... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہل گاندھی کو مودی سرکار کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ ان کے سارے الزامات کا ثبوت خود ملزم نے فراہم کردیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی سلب کردی گئی ہے ۔ پہلے مائک بند ہوتے تھے اب رکنیت مسترد ہوگئی۔ ایوان میں حزب اختلاف کے بعد ایک ایسا وقت آیا کہ حکمران ارکان کے مائک بھی بند ہوئے ۔ مودی اور شاہ جو اکثر ایوان سے غائب رہتے ہیں اگرحالیہ بجٹ اجلاس کے پانچویں دن ایوان میں موجود ہوتے تو ان کا مائک بھی بند ہوتا۔ ہندوتوا کے متعلق راہل کا موقف ہے کہ ساورکر اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے ڈرپوک اور گاندھی کے پیروکار بے خوف ہوتے ہیں۔ بی جے پی کو توقع تھی کہ راہل گاندھی عدالت میں کہہ دیں گے کہ میرا ارادہ کسی کو ٹھیس پہنچانے کا نہیں تھا اور وہ اس کے لیے معذرت چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد بی جے پی کو یہ کہنے موقع مل جائے گا کہ راہُل گاندھی سزا سے ڈر گئے لیکن الٹا ہوگیا۔راہل گاندھی نے سزا کو معافی پر ترجیح دے کر ساورکر اور گاندھی میں عملاً فرق بتادیا ۔1922میں گاندھی جی نے بھی معافی کے مقابلے سزا کو پسند کیا تھا ایک سوایک سال بعد راہل نے وہی کردکھایا ۔ زعفرانی حکمت سازوں نے اگر وسیم حجازی کے یہ اشعار پڑھے ہوتے تو راہل کو پنجرے میں بند کرنے کے لیے زخمی کرنے کی سعی نہیں کرتے
زخمی شیروں پے کیوں بُھونکتے ہو بھلا
زخمی شیروں کو کمزور سمجھا ہے کیا
شیر زخمی بھی ہو، تب بھی وہ غُرائے گا
خون تیری رگوں میں ہی جم جائے گا
راہل گاندھی کی رکنیت کے خاتمے میں غیر معمولی جلد بازی نے ثابت کردیا کہ بی جے پی کی رگوں میں خون جمنے لگا ہے ۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں عدالت کی آڑ لے کر پیچھے سے حملہ کررہی ہے ۔ راہل گاندھی کی رکنیت ختم کرکے اگر بی جے پی سوچ رہی ہے کہ اب گوتم اڈانی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھے گی تو یہ اس کی خوش فہمی ہے ۔ آئندہ پارلیمانی انتخاب تک اب صرف اڈانی ہی اڈانی ایوان کے اندر اور باہر چھایا رہے گا ۔ وزیر اعظم کی ساری توجہ اس کو چھپانے پر مرکوز رہے گی اور اڈانی کو بچانے میں ان کی ساری توانائی صرف ہوجائے گی ۔ایک سرمایہ دار کے تحفظ کی خاطر قانون اور ضابطے کی بے دریغ دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ معروف وکیل منو سنگھوی کے مطابق ہتک عزت کے دعویٰ کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کی بدنامی ہوئی ہو ان میں سے کو شکایت کرے ۔ راہل نے اپنی تقریر میں تین افراد کے نام لیے ان میں سے نیرو مودی اور للت مودی تو خیرملک سے فرار ہیں نیز نریندر مودی وزیر اعظم ہیں ۔ ان تینوں سے ہٹ کر پورنیش مودی کاعدالت میں سماج کی بدنامی کا مقدمہ دائر غیر قانونی ہے ۔
ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کیا اس مقدمہ کی سماعت اس کے اختیار میں ہے ؟ کیونکہ تقریر تو کرناٹک کے کولار میں ہوئی اور مقدمہ گجرات کے سورت میں دائر کیا گیا ۔ اس لیے مجسٹریٹ کو اس کی سماعت کا اختیار بھی مشکوک ہے ؟ اختیار ہو تب بھی فیصلہ کرنے سے قبل معاملہ کی تفتیش ضروری ہے لیکن چونکہ سزا دینے کی جلدی تھی اس لیے جانچ پڑتال بھی نہیں کی گئی۔ سرکاری جلدبازی قابلِ فہم ہے ۔ حزب اقتدار نے بجٹ سیشن کے دوسرے حصے کا پہلا ہفتہ راہل سے معافی منگوانے کے چکر میں گنوادیا ۔ راہُل نے واپس آکراپنے اوپر لگنے والے اوٹ پٹانگ الزامات کا جواب دینے کے لیے اسپیکر سے وقت مانگا جو رکن پارلیمان کی حیثیت سے ان کا حق ہے ۔ ایوان کے باہر دیئے جانے والے بیانات کو اگر پارلیمان میں لایا جائے تو اس کا جواب دیناراہل گاندھی کی ذمہ داری ہے اور اس کی ادائیگی سے ا نہیں روکنا غلط ہے ۔ پچھلے آٹھ سالوں میں کئی مرتبہ راہل گاندھی نے حکومت کو اپنے دلائل سے چاروں خانے چت کیا ہے اور اڈانی پر ان کی تقریر سبھی کو یاد ہے ۔ایسے میں راہل کو اظہار خیال کا موقع دینا اپنی شامت کو دعوت دینے جیسا تھا ۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ان کی رکنیت مسترد کروانا تھا لیکن تین سو سے زائد ارکان کی اکثریت کے باوجود ایک فرد سے اس قدر خوف کیوں؟ وسیم حجازی مذکورہ نظم میں اس کا یہ جواب ہے کہ
کیا تُو شیروں کی فطرت سے واقف نہیں
شیر زخمی بھی ہو پھر بھی ڈرتا نہیں
زخمی ہوجائے گر، گِر بھی جائے اگر
شیر کے دِل میں ہوتا نہیں خوف و ڈر
اس معاملے پر پورنیش مودی نے جو قلابازیاں کھائیں وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہیں ۔ 16؍اپریل 2019 کو شکایت درج کرائی گئی ۔جون 2021 میں راہل گاندھی عدالت میں حاضر ہوکر اپنا بیان درج کرایا ۔ اس دو سال کے عرصے میں چونکہ مودی جی بڑے اطمینان سے حکومت کررہے تھے اس لیے کوئی عجلت نہیں دکھائی گئی۔ مارچ 2022 میں یعنی شکایت کے تین سال بعد شکایت گزار نے راہل گاندھی کے خلاف پھرسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو جسٹس دوے نے اسے سختی کے ساتھ ٹھکرادیا۔ اس کے بعد 7؍ جون کو پورنیش اپنے مقدمہ کی سماعت پرروک لگانے کے لیے ہائی کورٹ پہنچ گئے اس لیے کہ انہیں خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف نہ ہوجائے ۔ ۱۱؍ ماہ تک کمبھ کرن کی نیند سونے کے بعد پورنیش اچانک ام سال فروری میں ہائی کورٹ پہنچ کر رکاوٹ کو دور کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ نئے شواہد سامنے آئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دوران اڈانی کا معاملہ سامنے آگیا اور راہلُ گاندھی نے ایوان پارلیمان میں سرکار کو بری طرح گھیرلیا۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ پرانے جج کی جگہ ایک نیا موافق جج آگیا اورانہوں نے راہل گاندھی
کی رکنیت کے خاتمے کا راستہ کھول دیا ۔
اس مقدمہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فوجداری کے تحت قائم کیے جانے والے ہتک عزت کے دعویٰ میں ملزم کی نیت اور ارادے کا مذموم ہونا ثابت کرنا لازمی ہے ۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ راہل گاندھی نے قومی مسائل مثلاً مہنگائی ، بیروزگاری اور بدعنوانی پر گفتگو کرتے ہوئے دو ایسے لوگوں کے نام لیے جو بدعنوانی کے سبب ملک سے فرار ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی پر اس وقت رافیل بدعنوانی کا الزام تھا ۔ ایسے میں ان کا ارادہ یا نیت مودی سماج کو بدنام کرنے کی ہر گز نہیں تھی، اس لیے آئین کے مطابق انہیں سزا نہیں ہوسکتی لیکن اندھیر نگری اور چوپٹ راج میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اپوزیشن اتحاد کی راہوں میں ڈھائی بڑی رکاوٹیں ہیں ۔ ایک اروند کیجریوال اور دوسرے ممتا بنرجی نیز ان کے ساتھ نصف رکاوٹ اکھلیش یادو ہیں جو کبھی تو چنئی میں جاکر اتحاد کا راگ گاتے ہیں اور پھر کولکاتہ پہنچ کر اپنا سُر بدل دیتے ہیں ۔ راہل کے خلاف جب سورت کے جوڈیشیل مجسٹریٹ کا فیصلہ آیا تو اروند کیجریوال نے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس کی مخالفت کی ۔ اس طرح ایک دیوار گرگئی۔
راہل گاندھی کی رکنیت مسترد ہوئی ممتا بنرجی نے حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی ایم مودی کے نیو انڈیا میں اپوزیشن لیڈران بی جے پی کے نشانے پر ہیں۔ مجرمانہ پس منظر والے بی جے پی لیڈران کو کابینہ میں شامل کیا جاتا ہے ، اور اپوزیشن لیڈران کو ان کی تقریر کے لیے نااہل ٹھہرایا جاتا ہے ۔ آج ہم آئینی جمہوریت میں ایک نہایت نچلی سطح دیکھ رہے ہیں‘‘۔ جب بڑے بت گرگئے تو چھوٹے کی کیا بساط؟اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے راہل گاندھی سے یکجہتی جتاتے ہوئے کہا کہ ’’آج کانگریس کے سب سے بڑے لیڈر کی رکنیت گئی ہے ۔ اس طرح سے قانونی کارروائی ہوئی تو بی جے پی کے کئی لیڈران کی رکنیت چلی جائے گی۔ یہ جان بوجھ کر اصل مسائل مثلاً مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ‘‘۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اعظم خان اور ان کے بیٹے کی بھی رکنیت اسی طرح گئی تھی۔
مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے بولے کہ ’’لٹیرے آزاد ہیں اور راہل گاندھی کو سزا دی گئی ہے ۔ چور کو چور کہنا گناہ ہو گیا ہے‘‘۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ وائی ایس آر نے بھی ٹوئٹر پر لکھا کہ نیرو مودی ، للت مودی اور وجئے ملیا کو چور کہنے پر نااہل قرار دیا گیا۔ میں اپنی شدید بے اطمینانی ظاہر کرتا ہوں۔ یہ بے حد شرمناک ہے ۔ راہل گاندھی نے اپنی رکنیت منسوخ کیے جانے کے بعد بذریعہ ٹوئٹ کہا ’’میں ہندوستان کی آواز کے لیے لڑ رہا ہوں۔ میں ہر قیمت چکانے کو تیار ہوں‘‘۔اس طرح حزب اختلاف کو جوڑنے کا جو کام کانگریس یا راہل کے لیے نا ممکن تھا اسے بی جے پی نے آسان کر دیا۔ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا کر جیل میں سارے مخالفین کو متحد کردیا تھامگر موجودہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں یہ کام جیل کے باہر زیادہ آسانی سے ہو سکتا ہے ۔ دولت کے بل بوتے پر گودی میڈیا کی مدد سے شہرت حاصل کرنے والی بی جے پی کو بشیر بدر کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیے
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
٭٭٭