... loading ...
عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ایک زرد پتے کے مانند ہو۔ موت کے کارندے تماری گھات میں لگے ہوئے ہیں۔ تم ایک سفر کا آغاز کر رہے ہو۔کوئی اور تماری مدد نہیں کرسکتا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تم جلد ایک شمع بن جاؤجو تماری خامیوں کو جلائے اور خوبیاں روشن کرے تاکہ تمھیں وہ جوان زندگی میسر آئے جو بڑھاپے اور موت کی زد سے باہر ہے ۔
ہماری زندگی کیسے ہی کھٹن حالات و واقعات سے گزرے ، ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے ، اسی لیے مایوسی کو کفر کہا گیا ہے ۔ ہماری زندگی میں کیسے ہی اشتعال انگیز واقعات پیش آئیں، جو ہماری روح کو گھائل کردیں، وہ تاریک رات ہی کی طرح کیوں نہ ہوں۔ لیکن ہمیں یہ امید رکھنی چاہئے کہ ہر تاریک رات کے بعد ایک روشن صبح نمودار ہونے والی ہے ، ہر آنے والا دن ہمارے رب کی طرف سے ایک انعام ہے ، ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے ۔ اس پر ایسا ایمان و ایقان ہونا چاہئے ، جیسا حضور اکرمۖ کو تھا، احد کے میدان میں دشمن نے ہر طرح سے آپ پر یلغار کر رکھی تھی۔ لیکن آپ ۖکو اپنے رب پر بھروسا تھا اور آپ ڈٹ کر کھڑے رہے ۔جب ہم مشکلات میں ہوتے ہیں، اور زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں ، تو خدا ہمارے ساتھ ہوتا ہے ، اور خدا ہمارے اندر دور کہیں سرگوشیاں کر رہا ہوتا ہے کہ “چھوڑنا نہیں” کوشش جاری رکھو، تم تنہا نہیں ہو۔ ہم دونوں مل کر ٹوٹے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کو بہترین گیتوں میں ڈھال دیں گے ۔ جیسے ایک چھوٹے لڑکے اور پیانو بجانے والے ایک عظیم ماسٹر نے کیا تھا۔
ایک چھوٹا لڑکا پیانو بجانا سیکھ رہا تھا، ایک دن اس کی ماں اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اسے ایک مشہور پیانو ماسٹر کے کنسرٹ میں لے گئی، ہال بھر ا ہوا تھا، اس دوران ماں اپنی ایک جاننے والی سے بات چیت میں مصروف ہوگئی، لڑکے کو موقع مل گیا، وہ اسٹیج کی طرف چلا گیا، اور مختلف دروازوں سے گزرتا ایک دروازے کے پاس پہنچا، جہاں لکھا تھا” اندر آنا منع ہے “اس دوران ہال کی روشنیاں مدھم ہوگئیں، کنسرٹ شروع ہونے لگا، ماں اپنی نشست پر آئی تو چھوٹا بچہ وہاں موجود نہیں تھا۔اچانک اسٹیج کے پردے اٹھنے لگے ۔ماں کی نظر اسٹیج پر پڑی تو اس نے دیکھا، اس کا بچہ پیانو پر بیٹھا، کی بورڈ سے کھیل رہا ہے ، اور اپنی پسندیدہ دھن” ٹونکل ٹونکل لٹل اسٹار بجا رہا ہے ۔ٹھیک اسی لمحے مشہور پیانو ماسٹر اسٹیج پر آئے ، وہ تیزی سے پیانو کی طرف گئے ، اور لڑکے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا” چھوڑنا نہیں، بجاتے رہو” وہ لڑکے پر جھک گیا، پیانو پر اور کی بورڈ پر انگلیاں پھیرنے لگا۔ دونوں نے فضا میں ایک نئی خوب صورت اور دل فریب دھن تخلیق کی کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔جب ہم کچھ کرنے کی اپنی سی ٹوٹی پھوٹی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ، تو اللہ ہمارا ہاتھ پکڑ لیتا ہے ، ہمارے کام میں برکت دیتا ہے ، ہمیں ایسا راستہ سجھا دیتا ہے ، جس پر کامیابی کھڑی ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے ۔
اٹلی میں مقیم 23سالہ سینیگالی نوجوان”خابی لام”ٹک ٹاک کا بے تاج بادشاہ ہے ۔اس پلیٹ فارم میں سب سے زیادہ فالورز خابی کے ہیں۔155.6ملین فالورز۔وہ 13ملین ڈالر کا مالک ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خابی حافظ قرآن ہے ۔اس نے 14سال کی عمرمیں قرآن ی حفظ کیاتھا۔خابی لام(پیدائش 9 مارچ 2000) اٹلی میں مقیم سینیگال میں پیدا ہونے والی ایک نہایت مشہور و معروف سوشل میڈیا شخصیت ہے ۔ لام اپنی ٹک ٹاک (TikTok)ویڈیوز کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں ،جن میں وہ خاموشی سے ان لائف ہیک ویڈیوز کا مذاق اڑاتے ہیں جو حد سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ شہرت کا تعارف کرانے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ لام 2022 میں (ٹک ٹاک) پر دوسرا سب سے زیادہ فالو کیا جانے والا شخص ہے ۔خابی 2020 میں ایک عام سا فرد تھا۔ جب کورونا کی وبا پھیلی تو وہ شمالی اٹلی کے ایک قصبے میں فیکٹری ورکر کے طور پر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ان کے والد نے انھیں دوسری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کو کہا ۔ لیکن اس نے Khaby Lameکے نام سے TikTokپر ویڈیوز پوسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2022 میں، وہ ٹک ٹاک پر سب سے زیادہ فالور رکھنے والا شخص بن گیا، 22 سالہ سینیگالی نژاد تخلیق کار، جو اٹلی میں مقیم ہے ، سوشل میڈیا ایپ پر دوسرے تخلیق کاروں کی جانب سے متعارف کرائے گئے پیچیدہ “لائف ہیکس”کو توڑنے اور اپنی ویڈیوز کو بڑی آنکھوں سے گھور کر ختم کرنے کے لیے مشہور ہے ۔لیم کی کہانی کا سب سے اہم حصہ یہ ہے : وہ ایک لفظ بھی کہے بغیر اپنے سنکی مزاح کو بیان کرنے اور عالمی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ 2021 میں، لیم نے نیویارک ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ان کے بے معنی، اظہار خیال ردعمل نے انہیں دنیا بھر کے مداحوں کے دلوں تک پہنچنے کا موقع دیا”۔یہ میرا چہرہ اور میرے تاثرات ہیں جو لوگوں کو ہنساتے ہیں،”لیم کا کہنا ہے کہ اس کا خاموش ردعمل ایک “عالمی زبان” ہے ۔
انسان کو اپنی قسمت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ، لیکن اللہ نے اسے علم، محنت، دانش، قوت عمل، تخلیقی صلاحیتوں سے نواز کر اسے اپنا نائب بناکر اس دنیا میں بھیجا ہے ۔اسے اپنی ان صلاحیتوں سے کام لینا ہے ، اور اس امتحان میں پورا اترنا ہے ۔ مشکل حالات میں ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے ، کیا اللہ سے شکوہ اور شکایت ہی میں زندگی گزارنا چاہئے یا اس میں تبدیلی لانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہئے ۔ اگر چہ چند ہی افراد ایسے ہیں، جو حالات کارخ موڑ نے کی کوشش نہیں کرتے ، لیکن اپنی زندگی کو بدل دیتے ہیں۔ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم بدترین حالات میں کیسے اپنی زندگی کو زیادہ آسان ، زیادہ پرامن اور پرمسرت اور نافع بنا سکتے ہیں۔ ہم اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو کام میں لاکر اپنی ذات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم سے کچھ چھن گیا ہے تو جو کچھ باقی ہے ، اس سے کام لے سکتے ہیں۔
٭٭٭