... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔
روس اور چین اپنے دوست ممالک کے تنازعات ختم کرانے اور انھیں منظم کرنے میں مصروف ہیں مگر امریکاکو برتری یہ حاصل ہے کہ وہ نہ صرف نیٹوکی صورت میں دنیا کے سب سے بڑے دفاعی اتحاد کا حصہ ہے بلکہ اسے مشرق ِ وسطیٰ کے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کابھی تعاون حاصل ہے۔ نیز ایشیا سے لیکر افریقہ تک تجارتی سامان سمیت دفاعی سازوسامان کے اچھے خریدار میسر ہیں۔ اسی لیے مقامی تنازعات کوختم ہونے سے روکنا اور اُنھیں جاری رکھنااُس کی مجبوری ہے تاکہ دفاعی صنعت کی پیدوار کی کھپت ہوتی رہے مگر روس اور چین کی کوشش ہے کہ نہ صرف عالمی تنازعات ختم کرائے جائیں بلکہ دوست ممالک کو ایک پیج پرلایاجائے۔ مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم ممالک کوتعلقات بحال کرنے پر رضامندکرنے کی چینی کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہو چکیں اب اُس کی نظریں روس کے ساتھ مل کر مزید تنازعات پر ہیں۔ چین کی معاشی و دفاعی طاقت ایسی حقیقت ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔ روس کی ہتھیارسازی اور فوجی کامیابیاں بھی عیاں ہیں ۔ نیٹو کے ممبر ملک ترکیہ کاامریکی ناپسندیدگی کے باوجود روسی میزائل نظام خریدنا اور پھر بھارت کا بھی امریکا کے منع کرنے کے باوجود میزائل نظام حاصل کرنا ثابت کرتا ہے کہ روسی ہتھیار اب بھی دنیاکے پسندیدہ ہیں۔
روس اور چین دونوں مل کر تجارتی اور دفاعی حوالے سے امریکا کو محدود کرنے اور عالمی منظرنامہ بدلنے میں مصروف ہیں۔ رواں ماہ چین نے ایران اور سعودیہ کو تعلقات بحال کرنے پر رضامند کیا جسے غنیمت جانتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کی طرف سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کوبذریعہ خط دورے کی دی گئی دعوت بخوشی قبول کر لی گئی۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی میںخطے کامفادقرار دیاہے ۔ ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر نے اپنے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یمن معاملے کو اندرونی تو قرار دیا لیکن اِس پربھی آمادگی کا اظہار کیا کہ سعودی عرب کے تعاون سے خطے میںاستحکام لانے کے لیے کوشش کریںگے یہ دونوں ممالک کے اخلاص کو ظاہرکرتاہے۔ خطے میں دلچسپی رکھنے والوں کو امیدہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں اہم حیثیت اختیار کرنے کی راہ ہموار کر چکا ہے۔ روس کی بھی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے زیرِ اثر لائے اور اِس حوالے سے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا تعاون حاصل ہے ۔
مگر کیا روس اور چین کو عالمی منظر نامے پر ایک جیسی کامیابیاں مل رہی ہیں ؟بظاہرایسا نہیں ۔دونوں کی سوچ اور کوشش یکساں ضرور ہے لیکن کامیابیوں کی رفتار میں فرق ہے۔ مثال کے طور پرروس چاہتا ہے ترکیہ اور شام کے تعلقات میںکشیدگی اور تنائوکا خاتمہ ہو۔ وہ دونوں ممالک میں دوریاں ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے لیکن شام نے تعلقات کی بحالی کومشروط کر دیاہے ۔حال ہی میںبشار الاسد نے روسی دورے سے واپسی پر یہ کہہ کر ترکیہ سے قریبی تعلقات قائم کرنے سے انکار کر دیاہے کہ جب تک وہ شام سے اپنے فوجی واپس نہیں بلا لیتا تعلقات بحال نہیں ہو سکتے ۔ ترکیہ نے شامی صدر کی طرف سے تعلقات کی بحالی مشروط کر نے پر شدید ردِعمل دیا ہے لیکن شام نے شدید ردِعمل کو اہمیت نہیں دی ۔حالانکہ ترکیہ چند برس قبل ایک روسی طیارہ گراچکا بھلے بعد میں معذرت کر لی لیکن سچ یہ ہے کہ امریکا اورترکیہ تعلقات میں آنے والی سرد مہری سے روس فائدہ اُٹھانے کے چکر میں ہے۔ اسی لیے نہ صرف معذرت قبول کر لی بلکہ میزائل نظام فروخت کرتے ہوئے بھی جلد بازی دکھائی۔ بشارالاسد کے اقتدار کی بحالی اور انتخابات میں دوبارہ کامیابی روسی مرہونِ منت ہے پھروہ روس کی خواہش کے باوجود ترکیہ سے تعلقات بحال کرنے میں کیوں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں اب اپنے قرب و جوار میں روس کے علاوہ بھی کمک ملنے لگی ہے۔ رواں ماہ اُنیس مارچ کو صدر بشار الاسد نے ابوظہبی میں اماراتی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ یہ شام میں گزشتہ ماہ زلزلہ آنے کے بعد اُن کا دوسرا خلیجی دورہ ہے۔ اِس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ اِسے دمشق کو عرب حلقے میں واپس لانے کی کوشش سمجھاجارہا ہے۔ شامی زلزلہ زدگان کوامداد چاہئے ،براہ راست نہ سہی لیکن سعودیہ کی طرف سے مسلسل پہنچ رہی ہے۔ اسی لیے صدر بشار خطے میں خود کو تنہا نہیں سمجھتے بلکہ اُن کے اعتمادمیں اضافہ ہوا ہے مگر شرائط عائد کرناپھربھی ناقابلِ فہم ہے مگر کیا روس دبائو نہیں ڈالے گا۔ ظاہر ہے ایسا ہوناقرین قیاس ہے اُس کی پوری کوشش ہو گی کہ ترکیہ اور شام میں دوریاں ختم ہوں تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی حیثیت کمزورہو۔ اسی لیے خطے پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شامی صدر کی شرائط جلد ختم ہو جائیں گی اور وہ ترکیہ سے تعلقات کی بحالی پر رضامند ہوسکتے ہیں۔
روس اور چین مل کر عالمی منظر نامہ بدلنے اور اپنے حق میں کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں کے علاقائی اور عالمی معاملات میں مشترکہ مقاصدہیں۔ اِس حوالے سے چینی صدر ژی جن پنگ کا بیس مارچ سے ماسکو کاتین روزہ جاری دورہ نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے ۔ دونوں ممالک میں سیکورٹی،اقتصادی ، سیاسی امورسمیت ہر معاملے پر بات چیت ہوئی ہے۔ چین جویوکرین جنگ کے خاتمے، امن مذاکرات کے آغاز اور نام لیے بغیر روس کے خلاف عائد کی گئی عالمی پابندیوں کے خاتمے کی بات کرتاہے۔ روس بھی مذاکرات کے لیے تیارہونے کا عندیہ دیتاہے لیکن امریکا اور اُس کے اتحادی ممالک ایسے کسی فارمولے کے خلاف ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کہتے ہیں کہ ایسا ہونا دراصل روسی موقف اور جارحیت کی توثیق ہو گی۔ نیز بیجنگ تجاویز یوکرین جنگ میں روسی شکست روکنے کا حربہ ہے۔ چین نے اقوامِ متحدہ کی طرف سے روس کی مذمت کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ اب چینی صدر کا ایسے حالات میں ماسکو جانا جب روس اور یوکرین میں جھڑپیں جاری ہیں روس کی غیر مشروط اور مضبوط حمایت کا اشارہ ہے اور اِسے دونوں ممالک کی طرف سے امریکی بالادستی کے خلاف مل کر چلنے کی کوششوں کومزید مربوط بنانے کے طورپر دیکھا جارہاہے ۔ چین کا موقف ہے کہ وہ اب بھی غیر جانبدار ہے۔ البتہ وہ ماسکو اور کیف میںصلح کرانے کی باتوں کو نہیں جھٹلاتا،اگر مشرقِ وسطیٰ کی طرح یہ بھی کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو صدرژی کی نہ صرف اپنی ساکھ میں اضافہ ہوگا بلکہ چین کا عالمی کردار بھی وسیع ہوگا۔
روس اور چین کے کردار کو عالمی منظر نامے پر دیکھا جائے تو اِس میں شبہ نہیں کہ روس پربھی چین کو مضبوط معیشت کی وجہ سے سبقت
حاصل ہے اور روس اِس وقت ایسا معاون شراکت دار ہے جسے جونیئر پارٹنرکہہ سکتے ہیں۔ اسی لیے روسی کوششوں کو اتنی پزیرائی نہیں ملتی جتنی کامیابی چین کے حصے میں آرہی ہے۔ چینی صدر اپنے روسی ہم منصب پیوٹن کو2019میں اپنا بہترین دوست کہہ چکے۔ کچھ حلقے ہر روسی اقدام کو چین کی طرف سے توثیق کے طور پر لیتے ہیں۔ گزشتہ برس یوکرین پر حملے کی پاداش میں جب امریکا اور مغربی ممالک نے تجارتی پابندیاں لگائیں اور مغربی ممالک نے تیل و گیس کی درآمد محدود کرنے اور ہائی ٹیک مصنوعات پر اِس حدتک پابندیاں لگا دیں کہ اکثر مغربی کمپنیوں نے روسی فرموں سے روابط تک منقطع کرلیے جس سے یورپی یونین،برطانیہ اور امریکا سے روس کی تجارت میں بڑی حد تک کمی ہو گئی ، اِن حالات میں چین نے روسی معیشت کو سہارا دیا۔ چین کو تجارت میںروس پر بالادستی حاصل ہے کیونکہ روس کو چین کی برآمدات 114 بلین ڈالر جبکہ درآمدات 76بلین ڈالرہیں۔ لیکن دونوں ممالک دفاعی میدان میں باہمی تعاون بڑھانے کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔ اسی لیے دونوں ممالک کی طرف سے جاری عالمی منظر نامہ بدلنے کی کاوشوں پر مغربی ممالک اور امریکا پریشان ہیں۔ امریکا نہ صرف روس اور یوکرین تنازع کے حل کے لیے چینی کوششوں کی مخالفت کرتا ہے بلکہ ایسی کوششوں کو روسی جارحیت کی توثیق قرار دیتا ہے لیکن ایسی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ یوکرین نہ صرف چین کی تجاویز کسی حد تک قبول کرنے پر آمادہ ہے بلکہ اِس حوالے سے پسِ پردہ کام بھی جاری ہے۔ اگرعارضی طورپرہی سہی خطے میں امن بحال ہوجاتاہے تو عالمی منظر نامے میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔
٭٭٭