی نے غریب آدمی کے روز مرہ کے معمولات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں اس سے غریب آدمی کی قوت خرید بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے اور اسے زندگی کے ساتھ رشتہ برقراررکھنا مشکل ہورہا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے عناصر موجود ہیں جو ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے ذریعے غریب طبقہ کا استحصال کرتے ہیں۔ معاشرے کے یہ ناسور اپنے مادی فائدے کے لئے جو غیر قانونی کام کرتے ہیں ان کی بیخ کنی نہایت ضروری ہے۔ اس لیے حکومت اور انتظامیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اشیاء کی مصنوعی قلت،مہنگائی،ذخیرہ اندوزی،ناجائز منافع خوروی،بلیک مارکیٹنگ،ملاوٹ اور کم تولنے کی رحجان کا سختی سے محاسبہ کرے اور ایسے اقدامات کرے کہ اشیائے صرف عام آدمی کی قوت خرید سے باہر نہ ہوں بلکہ یہ وافر مقدار میںمناسب نرخوں پر مارکیٹ میں دستیاب ہوں۔ دکانداروں کے جائز منافع کی شرح کا تعین کرنے،اشیاء کی قیمتوں کا اتار چڑھائو دیکھنے اور ان کی قیمتیں مقرر کرنے کے علاوہ طلب ورسد کے مطابق اشیاء کی سپلائی کو برقرار رکھنے کے لیے تحصیل،ضلع،ڈویژنل اور صوبائی سطح پرپرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ فوڈ شف کنٹرول ایکٹ کے تحت ڈپٹی کمشنر کو اختیار ہے کہ وہ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرے اور اگر کوئی دکاندار اس کی خلاف ورزی یا نا جائزہ منافع خوری،ذخیرہ ندوزی یا اشیاء کی مصنوعی قلت کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے دکاندار کے لیے لازم ہے کہ وہ اشیاء کی قیمتوں کی فہرستیں نمایاں طور پر آویزاں کریں تاکہ صارفین کو اشیاء خریدنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ قانون کے مطابق ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹی ساٹھ سے زائدہ اشیاء ضروریہ جن میں دالیں،سبزیاں، پھل،گھی، آٹا، چاول،دودھ،دہی وغیرہ وغیرہ کی قیمتیں مقرر کر سکتی ہیں۔ من مانی قیمتیں وصول کرنے والوں کو پابند سلاسل کرنے کی بھی مجاز ہے۔
میں نے شروع میں آٹے کے حوالہ سے بات کی تو اس حوالہ سے بتاتا چلوں کہ نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی جو شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اورانہیں عام آدمی کی تکالیف کا مکمل ادراک بھی ہے اوریہی وجہ ہے کہ انہوں نے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑے رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ 53ارب روپے کے خصوصی رمضان ریلیف پیکیج کے تحت مفت آٹے کی فراہمی کے انقلابی پروگرام شروع کردیا ہے، خصوصی رمضان ریلیف پیکیج کے تحت60ہزار روپے سے کم آمدن والے خاندانوں کو آٹے کے تھیلے مفت دیے جارہے ہیں۔ ایک خاندان رمضان المبارک کے دوران شناختی کارڈ کے ذریعے 10 کلو آٹے کے 3 تھیلے فری لے سکے گا۔تقریباً ایک کروڑ 58 لاکھ خاندان اور 10 کروڑ افراد مفت آٹے کے پیکیج سے مستفید ہوں گے۔ مفت آٹے کے پیکیج سے تقریباً پنجاب کی 90فیصد آبادی مستفید ہوسکے گی رش اور ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیے پنجاب حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ مخصوص کریانہ سٹورز، ٹرکنگ پوائنٹس اور یوٹیلٹی سٹورز پر مفت آٹا دستیاب ہوگا خصوصی رمضان ریلیف پیکیج کے تحت مفت آٹے کی فراہمی کا آغاز 25شعبان سے کر دیا گیا ہے جو 25رمضان المبارک تک جاری رہے گا۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے خصوصی رمضان ریلیف پیکیج کے تحت مفت آٹے کی فراہمی کیلئے سافٹ ویئربھی تیار کرکیاہے جس کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر ڈ گھرانے مفت آٹے کا خصوصی پیکیج لے سکیں گے جبکہ غیر رجسٹرڈ اہل خاندان بھی فون کے ذریعے رجسٹریشن کرا کر مفت آٹا حاصل کرسکتے ہیں۔ پنجاب بھر میں مفت آٹے کی فراہمی کے لیے پنجاب حکومت نے ہزاروں سنٹرز قائم کردیے ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ رش کی صورت میں تحمل کا مظاہرہ کریں بے جا دھکم پیل اور شور شرابے سے ماحول خراب اور پھر خونی بھی ہوسکتا ہے ۔اس لیے مفت آٹے کی فراہمی والے سینٹرز پر مسائل بھی سامنے آرہے ہیں اور پنجاب حکومت انہیں فوری طور پر حل کرنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔ اس سلسلہ میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی مختلف شہروں میںجاکر مفت آٹے فراہمی سنٹرز کا دورہ کرکے شہریوں کی شکایات سننے کے بعد انہیںموقع پر ہی حل کروا رہے ہیں جبکہ کچھ مقامات پر آٹے کا تھیلا لینے کے لیے ایک روزبعد کا وقت دینے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا یہ رویہ کسی صورت قابل قبول نہیںاورسینٹرپر موجود مرد وخواتین کوتصدیق کے بعد فوری آٹا فراہم کرنے کی ہدایت کی پنجاب حکومت نے اس مرتبہ رمضان بازار لگانے کی بجائے عوام کو مفت آٹے کی فراہمی کے ذریعے براہ راست ریلیف فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے رمضان بازار لگانے سے ٹھیکیدار مافیا کی جیبیں گرم ہوتی تھیں۔ رمضان بازار کے انعقاد پر ٹینٹوں،فرنیچر،پنکھوں،واک تھروگیٹس کی تنصیب پر لاکھوں روپے ضائع ہو جاتے تھے ۔حکومت نے فیصلہ کیا اس پیسے کو بچا کر عوام کو مزید ریلیف فراہم کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان ریلیف پیکیج بڑا پرکشش اور شاندار ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر ایماندار اور خلوص نیت سے عملدرآمد کیا جائے تاکہ عوام کی سہولت کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔