... loading ...
جلال نورزئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی سیاست میں بدمزگی اپنی انتہا پر ہے، ہیجانی صورت ِحال ہے۔ تزویراتی اہمیت و حساسیت کے حامل صوبہ بلوچستان کی فضا بھی موافق نہیں ہے۔ امن وامان کی صورتِ حال خرابی کا نمایاں اظہار کررہی ہے۔ اہلِ سیاست گروہی فوائد لینے کی سبقت میں لگے ہیں۔ حکومت اپنی اصل میں بے وجود و بے حرکت ہے۔
ایسے میں بلوچستان کے اساسی معاملات کا نظرانداز کیا جانا خرابیِ بسیار کی دانستہ کوشش تصور کی جاتی ہے۔ ظلم یہ کہ تحریک انصاف کے گورنر سید ظہور آغا 13اپریل 2022ء کو مستعفی ہوئے، تب سے اس اہم آئینی منصب پر تقرر نہ ہوسکا۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے لوگوں کے تقرر کی تگ و دو کرتی رہیں۔ اس پورے عرصے اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی قائم مقام گورنر رہے۔ وہ دسمبر2022ء سے خرابیِ صحت کی وجہ سے کراچی اور اپنے آبائی علاقے میں مقیم رہے۔ اس طرح قائم مقام کی نمائندگی بھی مفقود رہی، ساتھ ہی اس عرصے میں بلوچستان اسمبلی بھی بے اسپیکر رہی۔ آخرکار بلوچستان نیشنل پارٹی کے عبدالولی کاکڑ کا تقرر کرہی لیا گیا، جنہوں نے 5مارچ کو بہ حیثیت گورنر بلوچستان حلف اٹھالیا۔ وفاقی حکومت یا میاں شہبازشریف کی حکومت کمزور بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو شاید عبدالولی کاکڑ کا تقرر نہ ہوتا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی گاہے بگاہے مرکزی حکومت سے علیحدگی کی دھمکیاں دیتی رہتی ہے۔ ولی کاکڑ کی تقرری سے قبل یعنی25فروری کو بلوچستان نیشنل پارٹی نے لاپتا افراد، ماہل بلوچ کی رہائی اور دوسرے مسائل جن پر یہ جماعت بولتی رہتی ہے، ایک روزہ علامتی بھوک ہڑتال کی، اور اختتامی نیوز کانفرنس میں ایک بار پھر وفاقی حکومت کو مسائل حل نہ کرنے اور تحفظات دور نہ کرنے کی صورت میں علیحدگی کی دھمکی دی۔ اِس بار اس نے ماہل بلوچ کے مسئلے پر صوبے کی حکومت کی حمایت واپس لینے پر غور کا عندیہ بھی دیا۔ بہرحال صوبے کی حکومت سے تو اِس وقت بھی بی این پی شیر و شکر ہے، البتہ وفاقی حکومت نے گورنر شپ ضرور دلادی ہے۔ بی این پی اگر چاہے تو گورنر کے توسط سے صوبے کے اندر نمائندہ کردار نبھا سکتی ہے کہ اِس وقت صوبے کو قیادت و حکمرانی کے شدید فقدان کا سامنا ہے۔ حال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو گورنر عبدالولی کاکڑ کی تقریب حلف برداری میں بھی شریک نہ ہوئے باوجود اس کے کہ وزیراعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوس آمنے سامنے ہیں اور محض چند فٹ کا فاصلہ ہے۔حکومتی معاملات دگرگروں ہیں۔ حکومت اخباری بیانات، ترجمانوں اور کوآرڈی نیٹر کی اچھل کود پر چلائی جارہی ہے۔ اب تو خیر سے ترجمان دو ہوگئے ہیں، فرح عظیم شاہ صوبائی حکومت کی ترجمان ہیں، اضافہ وزیراعلیٰ کے ترجمان کا کیا جا چکا ہے۔ بابر یوسف زئی نامی شخص کو یہ عہدہ دیا گیا ہے۔ دونوں ترجمانوں کو تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل ہیں۔صوبے کے بیشتر اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ایک سال قبل کرائے گئے، اس کے بعد اس کے مختلف مراحل اب تک مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔ کوئٹہ میں اب تک انتخابی عمل کا پہلا مرحلہ ہی شروع نہیں ہوسکا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت مقامی سطح کی حکومتوں کے ساتھ مخلص نہیں۔ اگر ضلعی حکومتیں بن بھی گئیں تو یہ پہلے کی طرح بے اختیار ہوں گی۔حالیہ چند دنوں میں دہشت گردی کے ہوش اڑا دینے والے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ 6مارچ کو سبی میلے سے کوئٹہ جانے والے بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک پر خودکش حملہ ہوا جس میں9 پولیس اہلکار جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس سے امن وامان کی ابتر صورتِ حال کی خوب نشاندہی ہوتی ہے۔ معاملات کو احسن طریقے سے نمٹانے اور حل کرنے کی راہیں تلاش کرنے کے بجائے مزید بگاڑ کی حکمت عملی دکھائی دیتی ہے۔
گوادر کے عوام کا احتجاج ہنوز بہتر طور پر حل کا متقاضی ہے، مگر حکومت مافیائوں کی پشت پناہ بنی ہوئی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان دہشت گردی سمیت مختلف مقدمات قائم کرکے جیل میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ 9 مارچ کو وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نہ جانے کیسے نیند سے بیدار ہوکر گوادر کے دورے پر گئے۔ اْس روز چیف آف آرمی اسٹاف سمیت دوسرے اعلیٰ حکام بھی گوادر میں تھے۔ اس دوران حق دو تحریک کے ہزاروں مرد و خواتین اپنے مطالبات کے حق میں اور مولانا ہدایت الرحمان کی رہائی کے لیے گوادر کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ 10 مارچ کو کوئٹہ میں ریڈ زون کے قریب ہاکی چوک پر جماعت اسلامی نے مولانا ہدایت الرحمان کی رہائی اور گوادر کے عوام کے جائز مطالبات کے لیے دھرنا دیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد دھرنے میں شریک ہوئے۔ گوادر میں خواتین مطالبات کے لیے ریکارڈ تعداد میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرچکی ہیں۔ 19مارچ کو ایک بار پھر مولانا ہدایت الرحمان کی رہائی کے لیے خواتین نے شاہراہوں پر نکل کر بے مثل احتجاج کیا۔ خواتین کی اس ریلی و جلسے میں سینیٹر مشتاق احمد خان، جماعت اسلامی کی رہنما اور بلوچستان اسمبلی کی سابق رکن ثمینہ سعید بھی شریک ہوئیں۔ مولانا ہدایت الرحمان کی والدہ اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی اہلیہ بھی احتجاج میں شریک تھیں۔ چناں چہ گوادر کا مسئلہ حل ہونا قطعی مشکل امر نہیں ہے، البتہ لازم ہے کہ مافیائوں کے مفاد کے بجائے عوام کے مفاد کو مقدم سمجھا جائے۔ گویا بلوچستان مشکل حالات سے دو چار ہے۔ ناقص حکمرانی رہے گی اور سیاسی نوعیت کے امور حل کرنے کے بجائے پیچیدہ بنائے جائیں گے تو بگاڑ بتدریج بڑھتا جائے گا۔
٭٭٭