وجود

... loading ...

وجود

سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی دعا

هفته 01 اپریل 2023 سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی دعا

ملک کے سیاسی حالات اس وقت جس نہج پر پہنچا دیے گئے ہیں‘ اس کے پیش نظر ملک سے محبت رکھنے والے ہر فرد کی دعا یہی ہے کہ عروج پر پہنچے انتشار اور سیاسی درجہ حرارت میں کسی طرح کمی آجائے‘ لیکن فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔اور حکومت جس پر سیاسی درجہ حرارت میں کمی کرنے کی کوششیں کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اپوزیشن یعنی عمران جنھیں انتخابات کے نتیجے میں حکومت مل جانے کی پوری توقع ہے میں سے کوئی بھی سنجیدگی دکھانے کو تیار نظر نہیں آتا۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ رانا ثناء بھی دوٹوک یہ کہہ چکے ہیں کہ اب عمران رہے گا یا ہم‘ ہمارے وجود کی نفی ہو گی تو ہر حد تک جائیں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کسی طرح بھی حکمران جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کیلئے تیار نہیں۔ظاہر ہے اس صورت حال میں انتخابات ہوبھی گئے تو تمام جماعتوں کو اس کے نتائج قبول کرنے پر رضامند کیسے کیا جائے گا؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ سیاست دانوں کے باہم لڑائی جھگڑوں سے انتخابات کی را ہ تومزید دور ہو گی ہی‘ جمہوریت کے ڈی ٹریک ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ صورتحال میں آئین اور قانون کی بالادستی کہیں نظر نہیں آرہی۔ انتخابات سے گریز کی وجہ سیاسی اور دانشور حلقے بخوبی جانتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست سے لاکھ اختلافات سہی‘ اگر وہ آئین کے تحت 90 دن میں تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی بات کررہے ہیں تو یہ ان کا اصولی مطالبہ ہے۔بے شک ملک اس وقت بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ایسے میں انتخابات کرانا معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سیاسی قیادتیں نہ مل بیٹھنے پر متفق ہیں اور نہ انتخابات کا کوئی درمیانی راستہ نکال رہی ہیں جبکہ سیاسی درجہ حرارت ہے جو روزافزوں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اب حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک قرارداد منظور کرالی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرائے جائیں گے،اگر حکومت کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے کرانے میں کوئی قباحت نظر آتی ہے تو وہ قومی اسمبلی کو اس کی مدت سے چند ماہ قبل تحلیل کرکے ایک ساتھ انتخابات کی اپنی ضد بھی پوری کرسکتی ہے،ملکی مفاد میں تو بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی قیادتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مل کر بیٹھ جائیں اور انتخاب کی کوئی قریبی تاریخ مقرر کرلیں تاکہ ملک سے انتشار اور غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کے تسلسل کے باعث انتخابات کرانا ممکن نہیں تو یہ جواز کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ پاکستان گزشتہ20-22 سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ 2008کے انتخابات سے قبل امن و امان کے عمومی حالات بھی بہت خراب تھے۔18 اکتوبر 2007کو جب بے نظیر بھٹو کراچی آئیں‘تب سے 18 فروری 2008ئتک مختلف خود کش حملوں میں 517 افراد ہلاک ہو چکے تھے لیکن انتخابی عمل نہیں رکا۔2013ء اور 2018میں بھی امن و امان کے حالات تسلی بخش نہیں تھے‘ لیکن عام انتخابات کا انعقاد نہیں روکا گیا۔ ان حالات کے مقابلہ میں موجودہ صورتحال تو انتہائی پرامن ہے‘ ایسے حالات میں انتخابات نہ کرانا حکومت کے خوف کو ہی عیاں کررہا ہے کیونکہ اسے بخوبی ادراک ہے کہ عوام میں عمران کا بیانیہ خاصا مقبولیت حاصل کر چکا ہے اور دو روز قبل مینار پاکستان پر ہونیوالے عمران خان کے پاور شو نے حکمرانوں کو مزید تشویش میں مبتلا کردیا۔ البتہ عمران خان کا یہ بیان ضرور تشویشناک ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انکی جان کا خطرہ ہے‘ مگر اس بنیاد پر بھی انتخابات کا التواء مناسب نہیں نظر آتا۔ عمران خان کو سیکورٹی فراہم کرنا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔انہیں سیکورٹی فراہم کرکے اس رکاوٹ کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات الیکشن کمیشن‘ سیکورٹی اداروں اور دوسرے ریاستی اداروں کی کہ وہ انتخابات کیلئے سیکورٹی اور عملہ فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ دہشت گردی کی وجہ سے سیکورٹی اہلکاروں کی کثیر تعداد اہم شخصیات کی سیکورٹی پر مامور ہے۔ ان کا یہ جواز اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کے ہی مترادف نظر آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا اور شیڈول کے مطابق انتخابات کا انعقاد کرنا ہے‘ اگر یہ ادارہ یہ سب کرنے سے ہی قاصر ہے تو پھر اس کے وجود کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہے گا۔ کسی کو تو اٹھ کر اس کے تحفظ کی بات کرنا ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ جاتی قیادت اپنی آئینی حدود و قیود میں کام کرتی نظر نہیں آرہی۔ اگر ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرتے تو ایسے حالات کی نوبت ہی نہ آتی۔ جب تک ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کرتے‘ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے اور نہ آئین کی بالادستی۔ قومی اداروں کی ان ہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ملک میں غیریقینی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ اس پر غوروفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ملک کی70 فیصد سے زائد آبادی غریب اور نادار لوگوں پر مشتمل ہے اور مٹھی بھر لوگ جو صنعت کار، جاگیردار طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جہاں ان کا رہن سہن، بود و باش خوابوں جیسی ہوتی ہے ان کی رہنمائی کے دعوے دار بن کر ان پر مسلط ہوگئے ہیں۔آج ساری دنیا میں جمہوریت کے چرچے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی رہنمائی کے دعویدار ان پوش بستیوں میں رہنے والوں کا عوام سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت جب عام آدمی کیلئے ملازمت پر جانے کیلئے بسوں کے کرائے کے لالے پڑے ہوئے ہیں،عوام کی نمائندگی کے یہ دعویدار اپنے والد کی عیادت کیلئے خصوصی طیاروں پر بیرون ملک اس طرح سفر کر رہے ہیں جس طرح کوئی غریب آدمی چنگچی رکشہ میں سفر کرتاہو۔ عوام پر مسلط ان جعلی عوامی نمائندگان کا رہن سہن بود و باش مغلوں کے زمانے کے نوابوں سے الگ نہیں۔ دینا میں جہاں بھی جمہوریت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو بلا تعصب عوام ذہن میں آتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کا خون چوس کر نواب بن جانے والے یہ جاگیردار، سرمایہ دار ہی اصل عوام بن گئے ہیں اور ریاست پر ان ہی کا کنٹرول ہے۔جمہوریت جس کا نام ہمارے ملک میں کتابوں کی زینت بنی رہتاہے، جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عوام سے5 سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کا کام لیا جاتا ہے بلکہ بعض جماعتیں تو عوام کو ووٹ ڈالنے کی بھی زحمت نہیں دیتیں بلکہ ان سے ان کے شناختی کارڈ لے لیے جاتے ہیں اور ان سے کہا جاتاہے کہ وہ گھر پر آرام کریں ان کا ووٹ ڈال دیا جائے گا اور کچھ عرصہ پہلے تک تو ایک لسانی جماعت لوگوں سے شناختی کارڈ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی بس اس کے کارندے پولنگ بوتھ میں گھس کر ٹھپے لگالیا کرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ جمہوری ملکوں میں عوام ہی حکمران ہوتے ہیں، پاکستان کو بنے ہوئے لگ بھگ پون صدی ہونے والی ہے، اس طویل دور میں بدقسمتی سے ایسی کوئی حکومت نہیں دیکھی جسے جمہوری کہا جائے۔ بدقسمتی سے اس ملک میں عوام و خواص سب ایک ہی سمت میں دوڑے جا رہے ہیں اور وہ سمت ہے پیسہ کمانے کی، اب یہ بات سمجھنے کی ہے ایسے ملک میں جمہوریت کا پودا کیسے پنپ سکتا ہے؟ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کہا جاتا ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے کہ نظریات پر بھی ایلیٹ کا قبضہ ہے، اور وہی عوام کی نظریاتی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا حال یہ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔آج ایک عرصے سے ملک میں انتخابات کا چرچہ ہو رہا ہے، عام آدمی دل ہی دل میں خوش ہورہاتھا کہ جمہوریت آ رہی ہے لیکن حکومت پر قابض ٹولے کو یہ احساس ہوچکاہے کہ ان انتخابات میں انھیں جھرلو پھیرنے کا پہلے جیسا موقع نہیں مل سکے گا اور عوام کا مزاج کچھ اور ہی ہے۔ اس لیے انتخابات کے نتیجے میں انھیں سیاست کے میدان سے باہر نکلنا پڑسکتاہے اس لیے اب وہ انتخابات ملتوی کراکے زیادہ سے زیادہ دن تک حکومت کے مزے اڑانا چاہتے ہیں اور اپنی اس کوشش میں وہ عدلیہ سمیت راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اڑاکر رکھ دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ غریبوں، مزدوروں، کسانوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بجلی قوم کی ضروریات سے بہت زیادہ ہے لیکن ارباب حکومت چونکہ اس کی ترسیل کا نظام بہتر نہیں بناسکے ہیں اس لیے ضرورت سے زیادہ یہ بجلی صرف حساب کتاب کے کھاتوں تک محدود ہے۔بات صرف بجلی کی ہی نہیں ہے بلکہ پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد محروم ہے۔دنیا میں جب سے سرمایہ دارانہ نظام آ یا ہے، انسان نہ صرف یہ کہ غریب سے غریب تر ہوتا گیا ہے بلکہ لاکھوں انسان روٹی تک سے محروم ہوگئے ہیں۔ہمارے ملک میں غریبوں کو ریلیف دینے کی جو کوششیں کی جاتی ہیں اس سے غربت تو دور نہیں ہوتی بلکہ غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے ایسا کیوں؟ اس کا جواب کون دے گا؟ہمارا ملک جمہوری ہے ملک میں ساڑھے6 کروڑ مزدور رہتے ہیں۔دیہی علاقوں میں رہنے والے زندگی کی تمام ضرورتوں سے محروم ہیں، کیا مفت آٹے کے نام پر عوام کی عزت نفس سے کھیلنے اور مفت آٹے کے حصول کیلئے لگی لمبی قطاروں کی تصاویر کی اشاعت سے اس ملک کے ہر گھر میں چولہاجل سکتاہے یہ ایک ایسا سوال جس کا جواب حکمرانوں کو دینا ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر