وجود

... loading ...

وجود

نامکمل پارلیمنٹ کی قانون سازی

هفته 01 اپریل 2023 نامکمل پارلیمنٹ کی قانون سازی

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام ہے مگراپنی ناکامی تسلیم کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ ایسے حالات میں جب بنگلہ دیش دنیا کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل سٹی کا افتتاح کر رہا ہے اور بھارت میں آئی فون اور سام سنگ جیسی کمپنیاں اپنی مصنوعات تیار کرنے لگی ہیں جس کی آٹو انڈسٹری نے جاپان تک کو پیچھے چھوڑ دیا اوروہ معاشی وتجارتی حوالے سے برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کوبھی مات دینے لگاہے جس کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر چھ سوارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں لیکن پاکستان کی حالت یہ ہے کہ درآمدات اور قرضوں کی اقساط اداکرنے کے لیے زرِ مبادلہ نہیں ،اسی پتلی مالی حالت کی بناپر آئی ایم ایف کی طرف سے مزید ایک ارب بیس کروڑڈالر کی قسط دینے سے قبل شرائط پیش کی جارہی ہیں۔لوگ آٹے کے حصول کے لیے جاں بحق ہورہے ہیں جو ملک میں بڑھتی غربت کی طرف اشارہ ہے مگر حکمرانوں کی کوشش ہے کہ کوئی ایسا طریقہ ہاتھ لگ جائے جس کے ذریعے اقتدار میں رہ سکیں۔ وہ اقتدار کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پارلیمنٹ نامکمل ہے۔ اسی لیے نہ صرف قانون سازی پر سوال اُٹھنے لگے ہیں بلکہ عوامی حلقوں سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ نامکمل پارلیمنٹ کی طرف سے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پرتین رُکنی خصوصی بینچ کی طرف سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے سیاستدانوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور نامکمل پارلیمنٹ کاذکرکرتے ہوئے اُس کی طرف سے ہونے والی قانون سازی پر سوال اُٹھائے کیونکہ ایک ایسی قومی اسمبلی جس کی نصف سے کچھ کم تعداد ایوان سے باہر ہے اپوزیشن کی عدم موجودگی میں ہونے والی قانون سازی کو عوامی رائے کے مطابق نہیں کہہ سکتے۔
حکومت نے مسلسل ایسی قانون سازی کی ہے جس سے احتساب جیسا عمل توبے جان بن گیا،اب انتخابی عمل سے فرارکے لیے کوشاں ہے ۔یہی عمل سیاسی انتشاربڑھانے کا موجب ہے۔ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد نوے روز کے اندر انتخاب کرانا لازم ہے لیکن حکومت پنجاب اور کے پی کے میں انتخاب نہیںکراناچاہتی ۔اِس حوالے سے قومی اسمبلی سے مستعفی پی ٹی آئی نے عدالتِ عظمیٰ میں عرضی دائر کررکھی ہے لیکن حکومت فیصلے کی نوبت آنے میں رکاوٹ ہے۔ اب تو ازخودنوٹس کے متعلق عدالت کے اندرسے ہی سوالا ت اٹھوا دیے ہیں ممکن ہے یہ سوالات درست ہوں لیکن سوالات کی ٹائمنگ پر ملک کے اکثریتی طبقات خفاہیں اور قانونی شُد بُد رکھنے والے بھی تنقید کررہے ہیں۔ سب کاکہنا ہے کہ سوالات کے پسِ پردہ حکومتی ہاتھ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے حکومتی موقف کے مطابق اختلافی نوٹ پر خوشی دکھانا نیز پی ٹی آئی دور میں خلاف دائر ریفرنس واپس لینے کا اعلان خود وزیرِ اعظم شہباز شریف کی طرف سے کرنا ہے۔ نامکمل پارلیمنٹ کے زریعے اقتدار میں آنے والے سربراہِ حکومت کے ایسے اقدامات سے شکوک و شبہات اور یہ تاثرپیداہورہا ہے کہ یہ سارا عمل چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی کی سزا ختم کرانے کے لیے اپیل کا حق دلانے کے لیے اختیارکیا گیاہے۔
آرٹیکل 184 کی دفعہ تین کے تحت باضابطہ ایک پٹیشن کے بارے میں قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اور جج کے ساتھ فیصلہ دیا جس کا پی ٹی آئی کی پٹیشن سے کوئی تعلق نہیں لیکن حکومتی چالوں سے ظاہر ہے کہ اُسے ہر صورت الیکشن کا التوا چاہیے یادرہے 1997 میں موجودہ حکمران جماعت کے دورمیں عدالتِ عظمیٰ پر حملہ بھی ہوا ۔حملے کی خاص بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے قانونی مسائل پیداکرنے کی بناپر چیف جسٹس سجادعلی شاہ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اِس کے لیے رفیق تارڑخاص مشن لیکر کوئٹہ گئے اور ملک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہواکہ ایک ہائیکورٹ کی طرف سے عدمِ اعتماد پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سبکدوش کردیاگیا۔اِس کارِخیر میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ موجودہ وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی پیش پیش رہے۔ وہ عدالت پرحملہ آوروں کے لیے کھانے پینے کا اہتمام کرتے رہے جس کے متعلق چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سوانح عمری میں مفصل تذکرہ کیا ہے۔ اِداروں میں شکست وریخت اور سیاسی محاذآرائی سے ملک میں خلفشار بڑھنے کا اندیشہ ہے جس کا جتنا جلد احساس کر لیا جائے بہتر ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ چیف جسٹس کے پاس اکیلے ازخودنوٹس اور بینچ بنانے کا اختیار غلط ہے جوخاصامضحکہ خیز ہے۔ موجودہ چیف جسٹس نے عدمِ اعتمادِ کی تحریک مسترد کرنے کا نوٹس لیکرجب رات کو سماعت شروع کی تو پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے واشگاف الفاظ میں بڑھ چڑھ کرتائید کی اور اِس عمل کو عین قانون و آئین کے مطابق قرار دیا کیونکہ بینچ بنانا چیف جسٹس کا انتظامی اختیارہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ اگرعدالتِ عظمیٰ نوٹس نہ لیتی تو اب تک اسمبلیاں توڑکرملک میں عام انتخابات کرائے جا چکے ہوتے مگر یہی حکومت اب چیف جسٹس کے ازخودنوٹس پر معترض اور خلافِ آئین قرا ر دے رہی ہے۔ یہ دہرا معیار ہے گزشتہ 23 برس کے دوران چودہ چیف جسٹسز نے 204ازخود نوٹس لیے 79 ازخود نوٹس لینے کی بناپرافتخار چوہدری پہلے نمبر پرجبکہ47 کے ساتھ ثاقب نثارکادوسرا نمبر ہے۔ واحد آصف سعید کھوسہ ہیں جنھوں نے ایک بار بھی ازخود نوٹس نہیں لیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے نواز شریف نے اسلام آبادکی طرف لانگ مارچ کیااور بحالی کا وعدہ لیکر لانگ مارچ ختم کیاجو بات حق میں ہو اُس پر خوشی اور جوبات خلاف ہو اُسے حکومت کی طرف سے آئین کے متصادم قرار دینا ملک و قوم کی خدمت نہیں ۔
اِس وقت پارلیمنٹ نامکمل ہے اور آئینی ترامیم کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہے جس سے حکومت محروم ہے مگر مسلسل ایسی ترامیم میں مصروف ہے جس کا اُسے کوئی حق نہیں۔ آئین میں اِداروں کی تشکیل اور اختیارات کے متعلق وضاحت ہے آئین کا آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے قواعد و ضوابط خود بنائے اسی لیے قومی اسمبلی کی طرف سے قواعد وضوابط میں تبدیلی کا معاملہ بدنیتی کہہ سکتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے سپریم کورٹ کے اختیارات پر راتوں رات نقب لگایا جارہا ہو۔ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے چیف جسٹس نے پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی سربراہ کو طلب کر کے معاہدہ کراناچاہامگر پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کے حوالے سے دونوں فریقوں سے انڈرٹیکنگ طلب کی بات چلی توصرف پی ٹی آئی نے رضا مندی ظاہر کی۔ حکومت نے یہ کہہ کر یقین دہانی کرانے سے انکار کردیاکہ ایک کاغذ پر یقین دہانی سے سیاسی درجہ حرات میں کمی نہیں ہو سکتی حالانکہ وزیرِ اعظم اپنے برادرِ اکبر کے حوالے سے ماضی میں ایسی ہی یقین دہانی عدالت کو کراچکے ہیں ۔اب ایسا کرنے سے انکار کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ ایسا کوئی قدم اُٹھانے پر تیار نہیں جس سے انتخاب کی طرف جانے کی راہ ہموارہوتی ہو،نامکمل پارلیمنٹ کے سہارے معرضِ وجود میں آنے والی حکومت اگرقومی اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہے تو اقتدار سے چمٹے رہنے کاکوئی جواز نہیں رہتا۔بہتر ہے کہ ازسرنو عوامی اعتماد حاصل کرلے تاکہ ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لیے اہم اورمشکل فیصلے کر سکے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر