وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کے چین سے غیر محتاط تعلقات

بدھ 05 اپریل 2023 پاکستان کے چین سے غیر محتاط تعلقات

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ رہا ہے یہ دوستی صر ف دونوں ممالک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں طرف کی عوام میں بھی ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی کا جذبہ ہے لیکن پاکستان کو محض کمائی کا ذریعہ بنانے کی وجہ سے اہلِ نظربے چین ہیں اور پاکستان کو چین سے تعلقات میں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ پا کستان کااِس حد تک جھکائو چین کی طرف ہے کہ وہ اِس کے لیے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہے۔جس کی مثال ابھی حال ہی میں دعوت کے باجود امریکہ میں جمہوریت کے حوالے سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکارہے۔ چین و امریکہ تعلقات میں سرد مہری کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ اپنے دوست ملک کی ناراضگی سے بچنے کے لیے پاکستان عالمی کانفرنس میں شرکت سے اجتناب کررہاہے مگر کیا چین کی طرف سے پاکستان پر نوازشات ہورہی ہیں؟افسوس کہ اِس سوال کے جواب میں ہاں کہنا غلط ہوگا بلکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان چینی مال کی منڈی بنتا جارہا ہے۔ یوں چین تو ہر حوالے سے فائدے میں ہے لیکن پاکستان کی صنعتی وزرعی حالت مزید پتلی ہوتی جارہی ہے مگر حکومت اور عوام دونوں ہی خطرناک صورتحال کا ادراک نہیں کررہے بلکہ چین پر صدقے واری ہورہے ہیں جس کی بناپر خدشہ ہے کہ پاکستان بھی سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ سری لنکا کو دیوالیہ بنانے میں مہنگے چینی قرضوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
رواں ہفتے دونوں ممالک نے تین اپریل سے درہ خنجراب کے راستے چاربرس سے معطل تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیاہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری فریم ورک کے تحت نومبر2016 سے یہ شاہراہ ہربرس یکم اپریل سے تیس نومبر تک تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولی جاتی رہی مگراِس راستے سے تجارتی سرگرمیاں 2019 میں کرونا وبا پھوٹنے کے باعث بند کردی گئیں تھیں لیکن سفری سہولتوں کی بندش کے باوجود ٹرالرز کے ذریعے سامان آتا اور جاتا رہا۔ اب دونوں ممالک میں اِس گزرگاہ کے ذریعے ایک بار پھر آمدورفت شروع ہونے والی ہے جن کے بارے قیاس ہے کہ رمضان کی بناپر باقاعدہ شروع ہونے والی سرگرمیاں عید کے بعد زور پکڑیں گی لیکن انتظامی اور سیکورٹی سمیت دیگر متعلقہ امور مکمل کرنے کا کام دونوں طرف زورو شور سے جاری ہے۔ اور تجارت کی بحالی کے فیصلے کے ساتھ ہی تاجروں نے سرحد پارآنے اورجانے کی عرضیاں جمع کرانا شروع کر دی ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے بزنس چیمبرز نے تاجروں کو تجارت سے متعلق ضروری کاغذات جمع کرانے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سرحدی آمدورفت کے ذریعے تجارتی سرگرمیوں میں گلگت بلتستان کے تین لاکھ سے زائد خاندان حصہ لیتے ہیں جومقامی آبادی ستر فیصدکے قریب ہے چین سے سستاسامان لاکریہ پاکستان میں فروخت کرتے ہیں مگر یہاں سے بہت کم سامان چین لے جایا جاتا ہے۔ چین سے لائے جانے والے سامان میں ایسی اشیا بھی عام ہوتی ہیں جو پاکستان میں بھی تیار ہوتی ہیں لیکن قدرے مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی چینی مصنوعات خریدنے کو ترجیح دیتا ہے۔ گلگت
بلتستان کے علاقے چینی سامان کی منڈی بن چکے ہیں جس سے تجارتی توازن مکمل طورپر چین کے حق میں ہے لیکن پاکستان دوستی سے مجبور ہوکر کسی قسم کی قدغن لگانے یا اپنے مفاد کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے جو طریقہ کارپاکستان کی صنعتوں کو تباہ کرنے کا موجب بنتاجارہاہے۔ کیونکہ یہاں کے تیار مال کے مقامی طور پر بھی خریدار وں میں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر کارخانے بند ہوں گے تو برآمدی سامان بھی تیار نہیں ہوگا۔ اب بھی پیداواری عمل تشویشناک حد تک کم ہونے سے برآمدات سکڑ رہی ہیں ۔
پاکستان کے لیے خطے میں چین کا طرفدار ہونا ضروری ہے لیکن دوستی میںپورا ملک ہی ٹھیکے پر دینے جیسی دنیا میں اور کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ سی پیک جیسے تجارتی اور دفاعی منصوبے کے عنوان سے چین نے پاکستان میںا ربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری شروع کررکھی ہے جس کا بظاہرمقصد شاہراہوں ،ریل،بندرگاہوں کی بہتری کے ساتھ صنعت و زراعت کو ترقی دینا ہے۔ توانائی جیسے اہم منصوبوں پر بھی سرمایہ لگایا جا رہا ہے جس پر پاکستان کے حکمران اور عوام دونوں بہت خوش ہیں اور سی پیک کو چین کی فیاضی تصورکرتے ہیں لیکن کیاعملی طورپر واقعی ایسا ہے؟ ایسا سوچنا یا کہنابالکل غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں ریل سمیت شاہراہوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ نیز گوادر بندرگاہ کو فعال بنانا اور توانائی کی قلت دور کرنابھی ضروری ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ریل اور شاہراہوں کے ذریعے سامان کی نقل و حرکت کو بہتر بنانا چین کی اپنی مجبوری ہے گوادربندرگاہ بھی اُس کی ضرورت ہے مگر تعلقات میں گرمجوشی رکھنے کے لیے پاکستان اِتنا غیر محتاط ہے کہ چینی ضرروت کوبھی قرضوں کی صورت میں اپنے لیے بوجھ بڑھا رہا ہے ۔حالانکہ اگر چین نے سامانِ تجارت بھجوانا ہے تو محصولات کی مد میں کچھ ادائیگی کی طرف لانا چاہیے قبل ازیں امریکا کو اڈے اور فضائی حدودمفت فراہم کرنے کی غلطی کی جاچکی جبکہ وسط ایشیائی ریاستوں نے اس کے عوض نہ صرف مراعات لیں بلکہ محصولات کی مدمیں اربوں ڈالربھی وصول کیے۔ اب پاکستان دوبارہ وہی غلطی دُہرارہا ہے۔ گوادر بندرگاہ، ریل اور شاہراہوں کی بحالی سمیت توانائی کے منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کوانتہائی مہنگے داموں قرضوں کی صورت میں تسلیم کرتاجارہا ہے۔ اب تو چین نے قرضوں پر گارنٹی کی مد میں بھی سود وصول کر نا شروع کر دیا ہے جس سے خدشہ ہے کہ صنعت و زراعت بہتر بنانے جیسے منصوبوں سے تو شاید ہی ملک و قوم کا بھلا ہو، البتہ پاکستان پر نہ صرف قرض کا پہاڑ مزیدبلندہو گا بلکہ پاکستان صرف چینی سامان کی منڈی بن کررہ جائے گا ۔ایسا ہی ہاتھ چین نے سری لنکا کے ساتھ بھی کیا جس کا انجام دیوالیہ کی صورت میں سامنے آیا، اب میانمار پر بھی ایسی ہی نوازشات جاری ہیں۔ صرف نیپال اور بنگلہ دیش نے قرض لیتے ہوئے احتیاط کی ہے جس کی وجہ سے وہاں کچھ بہتری کے آثارہیں ۔
ہماری معیشت اور قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت روزبروز کمزور ہورہی ہے۔ یہ حقیقت قرض دینے والے عالمی ممالک سے ڈھکی چھپی نہیں رہی لیکن ہمارے حکمران بے دریغ مزید قرض لینے میں مصروف ہیں، اِس وقت پاکستان 51131ارب کا مقروض ہے جس میں مقامی قرضوں کا حجم اکتیس ہزار چار سوارب ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ چھیاسی ار ب اکیاون کروڑڈالر ہے مگر ملک کی مالیاتی پالیسوں پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو وہ اب بھی بوجھ کم کرنے کے لیے تسلی بخش نہیں لگتیں۔ اسی لیے مزیدقرض بڑھنے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھی موجودہ قرض میں سے ہر شہری کے حصے میں دولاکھ سولہ ہزار آتے ہیں اور ایسے مقروض شہری پیداہورہے ہیں جن کے بزرگوں یا انھوں نے
خود قرض کا ایک روپیہ بھی استعمال نہیں کیا۔ مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ ،فرانس ،برطانیہ ،کینیڈا،سعودی عرب اور یواے ای سمیت دیگر امیر ممالک سے بھی چین تقریباََ ڈیڑھ یا دوگنا مہنگاقرض دے رہا ہے۔ نائن الیون کے بعدامریکی ایماپر پاکستان کے قرض کا کچھ حصہ معاف کیا گیا اور کچھ ری شیڈول ہوا مگرہمارے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مزید ایسا ہونے کا دوردورتک کوئی امکان نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب امریکہ کو پاکستان کی ایک تو ضرورت نہیں رہی۔ دوم پاکستان کا چین پر انحصار بڑھنے سے وہ خفاہے ۔ جس سے امکان ہے کہ اب امریکہ ہماری معاشی مشکلات میں تعاون کرنے اور حل میں معاونت کرنے کی بجائے بڑھانے میں دلچسپی لے سکتاہے ۔ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ درآمدات کے لیے بھی قرض لینے کی بجائے پاکستان خودانحصاری کی پالیسی اپنائے۔ اِس حوالے سے رومانیہ ، چیک سلواکیہ اورہنگری جیسے ممالک کی پالیسیاں اپنائی جاسکتی ہیں مگر اِس سے پہلے ضروری ہے کہ چین کے حوالے سے پاکستان اپنی غیرمحتاط تعلقات کی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیکر نظرثانی کرے اور اُسے قومی مفاد کے ہم آہنگ بناکرمشترکہ ترقی و خوشحالی کاہدف حاصل کیا جائے ۔نیز مال کے بدلے مال یا پھر مقامی کرنسی میں تجارت ہونیز ملک میں نئے پیداواری منصوبے لگانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تب ہی باہمی روابط کا پاکستان کوبھی فائدہ ہوسکتا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر