وجود

... loading ...

وجود

مفاہمت کیسے ممکن ہے؟

اتوار 02 اپریل 2023 مفاہمت کیسے ممکن ہے؟

انتخابات التوا کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے۔جس نے مقدمے کی سماعت شروع کر دی ہے، رجسٹرار کی جانب سے نئی کاز لسٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق نئے 3 رکنی بینچ کی سر براہی چیف جسٹس کریں گے جبکہ دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ اس سے قبل یہ تینوں جج اس چار رکنی بینچ کے رکن تھے جو جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے معذرت کے بعد گزشتہ روز دوسری مرتبہ ٹوٹ گیا تھا۔ الیکشن کے التوا کے معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدرِ پاکستان نے پنجاب میں الیکشن کے لیے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد کی تاریخ دی۔ ان کے مطابق صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے اور اگر انھیں حالات سے آگاہ کیا جاتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، التوا کی ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک فریق پارٹی چیئرمین کی ضمانت دے رہا ہے اور شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔جسٹس بندیال نے کہا کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے اور اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کر لیں گے۔انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن اس معاملے پر مذاکرات نہیں کرتے تو پھر عدالت آئینی کردار ادا کرے گی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کہیں گے کہ بااختیار فیصلہ ہے اور ہر فریق کے ہر نکتے کا فیصلے میں ذکر کیا جائے گا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کچھ وقت مل جائے تو درجہ حرارت کم کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں ملک بھر میں معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔
ایک طرف اٹارنی جنرل ملک کی سب سے بڑی عدالت کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں ملک بھر میں معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔دوسری طرف ملک کے مقتدر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہناہے کہ عمران خان نے ہمارا سب کچھ ختم کردیا ہے اور اب ہم انہیں کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، اور ان کا خاتمہ ہی ہماری ترجیح ہے۔ ان کے بقول جو بھی ہو عمران خان کا راستہ روکا جائے گا، چاہے اس کے لیے غیر جمہوری یا غیر آئینی اقدامات ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔ اسی طرح مریم صفدربھی کہتی ہیں کہ عمران خان کا خاتمہ ہی ان کی سیاسی ترجیح ہے۔ ایسے میں سیاسی ماحول کو کیسے جمہوری اور سیاسی بنایا جائے؟ اس صورت حال میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیسے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں گے اور کس طرح سیاسی درجہ حرارت کم کیا جاسکتاہے، یہی رویہ اس وقت قومی سیاسی بحران کے حل میں رکاوٹ بھی ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان کی سیاسی مقبولیت حکمران اتحاد کے لیے خوف کی علامت بن گئی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی سیاسی طاقت بالخصوص پنجاب میں بھی ان پر غالب ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ مختلف اداروں کی مدد سے ان کو انتظامی یا قانونی بنیادوں پر نااہل کیا جائے۔ یہ سوچ اور فکرہی خطرناک ہے کہ انتخابات آئین اور قانون کے بجائے حکمران اتحاد کی خواہش پر ہوں گے۔ جو لوگ یہ منطق دے رہے تھے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کھوچکے ہیں، اس کی ایک ناکام جھلک ہمیں عمران خان کے لاہورکے حالیہ جلسے میں دیکھنے کو ملی۔ تمام تر حکومتی پابندیوں کے باوجود لوگ اتنی بڑی تعداد میں پہنچ گئے تھے جو جلسے کی کامیابی کے لیے ضروری تھی۔ اس جلسے کی کامیابی سے بھی حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو مشکل کا سامنا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کو کمزور کرنے کے لیے اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت درکار ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عمران خان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور عمران خان کا راستہ روکنے کے خواہش مند ہیں۔ اس تمام تر حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کی سخت پالیسی کا فائدہ بھی عمران خان کو ہورہا ہے اور ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھ ہی رہی ہے۔ خود عمران خان برملا کہہ رہے ہیں کہ مجھے راستے سے ہٹانے کا منصوبہ موجود ہے اور ان کے پاس سوائے میری مخالفت کے کوئی پلان نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کو ہٹاکر موجودہ حکومت کو سامنے لایا گیا تو یہ بھی سیاسی اور معاشی محاذ پر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی، بلکہ موجودہ حکومت کے لیے رجیم چینج کا معاملہ خود اس کی مستقبل کی سیاست پر سوالات اٹھا رہا ہے۔
حکمران اتحاد یہ بنیادی بات سمجھنے سے قاصرہے کہ عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں ہی ممکن ہے، اور سیاسی محاذ پر ان کو عمران خان کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ بنانا ہوگا۔ انتظامی اور قانونی بنیاد پر عمران خان کی نااہلی، گرفتاری مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے زیادہ مسائل جنم لیں گے۔ یہاں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات مسائل کا حل نہیں اور یہ مزید مسائل کو جنم دیں گے۔ حیرت ہے، اگر جمہوریت میں انتخابات ہی مسائل کا حل نہیں تو پھر اس کا علاج کیا ہے؟ اورکیا ایسا متبادل نظام ہے جو انتخابات کے برعکس ہوسکتا ہے؟ قومی حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا کیا مسائل کا حل ہیں؟ اور کیا انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرکے سیاست اور جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے؟ دو صوبائی انتخابات کی بات تو ایک طرف رکھیں، یہاں یہ منطق بھی دی جارہی ہے کہ اکتوبر میں بھی عام انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔پی ڈی ایم کے روح رواں جو ہر بات 1973 کے آئین کے تناظر میں کرنے کے عادی تصور کیے جاتے تھے اب اس آئین کو لپیٹ کر یہ مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ الیکشن کم از کم 5 سال کیلئے ملتوی کردیے جائیں،یہ بات واضح ہے کہ جب آج الیکشن کمیشن کچھ بنیادی نکات کو بنیاد بناکر انتخابات کو ملتوی کررہا ہے تو اکتوبر میں بھی یہی نکات انتخابات کو ملتوی کرسکتے ہیں۔ انتخابات کو ملتوی کرنے کا عمل ایک ایسی مثال قائم کررہا ہے جہاں مستقبل میں بروقت انتخابات کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔ عام طورپر یہ کہاجاتاہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، اور اب انتخابات کو جمہوریت کے برعکس کہا جارہا ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ طاقت ور فریق سیاست، جمہوریت اور آئین و قانون کو بنیاد بناکر انتخابات سے فرار چاہتا ہے اور اس میں بڑی رکاوٹ سپریم کورٹ ہے۔ الیکشن کمیشن کے بقول تمام وفاقی اداروں، ایجنسیوں نے انتخابات میں سیکورٹی یا عملہ دینے سے انکا رکردیا ہے، تو کیا الیکشن کمیشن اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ یہی تمام ادارے اکتوبر میں بھی انتخابات کے انعقاد میں یہ روش اختیار نہیں کریں گے جو آج کی جارہی ہے؟ الیکشن کمیشن اس فیصلے سے اپنی بچی کھچی ساکھ بھی ختم کرچکا ہے اور واقعی عملی طور پر اس ادارے نے خود اپنی خودمختاری کی خود ہی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اہلِ دانش میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو برملا کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کے حق میں نہیں، اور نہ ہی عمران خان کو اقتدار میں آنے دیا جائے گا۔ یہ بات اگر مان لی جائے تو پھر عمران خان کا موقف درست تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسٹیبلشمنٹ ہی حکمران اتحاد کی مدد سے ان کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتی ہے، اور ایسا عمل یقینی طور پر سیاست کے لیے خطرناک ہے۔ ماضی میں جب بھی ہم نے بھٹو، بے نظیر یا نوازشریف مخالفت کو بنیاد بناکر سیاسی حکمت عملی اختیار کی تو نتائج منفی ہی ملے، اور آج بھی اگر اسی پرانی روش کے تحت عمران خان کو ٹارگٹ کرکے حکمت عملی بنانی ہے تو حالات درست نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوں گے۔ صدرِ مملکت کا وزیراعظم کو خط، اور پھر وزیراعظم کا صدرِ مملکت کو جوابی خط بھی ظاہر کرتا ہے کہ کشیدگی کس حد تک آگے چلی گئی ہے، اور دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات سے تلخیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
اسی طرح جس بہیمانہ انداز میں پی ٹی آئی کی قیادت بشمول عمران خان اور سیاسی کارکنوں کے خلاف شدت یا تواتر سے مقدمات بنائے جارہے ہیں جن میں دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار ہے، وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران خان کو مسلسل لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں سیر کروانے کا عمل بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کھیل میں قانون سے زیادہ انتقام کی بو آرہی ہے۔ سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کے مقدمے بنانا، ہتھکڑیاں لگانا، یا ان کے منہ پر کپڑا ڈالنا، یا پولیس تحویل میں تشدد جیسے امور واقعی تکلیف دہ ہیں۔ عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کے ساتھ بھی جو کچھ کیاگیا وہ خود قانون کی حکمرانی کے برعکس ہے۔ ایک ایسے معاملے پر جس پر پنجاب کی نگران حکومت اورآئی جی کے بقول ظل شاہ ٹریفک حادثے میں مرا ہے، اس کے قتل کا مقدمہ سیاسی کارکنوں پر بناناکیسے قانونی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے! اسی طرح اظہر مشوانی کو جس انداز سے اغوا کیا گیا اوراسے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے چھپایا گیا اور اب وہ اچانک گھر پہنچا ہے تو کچھ معلوم نہیں کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ یہاں طاقت کی حکمرانی کا راج ہے۔ اگر واقعی حکومت مفاہمت کی سیاست چاہتی ہے تو اسے اس تشدد یا سیاسی مقدمات کے مقابلے میں دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف انتقامی سیاست کی جائے اور دوسری جانب مفاہمت کی سیاست کی جائے۔ مفاہمت کی سیاست کی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب ہم انتقامی سیاست سے باہر نکلیں۔ حکمران اتحاد میں شامل رہنما اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم یہ جو سیاسی مہم جوئی کررہے ہیں، اس سے خود ملکی معیشت اور پھر اس معیشت کے براہِ راست منفی اثرات عوام پر پڑرہے ہیں۔ معیشت کی بدحالی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اس حکومت کا عوامی مقدمہ مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔ بنیادی طور پر ہماری حکومت کو جن معاشی معاملات پر توجہ دے کر عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا تھا وہ اس وقت عمران خان کو فتح کرنے کے کھیل کا حصہ بنی ہوئی ہے۔آئی ایم ایف سے بھی جو معاہدہ ہونا تھا وہ ابھی تک نہیں ہوسکا، اورایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی قومی سیاست کی محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی نذر ہورہا ہے۔ اس لیے جو کھیل پاکستان کی عملی سیاست میں ہورہا ہے وہ کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں۔ اس کھیل سے بچا جائے، یہی قومی مفاد میں ہوگا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر