... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے 14 مئی کو صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد کیا واقعی مقررہ تاریخ پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوجائیں گے ؟یا اس عدالتی فیصلہ کی بدولت واقعی عمران خان تخت پنجاب کو ایک بار پھر سے حاصل کرلیں گے؟اور سب سے بڑھ کر مذکورہ عدالتی جنگ میں شریک کون سا فریق اِس وقت کس پوزیشن پر ہے ۔اس بارے میں ایک بھولی بسری کہانی یاد آئی ہے کہ کسی جنگل میں شیر بیمار ہو گیا ۔موذی بخار اور خارش کے مرض نے اِسے اِس حد تک پریشان اور لاچار کردیا کہ شیر اپنی کچھار سے نکل کر شکار کرنے کے بھی قابل نہ رہا۔ یوں شیر کے طفیلی درندے جن کا گزار افقط شیر کے کیے ہوئے شکار پر تھا،وہ بھی بھوک سے مرنے لگے ۔ایک چالاک لومڑی جس کی خوراک کا سارا دارومدار شیر کے بچے کھچے پر تھا۔ بھوک سے بے حال ہوکر شیر کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شیر کی مزاج پرسی کے بعد اپنی شدید بھوک کا اظہار کیا۔لومڑی کی آہ و بکا سُن کر شیر نے کہا مجھے سب کی فکر ہے ، لیکن کیا کروں بیماری کے ہاتھوں مجبور ہوں اور کمزور اتنا ہوگیا ہوں کہ ہل کر ایک مکھی بھی شکار نہیں کرسکتا۔ حکیمو ں نے میری مرض کا علاج گدھے کے کان اور اس کا دل تجویز کیا ہے۔ میں سوچ رہاہوںکہ اِن چیزوں کو کیسے حاصل کروں ۔ لومڑی نے کہا’’ اے !جنگل کے سابق جہاں پناہ، اَب جب کہ آپ کی نااہلی کے باعث آپ کے اپنے ہی بھائی بندوں کی جانب آپ کو جنگل کے اقتدار سے علحیدہ کیا جاچکاہے توایسی حالت میںآپ کا گھر سے باہر قدم رکھنا نامناسب ہے ۔کیونکہ اگر آپ کے دشمنوں کو آپ کی بیماری اور ناتوانی کا پتا چل گیا تووہ آپ کو گرفتار کر کے مار دیںگے تاکہ جو کاروبار مملکت انہوں نے آپ سے حاصل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن کے ہی پاس رہے۔ لہٰذا، آپ کی وفادار نے سوچا ہے کہ اِس جنگل کے نزدیک ایک چشمے پر ایک دھوبی کپڑے دھونے آتا ہے اس کے پاس ایک گدھا ہے ،میں اِسے کسی تدبیر سے آپ کے پاس لاتی ہوں ۔آپ اِسے شکار کرکے اس کے کان اور دل کو اپنے کام میں لائیں ،تاکہ صحت مند ہوکر جنگل کا اقتدار دوبارہ سے حاصل کرپائیں ۔شیرنے لومڑی کی وفاداری کو خوب سراہا اور جنگل کا اقتدار واپس ملنے کے بعد اسے اپنا نائب بنانے کی نوید سنائی ۔
پس ! لومڑی شیر کی اجازت سے چشمے پر گئی اور وہاں موجود گدھے کو دور سے ہی دیکھ کر اس کی تعریفیں کرنے لگی اور آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور اس کا دکھ درد پوچھنے لگی ۔ مصیبت زدہ گدھے نے جب اِسے مہربان دیکھا تو اپنے درد ِدل بیان کرنے لگا کہ دھوبی مجھ سے ہمیشہ بہت زیادہ کام لیتا ہے ،لیکن میرے چارے کا کچھ انتظام نہیں کرتا۔ لومڑی نے کہا اے بے وقوف جب تیرے پاؤں میں چلنے کی طاقت ہے تو کیوں اِس مصیبت میں پڑا ہے۔ گدھے نے کہا کہ میں بوجھ اُٹھانے میں بہت مشہور ہوں ،جہاں بھی جاؤں گا مجھ سے یہ ہی کام لیا جائے گا۔ صرف اکیلا میں ہی نہیں میری ساری قوم اِس عذاب میں گرفتار ہے ۔ دل میں سوچا ہے کہ جب یہ ہی کچھ مقدر ہے تو دربدر ،ذلت اُٹھانے سے دھوبی کا گھاٹ ہی ذلیل و رسوا ہونے کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ لومڑی نے کہا تو نے بالکل غلط سوچا ہے ۔خدا کی زمین بہت وسیع ہے اور دنیا بہت بڑی ہے،اگر ایک جگہ رزق اور آزادی کی تنگی ہے تو کشائش کے لیے کہیں اور چلے جانا چاہیے۔ گدھے نے کہا کوئی کہیں بھی چلاجائے لیکن جو مقرر ہوچکا ہے اس سے زیادہ نہ ملے گا۔ پس! زیادہ کا لالچ کرنا اور سفر کی تکلیف اُٹھانا عقل مندی نہیں ہے۔ لومڑی نے کہا اگر تو راضی ہو تو میں تمہیں ایسے سرسبز چراگاہ میں لے جاؤں ،جہاں گھاس بہت اور پانی خوش ذائقہ ہے ۔ تم سے پہلے ایک گدھے کو وہاں لے گئی تھی ،اب وہ وہاں بغیر کسی مشقت اور کام کاج کے چین سے چرتا چگتا پھرتا ہے اور خوب موٹا تازہ ہوگیا ہے۔
قصہ کوتاہ ،چالاک لومڑی اپنی پُر فریب باتوں میں لگا کر گدھے کو شیر کے پاس لے آتی ہے اور کئی دنوں کا بھوکا شیر بغیر اسے اچھی طرح اپنے قابو میں لائے گدھے پر حملہ کردیتاہے ۔شیر کچھ بیماری اور کچھ بھوک کے باعث کمزور تو پہلے ہی تھا ،لہٰذا، گدھا زخمی ہونے کے باوجود بھی اِس کے پنجوں سے چُھوٹ کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ لومڑی ،جنگل کے سابقہ بادشاہ ،شیر کی کمزوری پر حیران ہوکر شیر کو ملامت کرنے لگی کہ اسے اچھی طرح قابو میں لاکر اپناکام کرنا تھا اور جلدبازی ہرگز نہیں کرنی چاہیے تھی۔ شیر نے کہا، اس بات کو چھوڑ اور کسی تدبیر سے اُس گدھے کو دوبارہ یہاں لے آ، اس سے تیری خلوص نیت کا اظہار ہوگا اور رتبہ بھی بڑھے گا۔شیر کی یقین دہانی کے بعد لومڑی پھر گدھے کے پاس آئی ۔گدھے نے اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا اور لگا اُسے زور زور سے گالیاں بکنے اور کہا کہ کیا تو مجھے ایک بار پھر شیر کے پنجے میں پھنسانا چاہتی ہے؟لومڑی نے کہا ۔ اے بے وقوف تو نے یہ بات سوچ بھی کیسے لی کہ میں تیری جان کی دشمن ہوں ۔ارے گدھے! ذرااپنا دماغ استعمال کرکے سوچ اگر وہ واقعی شیر ہوتا تو اس کے پنجوں سے تو بچ کر بھاگ سکتاتھا۔ اے کم عقل وہ ایک طلسم ہے جسے جنگل کی حفاظت کے لیے بطور حصار بنایا گیا تاکہ وہاں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا جانور آکر اُس حسین سبزہ زار کو پامال نہ کرسکے ۔ میں تو صرف دوستی کے خیال سے اس حقیقت کو بتلارہی ہوں کہ وہاں موجود شیر سوائے نظر کے دھوکے کے اور کچھ بھی تو نہیںہے ۔ میں تو پہلے ہی چاہتی تھی کہ تمہیں اس راز سے آگاہ کردوں مگر اِدھر اُدھر کی باتوں میں تجھے یہ اہم ترین بات بتانا بھول گئی۔ ورنہ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔تو ایک بار پھر سے میرے ساتھ اُس خوب صورت چراگاہ میں چل تاکہ تجھے ساری حقیقت احوال معلوم ہوجائے۔
غرض چالاک لومڑی اپنی فریب سازی اور چکنی چپڑی باتوں میں بہلا پھسلا کر گدھے کو دوبارہ جنگل میں لے آئی اور اُسے جنگل کے کنارے کھڑا کرکے خود شیر کے پاس آئی اور شیر کو خوش خبری سنائی تمہاری وفادار گدھا کو لے آئی ہے اور اَب آپ بالکل چپ چاپ دم سادھے ایک کونے میں خاموشی کے کھڑے رہیں ،چاہے گدھا آس پاس پھرے ۔جب تک سب کچھ آپ کے قابو میں نہ آجائے اس کی طرف نہ دیکھیں ۔ شیر کو سمجھانے کے بعد لومڑی گدھے کے پاس جاکر کہنے لگی ۔آؤ ذرا طلسم کو اپنی آنکھوں سے اچھی طرح ملاحظہ کرو۔ تاکہ تجھے یقین ہوجائے کہ تم نے میرے متعلق جو پہلے بدگمانی کی تھی وہ سراسر غلط تھی ۔ گدھا آہستہ آہستہ شیر کے نزدیک گیا اور خوب غور سے اُسے دیکھا ۔جب کافی دیر تک شیر میں حرکت یا زندگی کی کوئی نشانی نہ دیکھی تو پھر گدھا بے فکر ہوکر اِدھر اُدھر پھرنے لگا اور گھاس چرنے لگ گیا۔ جب گدھے کا پیٹ بھر گیا تو نرم نرم گھاس پر سوگیا۔ شیر گدھے کو غافل پاکر جھپٹا اور چند لمحوں میں ہی اُسے چیڑ پھاڑ ڈالا۔ پھر شیر لومڑی سے کہنے لگا تو یہاں ٹہر میں ندی سے نہا آؤں ،پھر اس کے کان اور دل کھاؤںگا ،جو میری بیماری کا علاج ہے۔ یہ کہہ کر شیر ندی کی طرف چلا گیا اور لومڑی نے موقع پاتے ہی گدھے کے کان اور دل کھالیے ۔جب شیر واپس آیا کان او ر دل بہت ڈھونڈے لیکن نہیں ملے۔ آخر لومڑی سے دریافت کیا کہ اس گدھے کے کان اور دل جو میری بیماری کی دوا ہیں کہاں گئے ۔لومڑی نے جواب دیا حضور اس گدھے کے پاس نہ ہی کان تھے اور نہ دل تھا۔ کیونکہ اگر دل جو عقل کی جگہ ہے اس کے پاس ہوتا تو گدھا پہلی بار ہی میری باتوں میں آکر یہاں تک نہ آتا اور اگر اس کے کان ہوتے تو وہ حضور کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعددوبارہ سے تو میری جھوٹی رام کہانی بالکل بھی نہ سنتا۔اگر مذکورہ کہانی کا اختتام بالکل درست ہوا ہے تو پھر خاطر جمع رکھیئے کہ ہماری سیاست کے خودساختہ شیر کو بھی اپنی سیاسی صحت یابی پانے کے لیے کان اور دل دستیاب نہیں ہونے والے۔
٭٭٭٭٭٭٭