وجود

... loading ...

وجود

سینیٹ میں اپوزیشن کا شدید احتجاج، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور

جمعرات 30 مارچ 2023 سینیٹ میں اپوزیشن کا شدید احتجاج، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور

قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اورشور شرابہ کے باوجود سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023، وکلاء فلاح و تحفظ اور انٹر بورڈز کوآرڈینیشن بل منظور کر لیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے، اپوزیشن نشستوں پر موجود فاٹا اور بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے و الے سینیٹرز نے بھی بل کی حمایت میں ووٹ دیا، اس دور ان اپوزیشن اراکین نے چیئر مین سینٹ کے ڈائل کا گھیراؤ کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں، چیئرمین کے منع کر نے کے باوجود اراکین عدلیہ پر حملہ نامنظور ، الیکشن کراؤ ملک بچاؤ کے نعرے لگاتے رہے، سینیٹ سکیورٹی کو حکومتی اور اپوزیشن بینچز کے درمیان حصار بنانا پڑا جبکہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ یہ مفادات کا بل ہے، اس پر اصلاحات کا کور چڑھا کر خوش نما بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، سپریم کورٹ کے رولز بنانا بالواسطہ حملہ ہے، ایسے قانون پاس کرینگے تو 15 دن میں کالعدم ہوجائے گا۔ جمعرات کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک جمع کرائی۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی اپوزیشن کی تحریک مسترد کردی گئی اور بل فوری طور پر منظور کرنے کی تحریک منظور کر لی گئی۔ اس دوران اپوزیشن ارکان کی جانب سے سینیٹ میں شدید احتجاج کیا گیا، اپوزیشن کے سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ کی ڈائس کا گھیراؤ کرتے ہوئے عدلیہ پر حملہ نا منظور، الیکشن کراؤ ملک بچاؤ کے کے نعرے لگائے اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ اس دوران سینیٹ سکیورٹی نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز کے درمیان حصار بنا لیا جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، بل کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔ اپوزیشن نشستوں پر موجود فاٹا اور بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے و الے سینیٹرز نے بھی بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔ بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے، نئی قانون سازی کے تحت نواز شریف، کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق مل گیا، یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور دیگر فریق بھی فیصلوں کو چیلنج کر سکیں گے۔ اجلاس کے دوران اعظم نذیر تارڑ نے بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ  پارلیمان آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے اور قانون سازی کو ریگولیٹ کر سکتی ہے، آئین کے ساتھ ساتھ اس قانون کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز آف پروسیجر کے حوالے سے یہ بل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 191 کے تحت رولز بنائے جو 1980 میں بنائے گئے اور مختلف ادوار سے گزرے، گزشتہ دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں بالخصوص ایک نیا رجحان دیکھا کہ عدالت اتفاق رائے سے چلانے کے بجائے فرد واحد کے تحت آزاد ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے چیف جسٹس بھی آئے جنہوں نے سپریم کورٹ کے بنیادی حدود کو ایسے استعمال کیا کہ پورے پاکستان کے مختلف گوشوں سے اسٹیک ہولڈرز کے حوالے سے چاہے وہ بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنز ، پارلیمان، سول سوسائٹی، کاروباری طبقہ ہو یا سرکاری ملازمین سب کی طرف سے آوازیں اٹھیں کہ آئین میں ایک ترکیب دی گئی ہے کہ قانون سازی کا کام مقننہ ہے اور عدالتی امور فیصلے دے گی اور ملک چلانے کے لیے مشینری انتظامیہ کے تابع ہو گی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کہتا ہے آپ ایک دوسرے کی حدود میں غیرضروری مداخلت نہ کریں، پچھلے 15 یا 20 سال ایک نظر سے دیکھیں جب آئین کے آرٹیکل 184 تھری کا بے دریغ استعمال ہوا، بات بات پر انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ایسے ایسے مقدمات پر ازخود نوٹس لیا گیا کہ لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں کہ آیا یہ آئینی اختیار ہی استعمال ہو رہا ہے، گلیوں کی صفائی سے لے کر ہسپتال کی بیڈ شیٹس تک، جیلوں میں پکنے والے کھانوں سے لے کر اسکول جانے والے بچوں کے یونیفارم اور اساتذہ کی تعیناتیوں تک تمام معاملات تھے اس کے علاوہ اور کہانیاں بھی ہے، اربوں روپے سے بنایا گیا ہسپتال پی کے ایل آئی ایک چیف جسٹس کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا اور اب تک بحال نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بارز نے بارہا مطالبہ کیا اور اس ایوان سے بھی ایک سے زائد دفعہ آوازیں اٹھیں کہ آئین کے آرٹیکل 106 کی حد اسٹرکچر کیا جائے اور اس میں اجتماعی سوچ نظر آنی چاہیے نہ کہ وہ کسی فرد واحد کا اختیار ہو کہ وہ کب از خود نوٹس لے یا کون سا کیس 184 تھری کے دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں آیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ بات بار ایسوسی ایشنز سے نکل کر عدل کے ایوانوں میں بھی گئی، وہاں سے اختلاف اس وقت بھی ہوا اور اس کے بعد بھی ہوا، از خود نوٹس کیسز نے ملک کو اربوں ڈالرز کے نقصانات بھی پہنچائے۔انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں بھی کہا گیا کہ قانون سازی کا اگر آپ کو اختیار ہے تو آپ یہ معاملہ حل کیوں نہیں کرتے، وزارت قانون و انصاف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کافی عرصے کام کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں جو بل متعارف کروایا گیا وہاں اسمبلی نے اس پر بحث کی اور آرا آنے کے بعد اس پر دو ترامیم بھی لی گئیں اور کل اس کو منظور کرلیا گیا۔ اعظم نذیر تارڑ نے بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بینچوں کی تشکیل پر سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں آئیں اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تجویز کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ تمام 17 جج برابر ہیں اور ادارے کو چلانے کے لیے اجتماعی سوچ ہی بنیاد رکھتی ہے اور اجتماعی سوچ ہی اداروں کو آگے لے کر چلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو پھر شخصیت مضبوط کرنے کے بجائے ادارہ مضبوط کریں تاکہ ادارہ ڈیلیور کرسکے اور قومی اسمبلی میں بحث کے بعد یہ بل منظور ہوا ہے۔ اس بل کے سیکشن دو کے تحت بینچز کی تشکیل اور مقدمات کی تقسیم کا اختیار تین جج استعمال کریں گے، جن میں چیف جسٹس، سینیارٹی میں دوسرے نمبر اور تیسرے نمبر پر موجود جج اس میں شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی بینچز اور مقدمات کی تشکیل اور تقسیم کے فرائض انجام دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں تلخ تجربات کیے کہ بیسویں مقدمات کے بارے میں یہ فیصلہ کہ آج لگنا ہے یا کل لگنا ہے یا عوام کی دلچسپی کا ہے اور اس طرح کے معاملات حل ہو جائیں گے۔وزیر قانون نے کہا کہ بہت اہم قومی مقدمات ایک ایسے بینچ کے سامنے رکھا گیا جس میں 3 یا 5 جج صاحبان تھے حالانکہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ فل کورٹ اس مقدمے کو سنے۔ انہوں نے کہا کہ فل کورٹ رولز بناسکتی ہے لیکن شومئی قسمت کہیں کہ آخری فل کورٹ 2019 میں ہوئی، لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے اس ادارے میں جس کو رول ماڈل ہونا چاہیے، وہاں بھی مشاورت نہیں ہے اور اتفاق رائے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجویز کیا گیا ہے کہ جب 184 تھری کے تحت بنیادی دائرہ اختیار میں درخواست دائر کی جاتی ہے یا سپریم کورٹ کسی معاملے پر ازخود نوٹس لینا چاہتا ہے تو پھر یہی تین سینئر ججوں کی کمیٹی جائزہ لے اور بینچ تشکیل دے اور تینوں جج اس بینچ کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی تشریح درکار ہو تو کم ازکم 5 جج صاحبان کا بینچ ہوگا۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کا 10 اے 18 ویں ترمیم کے ذریعے متعارف کروایا گیا اور یہ اس وقت کی پارلیمان کے حوالے سے سنہرے حروف سے لکھا جائے گا، یہ شق شفاف ٹرائل یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے فیصلہ دیا کہ دین اور شریعت کہتی ہے کہ آپ کے خلاف کوئی فیصلہ ہوتو اس کے خلاف اپیل کریں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ آخری عدالت ہے، جو مقدمہ نہ سول کورٹ جاتا ہے، نہ ضلعی عدالت میں جاتا ہے اور نہ عدالت عالیہ میں جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو فریق کے درمیان کوئی معاملہ تصفیہ طلب ہے تو اس کو عوامی مفاد میں لا کر لوگوں کے ذاتی حقوق اور جائیدادوں کے حوالے سے کراچی میں ایک عمارت گرا دو اور اسلام آباد میں دو ٹاور بڑے قیمتی ہیں اس سے نہیں گراؤ تو یہ انصاف کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔ وزیرقانون نے کہا کہ اس طرح کی ناانصافیاں ختم کرنے کے لیے پارلیمان نے بارز اور وکلا کے مطالبے تھے اور ان ترامیم کے حوالے سے وکلا متفق ہیں جبکہ وہاں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن ان ترامیم کو دونوں طرف سے پزیرائی ملی ہے۔ وزیر قانو ن نے کہا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہی کمیٹی بینچ بنائے گی جو لارجر ہوگا اور جو ناانصافیاں کی گئی ہیں اس کے لیے ایک موقع دیا گیا ہے اور جب یہ قانون بنے تو اس کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں وکیل کے انتخاب کا حق دیا گیا اور اپیل کا حق 188 کے تحت فراہم کیا گیا ہے، جو نظرثانی کی اپیل میں سپریم کورٹ رولز کے ذریعے قدغن ڈالی گئی کہ جس وکیل نے اپ کا مرکزی مقدمہ لڑا ہے وہی اپیل دائر کریں گے اور وہی کیس لڑیں گے تو اس پر قانون سازی کی گئی، جو دیرینہ مطالبہ تھا۔ وزیرقانون نے کہا کہ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں درخواست دائر کرتی ہیں تو اس کے ساتھ فوری سماعت کی درخواست لگاتے ہیں جو اسی دن یا اگلے دن مقرر کردیا جاتا لیکن سپریم کورٹ رولز میں اس پر کوئی موقع نہیں دیا گیا اور خلا موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون کے تحت انہیں پابند کر رہے ہیں کہ فوری سماعت کے معاملات 14 روز سے آگے نہیں جائیں گے اور دو ہفتوں میں مقرر کرنا ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ اس بل کے اغراض و مقاصد ہیں، نیک نیتی اور عوام کے بھلے کے لیے، 22 کروڑ لوگوں کے فائدے کے لیے اور پاکستان کی عدلیہ کے سب سے بڑے ادارے میں شخصی اجارہ داری کے بجائے اجتماعی سوچ کو مضبوط اور فروغ دینے کے لیے پیش کیا گیا اور مثبت سوچ کے ساتھ لے کر اس سے منظور کرلیا جائے۔ قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ عوام اور قانون کا نام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ نیک نیتی کے ساتھ اصلاحات کا بل ہے لیکن یہ اصلاحات کا نہیں بلکہ مفادات کا بل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے سیاسی اور ان کے ذاتی مفادات کا بل ہے، اپنے مفادات کو بیچ میں رکھا اور اس پر اصلاحات کا کور چڑھا کر خوش نما بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بل کی اصلیت اور اغراض و مقاصد یہ چھپا نہیں سکتے، اس ملک میں اقتدار پر بھی اشرافیہ قابض ہے، ان کے لیے آئین میں بھی صرف نظر ہو جاتا ہے اور ان کے لیے قوانین بھی بن جاتا ہے۔ شہزاد وسیم نے کہا کہ اشرافیہ چاہے تو ان کے لیے پانی پر بھی راستہ بن جاتا ہے اور عوام اس پانی میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ ان کی لاش بھی اوپر کی سطح تک نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کی یہ حالت ہے، یہ قانون اور آئین ہے جس کو انہوں نے موم کی ناک بنایا ہے اور جہاں دل آتا ہے ادھر موڑتے ہیں اور اپنا مقصد نکالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ 100 فیصد ذات سے متعلق قانون لے کر آ رہے ہیں، یہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہاں نیب قوانین بھی اسی طرح آئے تھے، ای وی ایم اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق بھی روندا تھا اور آج پھر اس ایوان پر ایک اور بلڈوزر پھیرنے جا رہے ہیں، نام عوام کا اور کام اپنا اور یہی اس بل کی حقیقت اور اصل چیز ہے۔ پی پی پی سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ میں اس بات کو ماننے سے قاصر ہوں کہ اس بل کا تعلق آئین کے اندر 90 دن کے اندر الیکشن کی شق سے ہے، آئین میں ایک شق دی گئی ہے اس کا پورا ہونا لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وکلا برادری کا پرانا مطالبہ رہا پھر بار ایسوسی ایشنز اور پھر بارکونسلز کا مطالبہ بنا، لاتعداد قراردادیں ہیں جس میں بار کونسلز نے مطالبہ کیا گیا کہ جو صورت حال سپریم کورٹ میں بالخصوص از خود نوٹس کی نسبت سے بن رہی ہے، اس پر نظر ثانی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جب کسی بھی معاشرے کے اندر ادارے آپس میں دست و گریباں ہونے لگے تو وہ پورے ملک اور ریاست کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہوتے ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ ہم یہاں ایک چیز تو دیکھی ہے کہ پارلیمان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیرفعال کر دیا گیا، جو پچھلے چند دنوں سے سپریم کورٹ کے اندر جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے، جو ریاست پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بار کونسلز اور عام آدمی کا مطالبہ تو پہلے سے تھا لیکن اب یہ سپریم کورٹ کے اندر سے بھی ازخود آیا ہے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پارلیمان کے بجائے اپنے تنازعات عدلیہ کے پاس لے کر گئیں، جس کی وجہ سے عدلیہ پر دباؤ آیا کہ ان کو سیاسی تنازعات پر ملوث ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ جو ثالثی کی بات ہو رہی ہے تو عدلیہ ثالث بن سکتی ہے، نہ تو آئین کے تحت کردار ہے اور نہ وہ بن سکتے ہیں، ثالث کیلئے پارلیمان، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکرکا کردار ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ بل کمیٹی کے سپرد ہونا چاہیے، اہم معاملے کو کمیٹی میں نہ بھیجنے کی اپنی حکومت میں بھی مخالفت کرتا تھا، بل کے وقت پر اعتراض ہے، ابھی اس سے متعلق الیکشن کا کیس سپریم کورٹ کے پاس چل رہا ہے، سپریم کورٹ میں آئینی مسئلہ چل رہا ہے، اس پر بحث ہو رہی ہے، عدالت پوچھ رہی تھی آئین میں کہاں لکھا ہے پیسے نہ ہونے پر الیکشن لیٹ کیا جاسکتا ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ کیا ہم آئینی ترمیم کے بغیر 184/3 میں ترمیم کر سکتے ہیں، 184/3 میں صرف آئینی ترمیم کی جا سکتی ہے، آپ ایسے قانون پاس کریں گے تو آئندہ 15 دن میں یہ قانون کالعدم قرار دے دیا جائیگا۔ قبل ازیں چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس شروع ہوا تو پاک فوج کے بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور زلزلوں میں شہید ہونے والے افراد سابق سینیٹر ستارہ ایاز کی والدہ کے انتقال پر دعا کی گئی اور اس کے بعد سینیٹرز کے سوالات لیے گئے۔وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس وقت ملک میں مردم شماری جاری ہے اور اگر نتائج آگئے اور اس کی توثیق ہوگئی تو حلقہ بندیاں اور عام انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہئیں۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مردم شماری کے حوالے سے ایک سوال پر جواب دیا کہ 2017 میں جب مردم شماری ہوئی تو اس پر کافی اعتراضات آئے تھے اور 2017 کے آخر میں تمام جماعتوں کا پارلیمانی اجلاس ہوا تھا اور اس پر ایک معاہدہ ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نکات یہ تھے کہ 2018 کے انتخابات عبوری نتائج پر ہوں گے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 51 کی منشا یہ ہے کہ عام انتخابات گزشتہ مردم شماری کے مطابق ہوں گے کیونکہ حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب ہوتی ہے اور وسائل کی تقسیم بھی اسی حساب سے ہوتی ہے۔انہوںنے کہاکہ تمام جماعتوں نے اتفاق رائے سے معاہدے پر دستخط کیا کہ 2023 کے انتخابات سے پہلے ڈیجیٹل مردم شماری کرائی جائے گی اور اس معاہدے کے نتیجے میں 2018 کے انتخابات کو قانونی شکل دینے اور آئین کے عین مطابق رکھنے کے لیے آرٹیکل 51 میں ایک دفعہ کے لیے ترمیم کی گئی اور اس میں کہا گیا کہ 2018 کے انتخابات عبوری مردم شمار پر ہوں گے۔وزیرقانون نے کہا کہ 2018 کے انتخابات ہوگئے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آگئی اور وہ اس معاہدے کا حصہ تھی اور ان سے بارہا کہا گیا مردم شماری کرادیں لیکن کرتے کرتے پچھلے سال انہوں نے اعلان کیا اور موجودہ حکومت نے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 23ـ2022 کے بجٹ میں 35 ارب روپے مختص کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری اور خانہ شماری ہو رہی ہے اس کا آغاز یکم مارچ کو ہوچکا ہے اور اس عمل کی ذمہ داری وزارت منصوبہ بندی اور ترقی کی ہے اور 30 اپریل سے پہلے پایہ تکمیل تک پہنچنا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آیا عام انتخابات مردم شماری کی موجودگی میں جب تک مردم شماری نوٹیفائی نہ ہوسکتے ہیں یہ آئینی سوال ہے اور یہ مسئلہ آئے گا، آرٹیکل 58 کی منشا یہ ہے کہ عام انتخابات گزشتہ مردم شماری کے تحت کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ موجودہ مردم شماری کی تصدیق ہوتی ہے، نتائج آجاتے ہیں تو پھر حلقہ بندیاں اور انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہئیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیٹر اور وفاقی وزیر فیصل سبزواری نے کہا کہ 2017 میں مردم شماری پر سندھ بالخصوص کراچی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لوگوں کو تحفظات تھے، اس لیے اس وقت کی پارلیمان کی تمام جماعتوں نے کہا کہ اس کا آڈٹ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ مردم شماری اس لیے ہو رہی ہے کہ 2017 کی مردم شماری پر سب کا اتفاق نہیں تھا۔فیصل سبزواری نے کہا کہ اب جو پریشان کن صورت حال خاص طور پر کراچی شہر سے ہمارے سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ 35 ارب روپے مختص کرنے اور ڈیجیٹل مردم شماری قرار دیے جانے کے بعد اگر لوگوں کے ذہنوں میں خدشات پلنے شروع ہوجائیں اور مردم شماری کے سربراہ یہ کہیں کہ رہائشی بلاکس میں 6 سے 7 برسوں میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہاؤس ہولڈ میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے حساب سے نمبر نکال کر بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی مردم شماری کوئی نہیں مانے گا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام خدشات متعلقہ محکمے ادارہ شماریات، مردم شماری کمشنر ہوں اور نادرا کو شامل کرنا چاہیے اور مردم شماری کو شفاف بنانا چاہیے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے نیشنل یونیورسٹی پاکستان کی تشکیل کا بل 2023 ایوان میں پیش کردیا اور چیئرمین نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے دو دن میں واپس ایوان میں لانے کی ہدایت کی۔خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے گزشتہ روز منظور کر لیا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔بل وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا تھا اور اسمبلی سے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا تھا۔بینچز کی تشکیل کے حوالے سے قومی اسمبلی سے ترامیم کے بعد منظور کیے گئے بل میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔اس کے علاوہ کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔ بل میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔


متعلقہ خبریں


عمران خان تین مطالبات پر قائم، مذکرات کا پہلا دور بے نتیجہ وجود - منگل 26 نومبر 2024

تحریک انصاف کے اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے مرکزی قافلے نے اسلام آباد کی دہلیز پر دستک دے دی ہے۔ تمام سرکاری اندازوں کے برخلاف تحریک انصاف کے بڑے قافلے نے حکومتی انتظامات کو ناکافی ثابت کردیا ہے اور انتہائی بے رحمانہ شیلنگ اور پکڑ دھکڑ کے واقعات کے باوجود تحریک انصاف کے کارکنان ...

عمران خان تین مطالبات پر قائم، مذکرات کا پہلا دور بے نتیجہ

اسلام آباد لانگ مارچ،تحریک انصاف کا مرکزی قافلہ اسلام آباد میں داخل، شدید شیلنگ وجود - منگل 26 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر پاکستان تحریک انصاف کے قافلے رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوگئے ہیں جبکہ دھرنے کے مقام کے حوالے سے حکومتی کمیٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات بھی جاری ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان چونگی 26 پر چاروں طرف سے بڑی تعداد میں ن...

اسلام آباد لانگ مارچ،تحریک انصاف کا مرکزی قافلہ اسلام آباد میں داخل، شدید شیلنگ

پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس دوسرے دن بھی متاثر وجود - منگل 26 نومبر 2024

پاکستان بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس دوسرے دن پیرکوبھی متاثر رہی، جس سے واٹس ایپ صارفین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے کئی شہروں میں موبائل ڈیٹا سروس متاثر ہے ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں انٹرنیٹ سروس معطل جبکہ پشاور دیگر شہروں میں موبائل انٹر...

پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس دوسرے دن بھی متاثر

اٹھارویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے ،وزیر خزانہ وجود - منگل 26 نومبر 2024

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اعتراف کیا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم، سپریم کورٹ کے فیصلوں اور بین الاقوامی بہترین طریقوں کے پس منظر میں اے جی پی ایکٹ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وزیر خزانہ نے اے جی پی کی آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے صوبائی سطح پر ڈی جی رسید آڈٹ کے دف...

اٹھارویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے ،وزیر خزانہ

حکومت کا پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان وجود - منگل 26 نومبر 2024

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ حکومت کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ دھرنے والوں سے اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے ۔اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کا رویہ سب نے دیکھا ہے ، ڈی چوک کو مظاہرین سے خال...

حکومت کا پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان

جو کرنا ہے کرلو،مطالبات منظور ہونے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ،عمران خان وجود - منگل 26 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد اور ڈی چوک پہنچنے والے کارکنان کو شاباش دیتے ہوئے مطالبات منظور ہونے تک ڈٹ جانے کی ہدایت کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے عمران خان سے منسوب بیان میں لکھا گیا ہے کہ ’پاکستانی قوم اور پی ٹی آئی...

جو کرنا ہے کرلو،مطالبات منظور ہونے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ،عمران خان

پی ٹی آئی احتجاج ،کارکنان علی امین گنڈاپور پر برہم ، بوتل مار دی وجود - منگل 26 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران کارکنان پیش قدمی نہ کرنے پر برہم ہوگئے اور ایک کارکن نے علی امین گنڈاپور کو بوتل مار دی۔خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں کارکنان اسلام آباد میں موجود ہ...

پی ٹی آئی احتجاج ،کارکنان علی امین گنڈاپور پر برہم ، بوتل مار دی

سیاسی ٹرائل آمرانہ حکومتوں کیلئے طاقتور عدالتی ہتھیار ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا بھٹو ریفرنس میں اضافی نوٹ وجود - منگل 26 نومبر 2024

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں اپنا اضافی نوٹ جاری کر تے ہوئے کہا ہے کہ آمرانہ ادوار میں ججزکی اصل طاقت اپنی آزادی اور اصولوں پر ثابت قدم رہنے میں ہے ، آمرانہ مداخلتوں کا مقابلہ کرنے میں تاخیر قانون کی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے ۔منگل کو...

سیاسی ٹرائل آمرانہ حکومتوں کیلئے طاقتور عدالتی ہتھیار ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا بھٹو ریفرنس میں اضافی نوٹ

حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں وجود - پیر 25 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی قیادت میں قافلے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میںپنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے قافلے...

حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک وجود - پیر 25 نومبر 2024

تحریک انصاف ک فیصلہ کن کال کے اعلان پر خیبر پختون خواہ ،بلوچستان اورسندھ کی طرح پنجاب میں بھی کافی ہلچل دکھائی دی۔ بلوچستان اور سندھ سے احتجاج میں شامل ہونے والے قافلوںکی خبروں میں پولیس نے لاہور میں عمرہ کرکے واپس آنے والی خواتین پر دھاوا بول دیا۔ لاہور کی نمائندگی حماد اظہر ، ...

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور وجود - پیر 25 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت جتنے بھی راستے بند کرے ہم کھولیں گے۔وزیراعلیٰ نے پشاور ٹول پلازہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی رہائی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے ، عوام کا سمندر دیکھ لیں۔علی امین نے کہا کہ ...

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند وجود - پیر 25 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ پنجاب اور کے پی سے جڑواں شہروں کو آنے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں اور مختلف شہروں میں خندقیں کھود کر شہر سے باہر نکلنے کے راستے بند...

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند

مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر