وجود

... loading ...

وجود

آئی ایم ایف کی شرائط در شرائط، حکومت عوام کو اعتماد میں لے

جمعه 31 مارچ 2023 آئی ایم ایف کی شرائط در شرائط، حکومت عوام کو اعتماد میں لے

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے تاحال پاکستان کو قرض دینے کے لیے معاہدہ نہیں کیا،اور قرض جاری کرنے کے لیے اسٹاف لیول پر معاہدے کے لیے ایک کے بعد ایک شرط عائد کی جارہی ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کمیونی کیشن جولیا کوزک نے کہا ہے کہ پاکستان کو مہنگائی، پست شرح نمو اور زرمبادلہ کی ضرورت جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پاکستان سے معاشی اصلاحات پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔ پاکستان معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کرکے اعتماد بحال کرے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی ہدایت پر قرض کے حصول کے لیے اس کی جانب سے عائد کردہ تمام شرائط پر آنکھ بند کرکے عمل کرتے ہوئے اپنے عوام کی زندگی اجیرن بناچکا ہے لیکن حکومت کے ان پیشگی اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کی تشفی نہیں ہو رہی اور وہ مزید معاشی اصلاحات کی آڑ میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیے جا رہا ہے۔ پیشگی اقدامات کے تحت پاکستان سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد، لگژری اشیاء کی شرح میں 25 فیصد جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی لیوی اور بجلی کے بلوں پر بھی سرچارج کی شرح میں اضافہ کر چکا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا اور اس سے لامحالہ عام آدمی ہی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کا پاکستان پر اعتماد بحال نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے یوکرائن کو 16 ارب ڈالر کے لگ بھگ کا قرضہ دیا گیا ہے جو اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کے خاتمہ پر اس کا مستقبل کیا ہوگا، اس کی پروا کیے بغیر اسے قرضہ جاری کیا جارہا ہے۔ اصولی بنیادوں پر تو یوکرائن کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا کہ کسی مالیاتی ادارے کی طرف سے اسے قرضہ جاری کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود اسے ایک ارب ڈالر نہیں دیے جا رہے۔اس طرح آئی ایم ایف کے تاخیری حربے اس تاثر کو ہی تقویت دے رہے ہیں کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کا گھیرا تنگ رکھا جائے تاکہ سری لنکا کی طرح پاکستان بھی خود کو ڈیفالٹ ڈکلیئر کردے۔ ان حالات میں ارباب حکومت کا تشویش کا شکار ہونا ایک فطری امرہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں امریکہ سے بات کی جائے گی لیکن امریکہ سے اس حوالے سے کئے گئے رابطوں کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، دوسری جانب، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی ساہوکار ادارے نے پاکستان سے یہ کہا ہے کہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کثیرالجہتی کریڈیٹرز کی جانب سے 6 ارب سے 7 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کی توثیق حاصل کرے تاکہ جون 2023ء تک کا خلا پر کیا جاسکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرونی سرمایے کی اس یقین دہانی کے بغیر آئی ایم ایف پروگرام کے پائیداری کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ بیرونی شراکت داروں کی بروقت مالی امداد پاکستان کے ساتھ نویں جائزے کی کامیابی یقینی بنانے میں اہم ہوگی اور مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کے ساتھ اگلا قدم اٹھا سکیں گے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سست شرح نمو، بلند افراط زر اور بڑی مالیاتی ضروریات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں زرتلافی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق، اس سلسلے میں حکومت نے آئندہ مالی سال تک کا وعدہ کیا ہے تاکہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) میں تبدیلی پر عمل درآمد کیا جاسکے۔ اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے امریکہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیاتھا تاکہ وہ آئی ایم ایف کو معاہدہ کرنے کے لیے راضی کرسکے لیکن پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے یہ کہہ کر کہ پاکستان کے سنجیدہ معاشی معاملات پر تمام شعبوں میں حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں اس طرح کی بات چیت کے نتائج کی نشاندہی کردی ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان سنگین اہمیت کے حامل معاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو مشکل وقت سے نکلنے کا کوئی راستہ ملے۔ ڈونلڈ بلوم نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام بھی اسی معاملے کا ایک حصہ ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن میں اعلیٰ سطح کے تجارت و سرمایہ کاری کے مذاکرات مکمل کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے خاص ایجنڈے پر بات کرتے ہوئے کہ پاکستان دیگر ممالک کی طرح انسانی حقوق کے چیلنجز سے نبردآزما ہے، پاکستان کو ان الزامات کو ڈیل کرنا ہوگا۔امریکی سفیر نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ اب بھی شراکت دار ہیں، سیکورٹی کے شعبے میں پاکستان کی معاونت کے لیے کام کرتے رہیں گے۔اب حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ آئی ایم ایف تمام شرائط منوا کر دوبارہ ا سٹاف لیول معاہدے میں بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے لیکن بات اتنی سیدھی ہے نہیں جتنا سیدھا بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے۔ موجودہ حکمران اتحاد ہو یا کوئی بھی اور جماعت یا گروہ، یہ لوگ کبھی بھی قوم کو پوری بات نہیں بتاتے، لہٰذا قوم یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اگر معاملات بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں تو ان کے پیچھے اصل اسباب کیا ہیں۔ دو روز پہلے توشہ خانہ کا 21 سالہ ریکارڈ کے منظر عام پر آنے سے یہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی حد تک متحد ہیں۔ اسی لیے ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس سے سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے وابستگان کو فائدے پہنچیں۔ ملک اور عوام کے مسائل ان میں سے کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے ان میں سے ہر کوئی ایسے بیانات دیتا ہے جیسے اس سے زیادہ عوام کا ہمدرد اور مونس اور کوئی نہیں ہے لیکن جیسے ہی یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں انھیں عوام بھول جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی توندیں اور تجوریاں بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے جاری ہے اور قابلِ قیاس مستقبل میں اس کے رکنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔اسی بات کو سامنے رکھ کر آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے حال ہی میں ایک جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرے اور انھیں دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ شاید اس وجہ سے بھی التوا کا شکار ہورہا ہے کہ اب عالمی ساہوکار کو یہ دکھائی دینے لگا کہ ہمارے مقتدر حلقے قرضہ تو ملکی معیشت میں سدھار لانے کے لیے حاصل کرتے ہیں لیکن پھر اس رقم کا بڑا حصہ یہ لوگ اپنے اوپر ہی خرچ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے واقعی اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو ممکن ہے ہمیں معیشت کو سنبھالنے کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مذکورہ طبقات کے پاس اتنی دولت
موجود ہے کہ وہ اس کا چند فیصد دے کر ہی ملک کو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے نجات دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے وہ شاید ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ عوام سے ضرور کہتے ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قربانی دیں لیکن آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی۔دوسری جانب امریکی خاتون سینیٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑھتا سیاسی تشدد اور سیاسی تناؤ پریشان کن ہے‘ پاکستانی رہنماؤں کو جمہوری اور آئینی اصولوں کا احترام کرنا چاہیے، اس بیان یا مطالبے سے صاف ظاہرہے کہ امریکہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ اس لیے زبانی کلامی ہمدردی کے اظہار کے علاوہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے یا آئی ایم ایف کو اپنا ہاتھ ہولا رکھنے کا مشورہ دینے کوبھی تیار نہیں ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان پیشگی اقدامات کے تحت آئی ایم ایف کو مطمئن کر چکی ہے تاکہ ورچوئل معاہدے کی راہ ہموار ہو سکے۔ پیشگی اقدامات پر حکومت کو نہ صرف اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مہنگائی کے نئے اٹھتے طوفانوں کے باعث اسے سخت عوامی ردعمل بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس کے باوجود اب آئی ایم ایف کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بیرونی مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد ہی قرض کی نئی قسط کی جانب قدم اٹھایا جائے گا جس سے یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے بدخواہ اس کے بعض رکن ممالک کی جانب سے باقاعدہ ڈکٹیشن دی جا رہی ہے جس کے تحت پاکستان کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو مطمئن کرنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کرے۔ اگر آئی ایم ایف مزید شرائط کے بغیر قسط جاری کرنے پر آمادہ ہوتا ہے تو بہتر ہے‘ ورنہ اسے ”بس بہت ہوچکا“ کہتے ہوئے ہمیں بھی اس کے ساتھ واضح پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔ حکمرانوں کو اپنی حکومت بچانے کیلئے کھیلے جانے والے کھیل کو بند کرکے اب تمام اقتصادی ماہرین کو مل بیٹھنے کی سنجیدہ دعوت دینی چاہئے تاکہ تمام اقتصادی ماہرین سر جوڑ کر آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے کی کوئی سبیل تلاش کرسکیں۔
حکومت کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ملک کی معیشت کوئی ماہر معاشیات ہی چلاسکے اگر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ معیشت کی راہ درست کرنے کی صلاحیت رکھتے تو شبر زیدی ناکام ہوکر گوشہ گمنامی میں نہ جاتے،حکومت کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ملک میں بدترین مہنگائی کے طوفان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث ہی اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے مہنگائی میں 1.80 فیصد اضافہ ہوا جبکہ 26 اشیائے ضروریہ مہنگی ہوئیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی آئی ایم ایف کیلئے من مانی کرنے کی راہ ہموار کرر ہا ہے جس کا اشارہ گزشتہ روز امریکی سینیٹر خاتون بھی دے چکی ہیں۔ اس غیریقینی کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ہی آئی ایم ایف مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی من مانیوں پر اترا نظر آتا ہے۔ موجودہ بدترین مہنگائی نے عوام کا پہلے ہی جینا محال کیا ہوا ہے‘ حکومت کوآئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر