... loading ...
٭ چوبیس گھنٹوں میں وفاقی کابینہ کے دوسرے ہنگامی اجلاس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا گیا، حکومت نے واضح پیغام دے دیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل عمل نہیں
٭ کیا وزیراعظم شہباز شریف بھی یوسف رضا گیلانی بننے کی راہ پر گامزن ہے؟ کیا وہ توہین عدالت کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟اس سوال کا جواب کچھ گھنٹوں یا دنوں میں مل جائے گا
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ کی جانب سے گزشتہ روز سماعت مکمل ہونے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول بحال کرتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کی تاریح دے دی۔
سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو ممکن بنائے گی یا ایک مرتبہ پھر وہ عدالت سے محاذ آرائی سمیت آئینی تقاضے سے انحراف کی راہ لے گی؟بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے عدلیہ سے محاذآرائی جاری رکھتے ہوئے انتخابات کے ناگزیرآئینی مطالبے سے گریز کا فیصلہ کیا ہے۔جس کا اظہار حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے ہوا۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو اقلیتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اِسے مسترد کیا گیا۔ اب اس میں کوئی ابہام نہیں کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے یہ واضح طور پر پیغام ملا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل عمل نہیں۔اس تناظر میں یہ سوال بھی زیر گردش ہے کہ کیا وزیراعظم شہباز شریف بھی یوسف رضا گیلانی بننے کی راہ پر گامزن ہے؟ کیا وہ توہین عدالت کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟اس سوال کا جواب کچھ گھنٹوں یا دنوں میں مل جائے گا۔ مگر یہ امر واضح ہے کہ وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مستر د کرتے ہوئے یہ پیغام بھی دبے لفظوں میں دینا ضروری سمجھا ہے کہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیاہے۔ یہ مختلف آپشنز مزید کیا ہو سکتے ہیں، اور حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے باوجود فیصلے پر عمل درآمد کا راستا دے گی یا نہیں؟ یہ سب کچھ واضح کرے گا کہ ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ اور خود شہبازشریف کا اپنا مستقبل کیا ہوگا؟ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کا چوبیس گھنٹے میں یہ دوسرا اجلاس تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق عدلیہ سے محاذ آرائی کے حوالے سے اتحادی حکومت میں شامل بعض جماعتیں مختلف رائے رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ خود مسلم لیگ نون میں بھی واضح طور پر آرا منقسم ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کیا احکامات دیے
٭پہلے مرحلے میں پنجاب میں الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں
٭وفاقی حکومت 10 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرے
٭ امیدواروں کی حتمی فہرست 19 اپریل تک جاری کی جائے
٭ انتخابی نشانات 20 اپریل کو الاٹ کیے جائیں
٭ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کروائے جائیں
٭ نگران حکومت، آئی جی اور چیف سیکریٹری پنجاب سیکیورٹی کی فراہمی یقینی بنائے
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں۔سپریم کورٹ نے الیکشن پروگرام 13 دن آگے کرنے اور الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹریبونلز سے دوبارہ کارروائی شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلے میں نگران حکومت ِپنجاب اور وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کی معاونت نہیں کی جاتی تو الیکشن کمیشن ہمیں آگاہ کرے۔فیصلے میں مزید ہدایت دی گئی ہے کہ الیکشن کے لیے درکار سیکیورٹی اور فنڈز فراہم کیے جائیں۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی 10 اپریل کو جمع کروائے جائیں، حتمی لسٹ 19 اپریل تک جاری کی جائے، انتخابی نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں، ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جمع کرانے کی آخری تاریخ 10 اپریل ہوگی، 17 اپریل کو الیکشن ٹریبونل اپیلوں پر فیصلہ کرے گا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو فنڈز کی مد میں 10 اپریل تک 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 10 اپریل کو الیکشن کمیشن فنڈ کی وصولی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے، فنڈز نہ جمع کروانے کی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔واضح رہے کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے گزشتہ روز دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔عدالت نے سیکریٹری دفاع حمود الزمان اور ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
عدالت کی جانب سے اہم فیصلہ سنائے جانے سے قبل وزارتِ دفاع نے سیکیورٹی اہلکاروں کی دستیابی سے متعلق سربمہر رپورٹ چیف جسٹس کو چیمبر میں پیش کی جہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن نے رپورٹ کا جائزہ لیا۔دریں اثنا کئی وکلا ء اور سیاسی رہنما کورٹ روم نمبر ایک کے اندر جمع ہوگئے تھے جہاں مذکورہ فیصلہ سنائے جانے کا امکان تھا، عدالت عظمیٰ کی عمارت کے باہر مرکزی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری اور سیکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے۔
سپریم کورٹ نے آج نظریہ ضرورت کو دفن کردیا، پی ٹی آئی کا ردِ عمل
تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیونکہ عدالت عظمی نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان قوم کو فخر ہے کہ آج بھی آئین اور ضمیر سے فیصلے کرنے والے زندہ ہیں۔ جمہوری قوتوں، آئینی قوتوں اور غیر جمہوری اور غیر آئینی قوتوں کا فرق آج واضح ہو گیا، ملک بھر کے کالے کوٹ والے وکلاء کو آئین کی بالادستی کے لیے نکلنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی تمام کارکنان اور تنظیموں کو کہتا ہوں ملک بھر میں پھیل جائیں اور الیکشن کی تیاری کریں، تحریک انصاف کے ورکرز تیار ہو جاؤ آپ نے عمران خان کو دوسری بار وزیراعظم بنانا ہے۔اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے پوری قوم کو بڑی خوشخبری ملی ہے، آئینی فیصلہ آج عدالت سے آیا ہے اور عدالت نے الیکشن کی تاریخ کو کالعدم قرار دیا ہے، حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کریں۔علی ظفر نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے حوالے سے انتخابات پر فی الحال کوئی آرڈر نہیں، عدالت نے فی الحال پنجاب کے حوالے سے تاریخ پر فیصلہ دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان کے تمام ججز ایک بات پر متفق ہیں کہ اگر ملک میں مارشل لا ہو تو انتخابات صرف اسی صورت میں ملتوی ہوسکتے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا کہ آج آئین کی فتح ہوئی ہے پنجاب میں الیکشن 90 روز میں ہی ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت الیکشن سے بھاگنے کے طریقے ڈھونڈ رہی ہے، پاکستان کے تمام ججز ایک ہی بات پر متفق ہیں کہ اگر ملک میں مارشل لا ہو تو انتخابات صرف اسی صورت میں نہیں ہوسکتے، بھٹو کا نواسا آئین توڑنے والوں کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان کی افواج سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیچھے کھڑی ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت معاشی بحران کا سامنا ہے، نواز شریف اور زرداری عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکادیں اور ملک کو الیکشن کی طرف جانے دیں، یہ صرف آئین کی نہیں بلکہ قوم کی فتح ہے، سپریم کورٹ کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا ہے اور انتخابات سے پاکستان میں استحکام آئے گا۔ حماد اظہر نے کہا کہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اور کوئی فیصلہ نہیں آسکتا تھا، آج واضح ہو گیا ہے ملک میں آئین کی بالادستی ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور حکومتی ردِ عمل
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن التوا کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا ہی اظہار کیا جا سکتا ہے۔پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انتخابی تاریخ کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک اور بینچ بنا دیا گیا۔ عدالت نے سرکلر یا ایگزیکٹو آرڈر کے بجائے 6 رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔وزیر قانون نے مزید کہا کہ از خود نوٹس چار تین سے خارج ہوا تھا۔ انتہائی اہم معاملے کوحل کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس کا مطالبہ کیا تھا۔ ابہام دور کرنے کے لیے فل کورٹ کو بٹھایا جاتا۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیکورٹی و معاشی کے ساتھ سیاسی اور قانونی بحران بھی شامل کردیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی تمام درخواستوں کو مسترد کردیا۔ حکومتی اتحاد سپریم کورٹ کے معاملات سے مطمئن نہیں۔وزیر قانون نے سوال کیا کہ سینئرججزکوعدالتی معاملات سے کیوں الگ رکھاجاتاہے؟ چیف جسٹس سے درخواست ہے معاملات کے حل کے لیے فل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔ ادارے کو متحد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ترازو کے پلڑے برابر ہوں گے تو قانون اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔
عدالتی سماعتوں کا احوال: کب کیا ہوا؟
٭ سپریم کورٹ کی 27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلے روز صبح ساڑھے 11 بجے تک جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی تھی۔سماعت کے بعد جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کا آرڈر چیلنج کیا، پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی اختیار نہیں۔تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے، انتخابات میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے‘۔سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ ’تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے اہم قانونی اور حقائق پر مبنی سوالات کا جواب دے‘۔
٭ 28 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے‘؟جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘؟دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے‘۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ ’فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جا سکتا، دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے، کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں بھی انتخابات ہوئے تھے‘۔
٭ 29 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا‘۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’دہشت گردی کا مسئلہ تو ہے، 20 سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں 3 دفعہ الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، 58 (2) بی کے ہوتے ہوئے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی‘۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 مارچ بروز جمعرات کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی جس کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دینے تھے۔سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے تحریک انصاف سے تحریری یقین دہانی مانگی تھی۔تاہم 30 مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔بعدازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بینچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔31مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر (آج) کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہو گا۔
٭ 3 اپریل بروز پیر کو ہونے والی آخری سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو عدالت نے ان سے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ سے متعلق استفسار کیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔ تاہم فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا تھا کہ ’ہم کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا، ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں‘۔عدالت نے سیکریٹری دفاع حمود الزمان اور ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں عدالت کو قائل کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کارروائی مکمل کی۔سیکریٹری دفاع نے عدالت سے ان کیمرہ بریفنگ کی درخواست کی لیکن عدالت نے ان سے کہا کہ وہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد اسی طرح واپس کر دیا جائے گا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایک بار پھر ججوں کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کی پیشکش کی تاکہ انتخابات کے لیے درکار 20 ارب روپے اکٹھے کیے جاسکیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سید منصور علی شاہ جیسے سینئر ججوں سے اپنی ملاقات کا بھی ذکر کیا جس میں عدلیہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی گئی۔چیف جسٹس نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اس کیس کی فل کورٹ سماعت ممکن نہیں ہے، تاہم تمام ججوں کی فل کورٹ میٹنگ ممکن ہے جو سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کے لیے جلد منعقد کی جا سکتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہوسکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی، ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے، ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے، آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہو گی، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا، لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں، لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جو منگل کو سنایا گیا۔
انتخابات التوا کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔خیال رہے کہ مارچ میں ہی الیکشن کمیشن نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔
٭٭٭
مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...
بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...
مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...
نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...
سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...
ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...
عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...
علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...
بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...
مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...
پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...
خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...