وجود

... loading ...

وجود
هفته 21 ستمبر 2024

کیا ماہِ صیام میں بھی سیاست کرنا ضروری ہے؟

پیر 27 مارچ 2023 کیا ماہِ صیام میں بھی سیاست کرنا ضروری ہے؟

راؤ محمد شاہد اقبال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہِ صیام عبادات کرنے اور برکتیں سمیٹنے کا مبارک مہینہ ہے اور برسہا برس کی روایت رہی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اِس مقدس مہینے میں اپنی ہرقسم کی روز مرہ سرگرمیوں کو انتہائی محدود کرکے ساری توجہ، تو بہ و استغفار اورزیادہ سے زیادہ عبادات کر کے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے پر مرکوز کردیتے ہیں ۔ مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ پاکستانی قوم کا یہ دوسرا ماہِ صیام ہے کہ جس کا بیشتر حصہ عبادات کے بجائے سیاست کی نذر ہو رہا ہے۔ گزرے برس رمضان کے مہینہ میں پاکستانی عوام کی سحری و افطاری سوشل میڈیا پر سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں اچانک اقتدار سے رخصت ہونے پر آہ و فغاں سنتے ہوئے گزری تھی تو رواں برس کا ماہِ صیام پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسوں اور ریلیوںکی زد پر آیاہواہے۔ بظاہر عمران خان ریاستِ مدینہ تشکیل دینے کے دعوی دار ہیں ، لیکن دوسری جانب اُنہیں اِس بات کی ذرہ برابر بھی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اُن سے عقیدت اور محبت رکھنے والے پیروکاروں کو ماہِ صیام میں سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے کتنی مادی تکلیف اور روحانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔
عمران خان کی طرف سے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے لوگوں کو مادی و ظاہری مشکلات میں مبتلا کرنا تو بالکل سمجھ میں آتاہے کیونکہ ہر سیاست دان اقتدار پانے کی حرص میں یہ ہی کچھ کیا کرتاہے ۔ مگر جس طرح سے پاکستان تحریک انصاف رمضان المبارک میں اپنے کارکنان کی توجہ روحانی اُمور سے ہٹاکر سیاسی سرگرمیوں کی طرف منتقل کرنے پر اصرار کرتی آرہی ہے ۔یقینا یہ ایک ایسا طرزِ عمل ہے جو ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے۔حالانکہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت تھوڑی سی عقل مندی اور سیاسی فہم و فراست سے کام لیتی تو وہ اِس ماہ رمضان میں اپنی تمام تر سیاسی سرگرمیوںکو مکمل طو رپر معطل کرکے مستقبل میں کئی سیاسی اہداف بھی حاصل کرسکتی تھی ۔ مثال کے طورپر ایک ماہ کے لیے سیاسی سرگرمیاں معطل ہونے سے پی ٹی آئی کے کارکنان کو بھی تھوڑا سا سانس لینے کا موقع مل جاتا اوربے چارے کارکنان جو کم و بیش ایک برس سے بڑی بے دردی کے ساتھ عمران خان کی احتجاجی تحریک کا ایندھن بنتے آرہے ہیں ، اُنہیں بھی تھوڑا ذہنی سکون ، جسمانی آرام اور معاشی عافیت حاصل ہوجاتی اور وہ حکومت مخالف کسی نئی تحریک چلانے کے لیئے خود کو اچھی طرح سے تازہ دم کرلیتے۔ نیز ایک ماہ کے لیے سیاسی سیز فائر کرنے سے پی ٹی آئی کی قیادت کو ازسرنو اپنی سیاسی و احتجاجی حکمت عملی ترتیب دینے کا بھی کچھ وقت میسر آجاتا۔ کیونکہ جس تواتر کے ساتھ اَب تک پی ٹی آئی قیادت کی سیاسی حکمت عملیاں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں ۔اُن کی وجوہات کا جائزہ لینے کا یہ سنہری وقت تھا۔ جبکہ ایک ماہ تک زمان پارک میں سیاسی کے بجائے روحانی سرگرمیوں کے شروع ہوجانے سے ملک بھر میں یہ تاثر بھی اُجاگر ہوتا کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے سیاسی مفادات کے ساتھ ساتھ اپنے جملہ کارکنان کی اُخروی عاقبت کی بھی خوب فکر ہے۔
مگر شومئی قسمت کہ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو معطل یا کمی کرنے کے بجائے ،بے پناہ اضافہ کردیا ہے ۔جبکہ دوسری طرف حکومت نے بھی پی ٹی آئی کی طرف سے پھینکے جانے والے احتجاجی پتھر کا جواب انتظامی اینٹ سے دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان محاذ آرائی کی اِس ساری صورت حال سے ہر پاکستانی انتہائی بُرے طریقے سے متاثر ہورہاہے اور اُسے لمحہ بہ لمحہ ملکی سیاسی حالات سے باخبر رہنے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ حکومت اور عمران خان کی درمیان جاری اقتدار کی جنگ میں فی الحال کس کا پلہ زیادہ بھاری ہے ۔ہر تھوڑی دیر کے بعد نیوز چینل یا پھر سوشل میڈیا کو ملاحظہ کرنا پڑتاہے ۔ جس کی وجہ سے عام لوگوں کا وہ قیمتی وقت جو فرض اور نفلی عبادات میں صرف ہونا چاہیے ،وہ بڑی بے دردی کے ساتھ غیر ضروری سیاسی سرگرمیوں میں ضائع ہورہا ہے۔ یہاں پاکستان تحریک انصاف سے یہ مطالبہ کرنا کہ ماہِ صیام کے بقایا ایّام میں اپنی سیاسی سرگرمیوں سے دست بردار ہوجائے ،اِس لیئے قطعی بے معنی اور اپنا سر دیوار سے ٹکرانے کے برابرہے کہ سرِدست عمران خان کو کرسی اقتدار کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور وہ جلدازجلد واپس واپس وزیراعظم ہاؤس میں پہنچنا چاہتے ہیں اور اپنے اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے ابھی تو انہوں نے صرف دو ماہِ رمضان کی روحانی ساعتوں کو سیاست سے آلودہ کیا ہے۔لیکن غالب امکان یہ ہی جب تک اُنہیں مسند اقتدار پر دوبارہ سے بٹھایا نہیں جاتا وہ کسی بھی آنے والی اچھی یا بُری ساعت کی کوئی خاص پرواہ نہیں کریں گے۔
ہاں ! وہ عام لوگ جو عمران خان کی جانب سے لگائے جانے والے بعض خوش کن اور دلفریب سیاسی نعروں کے سحر کا شکار ہوکر سیاست کے بخار میں مبتلا ہیں ۔اُنہیں بہرحال ضرور یہ نصیحت کی جاسکتی ہے کہ وہ رواں ماہِ صیام میں اپنا دل سیاست کے کانٹوں میں اُلجھانے کے بجائے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے میں لگائیں ۔تاکہ وہ اپنے دامن کو دنیا بھر کی سیاسی آلودگی سے بھرنے کے بجائے، زیادہ سے زیادہ ماہِ رمضان المبارک کے فیوض و برکات سمیٹ سکیں ۔ کیونکہ کسی کو کچھ خبر نہیں کہ اگلا ماہ ِ صیام کس خوش نصیب شخص کو دیکھنے کو ملے اور کس کو نہ ملے ۔ جہاں تک بات سیاست کی ہے تو یہ رمضان المبارک کے اختتام کے بعد بھی کی جاسکتی ہے ۔ ویسے بھی جس طرح کی نفرت آمیز اور پرتشدد سیاست کی راہ پر عمران خان چل نکلے ہیں ،اُس کا انجام اور نتیجہ ایک دو دن یا پھر ایک دو ماہ میں نہیں آیا کرتا۔ بلکہ ایسی سیاست کو اپنے منطقی انجام تک پہنچے میں کئی برس درکار ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی حکومت سکھوں کے قتل میں ملوث وجود هفته 21 ستمبر 2024
بھارتی حکومت سکھوں کے قتل میں ملوث

بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک وجود هفته 21 ستمبر 2024
بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک

بھارت میں مساجد غیر محفوظ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
بھارت میں مساجد غیر محفوظ

نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ

کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا ! وجود جمعه 20 ستمبر 2024
کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر