... loading ...
عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں ہمیں بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی برا سلوک ہو رہا ہے ، ہمیں وہ انعام اور اعزاز نہیں مل رہا، جس کے ہم حقدار ہیں، ہمیں دھکے دیے جارہے ہیں، لوگ ہمیں پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ ہم محض بے کار اور کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتے ۔ ایک مقرر نے ہال میں تقریر کرنے سے پہلے اپنے پرس سے ایک ہزار کا نوٹ نکالا، اس نے نوٹ کو لہراتے ہوئے اپنے سامعین سے سوال کیا ، یہ کیا ہے ؟ ایک ہزار کا نوٹ۔ ہال سے کئی آوازیں ابھریں، اس نے سوال کیا کہ کیا اس کی کوئی قدر و قیمت ہے ۔ سب نے جواب دیا ۔ ہاں، بازار میں اس سے ہزار روپے مالیت کی چیزیں خریدی جاسکتی ہیں۔ مقرر نے اس ہزار کے نوٹ کو ہاتھوں سے مل دیا، مڑ اتڑا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا، اور وہ پوچھ رہا تھا کہ کیا اب بھی اس کی کوئی قیمت ہے ۔ سب نے جواب دیا ۔ ہاں اس کی قیمت ایک ہزار روپے ہی ہے ، مقرر نے وہ مڑا تڑا نوٹ زمین پر گرا دیا اور اس پر اپنے جوتے سے کئی ضرب لگائیں ، اور پھر پوچھا کیا اب بھی اس کی کوئی قدر و قیمت ہے ۔ لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ہزار روپے کا نوٹ ہے ، اور اس کی وہی قدر و قیمت ہے ۔ اب مقرر نے کہنا شروع کیاَ” دوستو میں نے اس نوٹ کو حلیہ بگاڑ دیا، اسے موڑ توڑ کر رکھ دیا، اسے مسل دیا، اس پر جوتے سے کچوکے لگا دیے ، لیکن یہ پھر بھی اپنی قدر و قیمت رکھتا ہے ، اس بدسلوکی نے اس کی قدر و قیمت کو نہیں گھٹایا، وہ تو وہی رہی، جو پہلے تھی، اس نے ایک گہری سانس لی، اور کہا زندگی میں ہمیں یہی لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے ، اس میں ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ لیکن آپ کی جو قیمت ہے ، اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
عمران خان کو بھی نہیں بھولنا چاہیے ، کہ اس کے ساتھ جو بد سلوکی ہو رہی ہے ، اسے عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے ، اسے پنجرے میں قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس پر الزامات گھڑے جا رہے ہیں، اسے ڈرایا جارہا ہے ، اس کی جان لینے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، اس کا راستہ روکا جا رہا ہے تو اس سے عمران خان کی قدر و قیمت پر کوئی فرق نہیں پڑا، وہ ایک ہیرے کی قیمت رکھتا ہے ، اور وہ ایک ہیرا ہی ہے ، جسے جتنا چاہے کیچڑ اور گندگی میں دھکیل دو، لیکن ذرا سا پانی، اسے صاف و شفاف ہیرے کی مانند جگمگ جگمگ کرتا، لشکارے مارتا، سامنے لے آئے گا۔
آج پی ڈی ایم کی حکومت کو پورا ایک سال ہوگیا ہے ، جو پی ٹی آئی کی حکومت کو مورد الزام ٹہراتے تھے ،، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے ،اب وہ ووٹ کے ڈبوں سے خوفزدہ ہیں، انھوں نے ایک سال میں جو تباہی پھیری ہے ، معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے ، عوام کو بھوک، مہنگائی، گیس بجلی سے محرومی کا جو تحفہ دیا ہے ، آٹے پر لائنیں لگوائی ہیں، پیٹرول کی کمائی سے اللے تللے کر رہے ہیں، تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ وزیروں مشیروں کی فوج لیے بیٹھے ہیں، آئین جو اس ملک کو جوڑے ہوئے ہیں، اب اس آئین کے درپے ہیں، یہ اعزاز مسلم لیگ کو سزاوار ہے کہ اس نے اپنے ہر دور حکومت میں اداروں سے جنگ کی ہے ، کبھی فوج سے کبھی عدلیہ سے ، آج بھی پارلیمنٹ کو عدلیہ کے سامنے کھڑا کردیا ہے ۔آج سے ٹھیک ایک سال پہلے ، نو اپریل 2022 کو جس طرح عمران خان کی حکومت کو ختم کیا گیا ، رات کو عدالت کے دروازے کھولے گئے ، مارشل لاء آنے کا ڈراوا دیا گیا ، وہ پوری قوم کے لیے ایک ڈروانا خواب ہے ، اگر عمران خان کو اس طرح میدان سے باہر نہ کیا گیا ہوتا تو عوام آنے والے انتخاب میں اس کے بارے میں خود فیصلہ کر دیتے ۔ آرمی چیف کی تعیناتی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر پورے ملک اور قوم کو جس آزمائش سے دوچار کیا گیا ہے ، اس کا نتیجہ ہے کہ آج چیف جسٹس سے استعفیٰ کا غیر آئینی مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت معاشی میدان میں بہتری اور نئے انتخابات کرانے کے لیے وجود میں آئی تھی، اس کی نااہلی کی اس سے زیادہ بدترین مثال کیا ہوگی کہ آج ایک سال بعد بھی یہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ڈالر کی اڑان اونچی ہورہی ہے ، ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے ۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی ، اور خیبرپختونخوا کی اسمبلی تحلیل ہوئے ، مدت گزر گئی لیکن 90 روز میں انتخابات کا انعقاد اب بھی جنرل ضیا کے وعدے کی طرح حقیقت سے بہت دور ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ 2023 ملک میں عام انتخابات کا سال ہے ۔ لیکن اب جس طرح سے قبائلی علاقوں میں آپریشن کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ انتخابات کے بجائے ملک میں نئے سرے سے خون خرابے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے ، تاکہ عوام کی توجہ انتخابات سے ہٹ جائے ۔ حکمران اتحاد کی پالیسیوں نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے ، اب حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کی بنیاد پر وہ ووٹرز کا سامنا کر سکے ۔ اس ملک میں بار بار تجربات کرنے اور من پسندیدہ نتائج کی متمنی نادیدہ قوتوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخابات میں عمران خان کو کامیابی ملے گی ۔ ان قوتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ عوام کو اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے دیں۔مسلم لیگ نے اپنا ووٹ بینک اپنی حماقت سے کھو دیا ہے ۔عدلیہ سے تازہ محاذ آرائی اسے آئندہ چل کر بہت مہنگی پڑے گی۔
پاکستان میں ایک جماعت اسلامی سے عوام کو بہت امیدیں ہیں، لیکن جماعت اسلامی کو ٹیک آف کرنے کے لیے جس حکمت عملی، ویژن، کشا کش ،اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تھا، وہ اس سے دور ہے ، یا اسے جان بوجھ کر دور رکھا جارہا ہے ، ایک بہترین پروڈکٹ، دیانت دار اور امانت دار قیادت کے ہوتے ہوئے ، جماعت اسلامی کوئی واضح اور دو ٹوک موقف اپنانے اور اپنے سیاسی قوت کو میدان میں لانے سے قاصر رہی ہے ۔اس کی اس پالیسی کا فائدہ، پیپلزپارٹی، پی ڈی ایم کو ہوا ہے ، وہ پی ٹی آئی، اور پی ڈی ایم دونوں کو ایک ہی سانس میں ناکام کہتے ہیں۔ لیکن ایک حکومت میں ہے اور دوسری اپوزیشن میں ۔ دونوں میں واضح فرق ہے ، ایک اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی ہے ، اور دوسری اس سے نبرد آزما۔ انھیں اپنا وزن سوچ سمجھ کر کسی پلڑے میں ڈالنا چاہئے ۔ زلزلہ سیلاب ،آفات میں عوام کی مدداور خدمت نے عوام کا جماعت سے تعارف تو کرایا ہے ، لیکن اسے ووٹوں میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہے ،جماعت اسلامی ضرورکسی سے اتحاد کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم، اپنے جھنڈے اور اپنے نشان ترازو پر الیکشن میں لڑے لیکن اسے سیاسی حکمت عملی اور مقامی سطح پر”لو اور دو “کے اصول پر کسی نہ کسی کا تو ساتھ دینا ہوگا۔
٭٭٭