... loading ...
آواز
۔۔۔۔۔
ایم سرورصدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بینک میں ایک صاحب بڑے غصہ میں تھے کہ ان کی اجازت کے بغیر بینک والوںنے کیونکر زکوٰۃ منہاکرلی، میرے پیسے ہیں۔ زکوٰۃ بھی میں اپنی مرضی سے دینا چاہتاہوں۔ بینک والے نہ جانے کس کو زکوٰۃ دیں یا نہ دیں مجھے کیا خبر ۔ایک حدتک ان کا کہنا درست ہے کہ کسی اکائونٹ ہولڈرکے پیسے سے کوئی دوسرا زکوٰۃ کاٹنے کا مجازنہیں ہونا چاہیے۔ ماہ ِ صیام میں ایک طرف لاکھوں صاحب ِ نصاب اپنا مال پاک کرنے کیلئے زکوٰۃ دیتے ہیں۔ وہاں کروڑوں روپے بینکوں سے اس لیے نکال لیے جاتے ہیں۔ زکوٰۃ نہ دینی پڑے کچھ لوگ مسلک ہی تبدیل کرلیتے ہیں۔ وہ فارم بھرکر جمع کروادیتے ہیں کہ ہم شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں کچھ حسب ِ منشا اپنے غریب رشتہ داروں دوستوںیا محلے والوں،کسی فلاحی ادارے۔ ہسپتال ، این جی اوکی زکوٰۃ کے ذریعے مددکرنا چاہتے ہیں لیکن بینک قوانین ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ اس لیے وہ رقوم نکال لیتے ہیں۔ ویسے بھی عام لوگ زکوٰۃ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے یا جاننا نہیں چاہتے۔ ہم الحمداللہ مسلمان ہیں اس لئے زکوٰۃ کے متعلق انتہائی اہم معلومات ہر طبقے مثلاً عام لوگوں، تاجر، زمیندار اور جانور پالنے والوں کے لیے عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک سادہ سی مثال ہی کافی ہوسکتی ہے جس میں عقل والوں کے لیے زبردست نشانیاں ہیں۔
ہم کلو کا ایک ’’تربوز‘‘ خریدتے ہیں 5 کھانے سے پہلے ہم اس کاموٹا چھلکا اتارتے ہیں ۔ پانچ کلو میں سے کم ازکم ایک کلو چھلکا نکل ہی جاتا ہے ۔یعنی تقریبا بیس فیصد ۔سچ سچ بتائیں اتنا چھلکا اتارکرکیا ہمیں افسوس ہوتا ہے؟ کیا ہم پریشان ہوتے ہیں؟ کیا ہم سوچتے ہیں کہ ہیں تربوز کو چھلکے کے ساتھ کھا لیں؟ قیمت تو ہم نے اس کی پوری پوری چکائی ہوتی ہے۔۔ نہیں بالکل نہیں ۔ یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے ہم خوشی خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ہیں مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ہوتی ۔ایک اور مثال پر غورکریں ہم مرغی خریدتے ہیں مگر جب کھاناتیارکرنے لگتے ہیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائشیں نکال باہر پھینک دیتے ہیں۔کیا اس پر دکھ یا ملال ہوتا ہے؟ یقینا آپ کہیں گے ، نہیں تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر، ایک لاکھ میں سے اڑھائی ہزار دینے پر کیوں ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے؟ حالانکہ یہ صرف اڑھائی فیصد بنتا ہے یعنی سو روپے میں سے صرف اڑھائی روپے ۔ یہ سوچنے سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ یہ تربوز، کیلے، خربوزہ،کھیرا، آم کے چھلکے اور گٹھلی اور مالٹے کے چھلکے سے بھی کم ہے۔ اس کٹوتی کو اللہ تبارک تعالیٰ نے ’’زکوۃ‘‘ کانام دیاہے۔ یہ بھی فرمایا کہ زکوۃ سے مال پاک ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مال بھی پاک ایمان بھی پاک، دل اور جسم بھی پاک اور اس سے روحانی اور قلبی سکون ہی سکون ،مستحقین کی مدد بھی معاشرہ میں خوشحالی بھی، اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ۔ اور اس کے فائدے کتنے زیادہ، اجر کتنا زیادہ، برکت ہی برکت سکون ہی سکون ثواب کا ثواب مددکی مدد ۔
آ پ بھی جانتے ہوں گے کہ 1 لاکھ پر 2500 روپے زکوۃ واجب ہے۔ اسی طرح 2 لاکھ پر 5000 روپے کے حساب سے جتنی رقم ہواس پر زکوٰۃ کی شرح نکالی جاسکتی ہے۔ زکوۃ کے لغوی معنی پاکی اور بڑھو تری کے ہیں۔ یہ دین اسلام کاایک بنیادی رکن ہے ۔ زکوٰۃسے انکار کرنے والاکافر ہے۔(حم السجدہ آیت نمبر6-7) منکرین ِزکوٰۃ کے خلاف خلیفہ ٔ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے جنگ کی تھی۔ اس سے زکوٰۃ کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتاہے۔ارشادِربانی ہے زکوٰۃادا نہ کرنے والے کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائیگا۔ (التوبہ34-35) ۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی قوم قحط سالی کاشکار ہوجاتی ہے۔(طبرانی) ۔زکوٰۃ کامنکر یعنی جوزکوٰۃادانہیںکرتااس کے نماز،روزہ،حج سب بیکار اور ہرقسم کی عبادات عبث ہیں۔زکوٰۃاداکرنے والے قیامت کے دن ہر قسم کے غم اورخوف سے محفوظ ہونگے۔ (البقرہ277) ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔(التوبہ103) یہ بھی ذہنوںمیں سوال گردش کرتاہوگا کہ سونا چاندی، زمین کی پیداوار، مال تجارت،جانور،پلاٹ،کرایہ پر دیے گئے مکان،یادکانیں،گاڑیوں اوردکان وغیرہ کی زکوٰۃکیسے اداکی جاسکتی ہے۔ ہر مال دارمسلمان مرد /عورت پر زکوٰۃ واجب ہے۔خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ ،عاقل ہویا غیر عاقل بشرط یہ کہ وہ صاحب نصاب ہو۔ سود،رشوت،چوری ڈکیتی،اور دیگرحرام ذرائع سے کمایا ہوا مال ان سے زکوٰۃدینے کابالکل فائدہ نہیں ہوگاکیونکہ صرف حلال کمائی سے دی گئی زکوٰۃ قابل قبول ہے۔ زکوٰۃچار چیزوں پر فرض ہے۔ 1۔سونا چاندی 2۔زمین کی پیداوار/پراپرٹی سے حاصل ہونے والی آمدن 3۔مال تجارت 4۔جانور۔ سونے کی 87گرام یعنی ساڑھے سات تولے سونا پر زکوٰۃ واجب ہے ۔ (ابن ماجہ1/1448) سونا محفوظ جگہ ہو کسی بینک کے لاکر میں ہی کیوں نہ ہو یا گھروالوں کے استعمال میںہو ہر ایک صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔(سنن ابودائود اول صفحہ 390) فتح الباری جز چار صفحہ 13) 612گرام یعنی ساڑھے باون تولے چاندی پر واجب ہے اس سے کم وزن پر نہیں۔(ابن ماجہ)۔زکوٰۃ کی شرح بہ لحاظ قیمت یا بلحاظ وزن اڑھائی فیصد ہے۔(صحیح بخاری کتاب زکوٰۃ) ، مصنوعی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیدا وار اگر پانچ وسق سے زیادہ ہے یعنی(725کلوگرام تقریبا18من)ہے تو زکوٰۃ یعنی عشر بیسواں حصہ دینا ہوگاورنہ نہیں۔جبکہ قدرتی ذرائع سے سیراب ہو نے والی پیداوار پر شرح زکوٰۃ دسواں حصہ ہے۔ دیکھئے(صحیح
بخاری کتاب الزکوٰۃ) زرعی زمین والے افرادکو گندم،مکئی،چاول،باجرہ،آلو،سورج مکھی،کپاس،گنااوردیگر قسم کی پیداوار سے زکوٰۃیعنی (عشر )بیسواں حصہ ہرپیداوار سے نکالناہوگا(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ)۔ پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ ایک بکری اور دس اونٹوں کی زکوٰۃ 2 بکریاں ہیں۔پانچ سے کم اونٹوں پر زکوٰۃواجب نہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ) 30گائیوں پر ایک بکری زکوٰۃ واجب ہے۔جبکہ 40گائیوں پردوسال سے بڑا بچھڑا زکوٰۃدینے کا حکم ہے۔(ترمذی1/509) کم ازکم 40سے ایک سو بیس بھیڑ بکریوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے۔ 120 سے سے لے کر200تک دو بکریاں زکوٰۃ دینا واجب ہے(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ)۔ چالیس بکریوں سے کم پرزکوٰۃ کا حکم نہیں ہے ۔ کرایہ پردیے گئے مکان پر زکوٰۃ نہیں لیکن اگراس کا کرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے جو نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو پھراس کرائے پرزکوٰۃ واجب ہے۔اگر کرایہ سال پورا ہونے سے پہلے خرچ ہو جائے توپھر زکوٰۃ لاگونہیں ہوگی۔ رقم پر شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد ہی ہوگی۔اسی طرح زیر استعمال گاڑی پر زکوٰۃ نہیں ہے لیکن کرایہ پر چلنے والی گاڑیوں پر اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے اور نصاب تک پہنچ جائے زکوٰۃ دیناہوگی۔ گھریلو استعمال والی گاڑیوں،جانوروں، حفاظتی ہتھیار، مکان وغیرہ پرزکوٰۃ نہیں (صحیح بخاری) جبکہ ہرقسم کے کاروبار یا دکان جس میں سامان تجارت ہو، اس پر زکوٰ ۃدینا واجب ہے ۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے اوراس پرایک سال گزر جائے۔ تمام مال کا حساب کر کے اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ دیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دکان کی اس آمدنی پرزکوٰۃ نہیں جوساتھ ساتھ خرچ ہوتی رہے۔ صرف اس آمدنی پر زکوٰۃدینا ہوگی جوبینک یا گھر میں پورا سال پڑی رہے۔ اور وہ پیسے اتنے ہوکہ ان پر ساڑھے باون تو لے چاندی خریدی جاسکے۔اس کے علاوہ جو پلاٹ منافع حاصل کرنے کے لیے خریدا گیاہو اس پرزکوٰۃ واجب ہوگی ۔ذاتی استعمال کے لئے خریدے گئے پلاٹ پر زکوٰۃ نہیں دی جائے گی (سنن ابی دائودکتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر1562)۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ زکوٰۃ کس کس کو دی جا سکتی ہے۔ ویسے تو ہرغریب زکوٰۃ کا حقدارہے۔ آسان الفاظ میں ذہن نشین کرلیاجائے کہ والدین اور اولاد کے علاوہ کسی بھی مستحق ،کم وسائل مسلمان کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔والدین اور اولاد پر اصل مال خرچ کرنے کا حکم ہے ۔ والدین میں دادا دادی ، نانا نانی اور اولاد میں پوتے پوتیاں،نواسیاں نواسے بھی شامل ہیں۔( ابن باز)لیکن مساکین (حاجت مند)،غریب ،مقروض،غیرمسلم جواسلام کے لیے نرم گوشہ رکھتاہو ،قیدی،مجاہدین،مسافر (سورۃالتوبہ60) ، مثال کے طور پر اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، یا کچھ سونا ہے، کچھ نقد روپیہ ہے، یا کچھ چاندی ہے، کچھ مالِ تجارت ہے، ان کو ملاکر دیکھا جائے تو ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت بنتی ہے۔ اس صورت میں بھی زکوۃ فرض ہے۔ ایک صاحب نصاب شخص کودرمیان سال میں ۵۳ہزار کی آمدنی ہوئی،تویہ۵۳ ہزار بھی اموالِ زکوۃ میں شامل کیے جائیں گے یا نہیں؟ ایک صنعت کار کے پاس دو قسم کا مال ہوتا ہے، ایک خام مال، جو چیزوں کی تیاری میں کام آتا ہے، اور دْوسرا تیار شدہ مال، ان دونوں قسم کے مال پر زکوٰۃ فرض ہے جبکہ مشینری اور دیگر وہ چیزیں جن کے ذریعہ مال تیار کیا جاتا ہے، ان پر زکوٰۃ فرض نہیں؟ مسلمانوںکو اس بات پربھی غورکرناہوگا کہ حج کے لیے رکھی ہوئی رقم پرزکوٰۃ واجب ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کسی کوہم زکوٰۃ د یں اور اس کو بتائیں نہیں تو اس صورت میں بھی زکوٰۃ اداہوجائے گی لیکن انکم ٹیکس ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ یہ بات خاص طورپرقابل ِ ذکرہے کہ غریب بھائی، بہن، چچا، بھتیجے، ماموں، بھانجے کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔شرعی طورپر مال دار بیوی کا غریب شوہربیوی کے علاوہ دوسروں سے زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔
٭٭٭