... loading ...
ایم سرورصدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت تھا اپوزیشن ،حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کرتی تو عوام میں ایک سنسنی اور برسر ِ اقتدار سیا ستدانوں میں سراسیمگی سی پھیل جاتی۔ حکومت مخالف سیاسی رہنما جوڑ توڑ میں مصروف ہوتے تو کئی لوگوںکی نیندیں حرام ہونے میں دیر نہ لگتی ، تھڑے مارکہ ہوٹل،چائے کی دکانیں ،ہیرسیلون اوپن ائیرحجام کے پھٹے بحث و مباحثہ کے مراکز سمجھے جاتے تھے جہاں لوگ اپنے پسندیدہ سیاستدانوںکے حق میں عجیب و غریب دلائل اور سیاسی مخالفین کیلئے نفرت کا بر ملا اظہار کرتے رہتے۔ جلسے ،جلوس عوام کا لہو گرمانے میں پیش پیش تھے۔ سیدھے سادہ لوگ اپنی رائے کا برملا اظہار کردیتے۔ اس دوران ہلکے پھلکے اندازمیں نوک جھونک بھی ہوتی، معمولی لڑائی جھگڑے بھی ،لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود سیانے فریقین کو سمجھاتے تو وہ تھوڑی دیر بعد ہی شیرو شکرہو جاتے۔ آج کے دور کی طرح منافقت کم کم تھی لوگوںمیں قوت ِ برداشت بھی تھی۔سخت بات سن کر بھی مخالف کامسکراتا چہرہ دیکھ کردل محبت سے موم ہو جاتے۔ اب تو معمولی معمولی باتوںپر اسلحہ نکل آتاہے چرڑ۔چرڑ ۔ٹھاہ۔۔ٹھاہ اور بات کیا بندہ ہی ختم۔
پاکستان میں حکومت مخالف دو احتجاجی تحریکوں اور ایک دھرنے نے بہت نام کمایا ایک خان عبدالقیوم خان نے صدر ایوب خان کے خلاف 15میل لمبا جلوس نکالا جس کاریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔اسے صدر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کا نقطہ ٔ آغاز بھی کہا جا سکتاہے۔ دوسراذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جسے تحریک نظام ِ مصطفےٰ ۖ کا نام دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدارپرقبضہ کرلیا۔سابقہ صدر آصف علی زرداری کے دور ِ حکومت میں پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ”سیاست نہیں ریاست بچائو” کے سلوگن کے تحت اسلام آبادمیں ایک دھرنا دیا جس میں نو جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ شدید سردی،دھند اور بارش میں بھی ہزاروں افرادکا دلجمعی سے بیٹھے رہنا بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا ایک ناقابل ِ فراموش باب ہے۔ تینوں احتجاجی تحریکوں سے عوام کا تو کچھ فائدہ نہیں ہوا نتائج کے اعتبارسے یہ ناکام ہوگئیں۔ ویسے دیکھا جائے توپاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر منظر نامہ میں اپوزیشن نے برسر اقتدار حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش ضرور کی جب تک نوابزادہ نصراللہ خان حیات تھے انہوںنے چھوٹی پارٹیوںکوبھی بڑی جماعتوں کے شانہ بشانہ احتجاجی سیاست کی رونق بنائے رکھا جس سے ان کے گلشن کا بھی کاروبار چلتارہااورانہیں نوآموز اورنومولود پرجوش کارکن میسرآتے رہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد کسی اور کو یہ” ہنر”نہ آیا بلکہ ان کے
جانشین اپنے مرحوم والدکی سیاسی میراث کو ایک پارٹی میں مدغم کرکے سیاست سے ایسے” فارغ ”ہوئے کہ اب کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں اور نصف صدی تک سیاسی تحریکوںکا مرکزو محورپی ڈی پی کا دفتر آجکل لنڈا بازار بن گیاہے۔ یہ بھی ہو سکتا تھانوابزادہ کے لو احقین یہ جگہ خریدکر ان کے نام پر وقف کردیتے اور یوں ایک قومی وسیاسی یادگارکی حیثیت سے پہچانی جاتی یا حکومت اسے قومی یادگار قرار دے کر محفوظ کرلیتی۔دراصل اہلیت نہ ہوتو بہانے بہت سوجھتے ہیں۔ چندسال پہلے جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کی حکومت کو ناجائز قراردے کر اس کے خلاف علم بلند کیا جبکہ اپوزیشن جماعتوںکے اتحادپی ڈی ایم نے اسلام آبادمیں لانگ مارچ کرنے اور حکومت کے خلاف احتجاجی دھرنے بھی دیے۔ جس سے ملکی سیاست میں ایک تلاطم تو آیا جسے عمران خان کے حامی پیالی میں طوفان سے تشبیہ دیتے رہے پھر یکایک وزیر ِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ میاں شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی کوششیں بارآورثابت ہوگئیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تحریک ِ اعتماد کامیاب ہوئی اور عمران خان فارغ ہوگئے۔ اب وہ پھر اپوزیشن میں ہیں اور وہ ”پیالی میں طوفان” لانے کے متمنی ہیں۔ تحریک ِ انصاف کے رہنمائوں کا کہناہے جن کی سوچ بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتی ۔ ما ضی میںمیاں نوازشریف ہوں یا پھر، آصف زرداری،مریم نواز اور یا مولانا فضل الرحمن۔ یا شہبازشریف سب کے سب اپنے اپنے جلسوں میں ایک دوسرے کو چور،ڈاکو،لٹیرے اور نہ جانے کیا کیا قراردے چکے ہیں۔ اب یہ سب کے سب عمران خان کے زبردست مخالف بلکہ جانی دشمن بنے ہوئے ہیں لیکن اپوزیشن ہو یا پھر پی ڈی ایم پر مشتمل سیاسی جماعتیں ان کی الگ الگ ترجیحات اور سیاسی معاملات جدا جداہیں جو ان کے سیاسی معاملات میں بڑی رکاوٹ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں سیاسی بے چینی ، مہنگائی،بیروزگاری ، لوڈشیڈنگ عروج پر ہے۔ اس کے باوجود سیاسی ماحول گرم ہونے کی کوئی امید نظرنہیں آرہی۔ لوگوںکے پاس کھانے کو روٹی نہیں، روزگارنہیں،بجلی نہیں حالات نے غریبوںکو ادھ مواء کرکے رکھ دیاہے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کیونکر کامیابی سے ہم کنارہوگی۔ ماضی میں چلنے والی حکومت مخالف تحریکیں نتائج کے اعتبارسے ناکام ہوگئیں کہ عوام کو کسی بھی لحاظ سے ریلیف نہیں ملا ۔ صرف یہ ہوا ایک حکمران گیا اس کی جگہ نیا آگیا۔ نظام تبدیل ہوا نہ عوام کے حالات اور نہ ہی سسٹم میں کوئی بہتری ہی آسکی۔ لیکن کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ عمران خان نے جو بویا وہی انہیں کاٹنا پڑرہاہے ۔استاد قمر جلالوی نے شاید ایسے موقع کیلئے ہی کہا تھا
اے موج ِ بلا ذرا ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل پہ موجوں کا نظارہ کرتے ہیں