وجود

... loading ...

وجود

لوک سبھا سے اخراج کے بعد راہل گاندھی کا مستقبل؟

پیر 27 مارچ 2023 لوک سبھا سے اخراج کے بعد راہل گاندھی کا مستقبل؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورت کی ایک عدالت سے دوسال کی سزا سنائے جانے کے بعد راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت منسوخ کردی گئی ہے ۔ گزشتہ جمعہ کو لوک سبھا سکریٹریٹ نے جب اس کی اطلاع جاری کی تو ملک میں زبردست سیاسی ہلچل تھی۔ کانگریسی کارکنان سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے اور پارلیمنٹ کے احاطے میں اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے عجیب وغریب نظارے دیکھنے کو ملے ۔حالانکہ اپوزیشن پارٹیاں حکومت اور سرکاری ایجنسیوں کی ظلم وزیادتی کے خلاف پہلے سے ہی سراپا احتجاج تھیں، لیکن راہل گاندھی کی رکنیت ختم کردئیے جانے کے بعد ان میں ایک نئی توانائینظر آرہی ہے ۔اپوزیشن لیڈران کے خلاف اس وقت سی بی آئی اور ای ڈی کی جو یک طرفہ مہم چل رہی ہے ، اس نے سبھی کو پریشان کررکھا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ حکومت اور اس کی مشنری اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے کی راہ پر گامزن ہے ،جبکہ اپنے چہیتوں کی بدعنوانیوں اور گھوٹالوں کی پردہ پوشی کی جارہی ہے ۔ اس سوال پر پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا دوسرا حصہ مسلسل تعطل کا شکار ہے اور وہاں کوئی کارروائی نہیں ہوپارہی ہے ۔حکمراں جماعت کی طرف سے راہل گاندھی کی معافی اور اپوزیشن کی طرف سے اڈانی معاملے کی جانچ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کے مطالبات نے پارلیمنٹ کو ٹھپ کررکھا ہے ۔ اس دوران راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت منسوخ کئے جانے کے بعدصورتحال نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے ۔
حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی سیاستداں کو کسی قانون ساز ادارے کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے قبل لالو پرساد یادواور اعظم خاں جیسوں کی رکنیت ان ہی الزامات میں جاچکی ہے ۔ لیکن راہل گاندھی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کانگریس جیسی بڑی پارٹی کے صدر رہ چکے ہیں اور وہ اس وقت حکومت کی آنکھوں کا کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ راہل گاندھی نے پچھلے دنوں لندن کے سفر کے دوران ہندوستانی جمہوریت کو لاحق خطرات سے متعلق جو بیان دیا تھا،اسے حکومت نے ملک دشمنی کا سب سے بڑا مقدمہ بناکر ان کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔یہاں تک کہ بی جے پی ترجمان سمبت پاترا نے ان کا موازنہ ‘میرجعفر’ جیسے غدار وطن سے کیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست میں زبان اور ذہن کی سطح کتنی پست ہوگئی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ سیاسی زبان درازی کی سزا صرف اور صرف اپوزیشن لیڈروں کو مل رہی ہے جبکہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اس سے محفوظہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بوفورس توپ سودے کے زمانے میں ایک نعرہ ایجاد کیا گیا تھاگلی گلی میں شور ہے ، راجیو گاندھی چور ہے ۔یہ نعرہ کسی ثبوت کے بغیر ایک بہتان ہی تھا،لیکن اس وقت اپوزیشن میں ایسے لوگ موجود تھے جو بڑے زور وشور سے یہ نعرہ لگارہے تھے ۔لیکن اس وقت کسی نے اس کی گرفت نہیں کی۔
راہل گاندھی کو ان کے جس بیان کے لیے سورت کی عدالت نے سزا کا مستحق قراردیا ہے ، وہ دراصل 2019کا معاملہ ہے جب راہل گاندھی نے کولار کے جلسہ عام میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ کیسے سبھی چوروں کا سرنیم مودی ہوتا ہے ۔جس وقت سورت کی عدالت نے انھیں دوسال کی سزا سنائی تو وہ عدالت میں موجود تھے اور ان کے وکیل نے یہ دلیل دی تھی کہ یہ بیان ارداتاً نہیں دیا گیا تھا،لیکن عدالت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ استغاثہ کی دلیل تھی کہ ملزم ایک ممبرپارلیمنٹ ہے اور اگر اسے یونہی چھوڑ دیا گیا تو غلط پیغام جائے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں راہل براہ راست ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتے کیونکہ ان کو سزا ایک فوجداری کیس میں ہوئی ہے ۔حالانکہ کوئی تیسرا فریق ہائی کورٹ سے مداخلت کی اپیل کرسکتا ہے ۔ایک شکایت یہ بھی ہے کہ راہل گاندھی کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ202کے تحت مناسب قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ ان کے وکیل نے یہ بھی دلیل دی کہ اس معاملے میں نریندرمودی کو خود شکایت کنندہ ہونا چاہئے تھا، کیونکہ شکایت کنندہ پرنیش مودی راہل کی تقریر کا نشانہ نہیں تھے ۔اب یہ بحث کا موضوع ہوسکتا ہے کہ وکیل دفاع کی اس دلیل کے بعد بھی کیا راہل کے بیان کو غیرارادتاً کہا جاسکتا ہے نہیں؟
سیاست میں تیکھے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔لیکن حالیہ عرصے میں سیاسی مکالمہ کی سطح جتنی پست ہوئی ہے ، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کے لیے کسی فردواحد کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔گزشتہ عرصہ میں ایسے بہت سے نعرے ایجاد کئے گئے ہیں جنھیں کسی بھی طور درست قرار نہیں کہاجاسکتا، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پر عدالت یا کسی اور نے توجہ نہیں دی۔آج کی لچر سیاسی زبان کے لیے کسی خاص شخص کو موردالزام ٹھہرانا عجیب سا لگتا ہے ، لیکن یہبھی حقیقت ہے کہ قانون دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پر ہی اپنا کام کرتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ بڑی عدالتوں میں راہل کو راحت ملے اور ان کی لوک سبھا رکنیت بحال ہوجائے ۔لالو پرساد اور اعظم خاں جیسوں کے معاملوں میں ہم سب دیکھ چکے ہیں۔ یہ دونوں اسی قسم کے معاملوں میں قصوروار قرار دئیے گئے تھے ، لیکن انھیں اعلیٰ عدالتوں سے راحت نہیں ملی۔فی الحال صورتحال یہ ہے کہ لوک سبھا سکریٹریٹ نے کیرل کی وائناڑ سیٹ کو خالی قرار دے دیا ہے جہاں سے راہل گاندھی 2019میں لوک سبھا کا چناؤ جیتے تھے ۔الیکشن کمیشن اب اس سیٹ پر ضمنی الیکشن کا اعلان کرسکتا ہے ۔دہلی میں راہل گاندھی کو سرکاری بنگلہ بھی خالی کرنا پڑسکتا ہے ۔ اگر راہل کی سزا کا فیصلہ اعلیٰ عدالت برقرار رکھتی ہے تو وہ اگلے آٹھ سال تک چناؤ بھی نہیں لڑ پائیں گے ۔دوسال کی سزا پوری کرنے کے بعد وہ اگلے چھ سال کے لیے نااہل رہیں گے ۔
کانگریس نے سوال اٹھایا ہے کہ صدر جمہوریہ ہی الیکشن کمیشن کے ساتھ مشورہ کرکے کسی ممبرپارلیمنٹ کو نااہل قرار دے سکتے ہیں۔ کانگریس نے اس معاملے میں سیاسی سطح پر لڑنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے ۔ وہ اس کے خلاف عوامی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ قانونی لڑائی بھی لڑی جائے گی۔پارٹی بلاک کی سطح پر احتجاج کرے گی اور دہلی میں بڑی ریلی کی جائے گی۔ دراصل کانگریس کے لیے راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت ختم ہونا ایک بڑے موقع کے طورپر دیکھا جارہا ہے کیونکہ اس معاملے جس طرح تمام ہی اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر راہل گاندھی کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ہیں، وہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے لیے امید کی ایک کرن ہے ۔اس معاملے میں سبھی اپوزیشن جماعتوں کا ایک ہی رخ ہے ۔ یہاں تک کہ عام آدمی پارٹی، ترنمول کانگریس اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتیں جو حالیہ عرصے میں کانگریس کو آنکھیں دکھا رہی تھیں، اب ایسا محسوس ہوتا ہے سب یکجا ہوگئی ہیں۔ سبھی نے راہل گاندھی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
کیا ہے ۔ یہ راہل گاندھی کے لیے ایک سنہری موقع ہے اور اگر سچ کہیں تو ’آپدا میں اوسر‘ہی ہے ۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو ختم کرنے کی جو روش اختیار کی ہے ، اس میں اسے کامیابی ملے گی؟ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ اپوزیشن متحد ہوکر حکومت کے اس منصوبے کوناکام بنادے ۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کے معاملے نے اپوزیشن کو یہ موقع فراہم کردیا ہے ۔وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر عوام کے درمیان جانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے جمہوری نظام کو جو سنگین خطرات درپیش ہیں اور جس طرح مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے نجات حاصل کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ اپوزیشن ایک ہی پرچم کے نیچے جمع ہواور غیردستوری، غیرجمہوری اور غیرانسانی کارروائیوں کے خلاف مشترکہ اعلان جنگ کردے ۔اگر اپوزیشن نے اس موقع کو گنوادیا تو پھر اس کی نوبت نہیں آئے گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر