... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنقریب نیکیوں کاموسم بہار ماہ رمضان المبارک ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔رمضان اللہ تعالی کی رحمتوں اور عنایتوں والا مہینہ ہے۔ رمضان المبارک مہمان بن کر آتا ہے اور اس کا اکرام واحترام اور قدر دانی کرنے والے کو انعامات الہی سے نواز کر جاتا ہے۔ اسی لیے اس مہینہ کی آمد کا انتظار ہر مسلمان کو رہتا ہے۔ اس مہینہ کا انتظار خود نبی کریمۖ کوبھی رہتا اور آپ رجب کے مہینہ سے اپنی دعاؤں میں اس کاتذکرہ فرماتے کہ:اے اللہ !ہمارے لیے رجب وشعبان میں برکت عطا فرمایااور رمضان کے مہینہ تک ہمیں پہنچا۔
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا۔اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن میں اور رمضان کے مہینے میں خصوصی مناسبت اور تعلق ہے ۔اس مہینے میں پورے مہینے روزہ رکھا جاتا ہے ذکر و عبادت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ایسے پاکیزہ ماحول میں قرآن کی تلاوت، تراویح میں قرآن کو سننا۔ یہ چیزیں لوگوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن سے قریب ہوں اور قرآن کے پیغام کو سمجھیں۔ غرض رمضان کا یہ مقدس مہینہ تاریخی اعتبار سے قرآن کے نزول کا مہینہ ہے اور تربیت کے اعتبار سے قرآن کو اپنے دل و دماغ میں اتارنے کا مہینہ ہے۔
یہ قرآن کریم کے اعجاز کا وہ سدا بہار پہلو ہے جس کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ پہلو ایسا ہے جس کے ساتھ مسلمان کا تعلق آج بھی قائم ہے، بلکہ یہ عرض کیا جائے تو مناسب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ ایک بار پھر تازہ کر دیتے ہیں۔ سوچیے اگر رمضان المبارک میں تراویح اور قیام اللیل کا یہ مربوط نظام نہ ہوتا اور ہر طرف قرآن کی قرات اور سماع کی گہماگہمی نہ ہوتی تو کیا ہمارا قرآن کریم کے ساتھ یہ جوڑ باقی رہتا جو آج سب کو نظر آرہا اور دنیا بھر اسلام دشمن قوتوں کے لیے اضطراب اور بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے؟ بلکہ قرآن کریم کے حفاظ اور قراء کرام، جو دنیا میں ایک کروڑ کے لگ بھگ ضرور ہوں گے، کیا تراویح، شبینہ اور قیام اللیل کے اس سسٹم کے بغیر قرآن کریم حفظ کر لینے کے بعد اسے زندگی بھر یاد رکھنے میں کامیاب ہو پاتے؟
رمضان المبارک کی برکات میں سے صرف اس ایک برکت کی وسعت اور تنوع پر غور کر لیا جائے تو ایمان تازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ قائم ہے اور ہر سال اس کی تجدید ہوجاتی ہے۔ بلکہ اس صورتحال کی یہ تعبیر بھی نامناسب نہیں ہوگی کہ ہماری سال بھر کی غفلتوں، بے پروائیوں اور کوتاہیوں کے بعد اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں ہمیں پھر سے قرآن کریم کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور ہماری بیٹریاں اپنی اپنی گنجائش کے مطابق چارج ہوجاتی ہیں۔ قرآن کریم کے ساتھ ہم جس قدر عقیدت کا اظہار کریں کم ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ تو ہے ہی، ہماری وحدت اور ہم آہنگی کا بھی سب بڑا ذریعہ ہے، لیکن اس سے ہٹ کر ایک اور پہلو بھی ہے کہ ہم تو قرآن کریم کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں اور مختلف حوالوں سے اپنے تعلق اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خود قرآن کریم ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے اور وہ ہمیں کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اس سلسلہ میں سورة الفاطر کی آیت نمبر ٣٢ آپ کے سامنے تلاوت کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں فرمائی ہیں:ایک یہ کہ جن لوگوں کو ہم نے قرآن کریم کا وارث بنایا ہے ان کا انتخاب ہم نے خود کیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کے وارث ہیں وہ تینوں درجوں پر ہیں۔ ایک طبقہ ان میں ظالم ہے، دوسرا مقتصد ہے اور تیسرا سابق بالخیرات ہے۔
قرآن اور رمضان کی پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرمۖنے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ، میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ، میں نے رات کو اسے سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (مسنداحمدوطبرانی) تیسری خصوصیت جو رمضان اور قرآن دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قرب الہٰی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزے دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزے کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، میں خود ہی روزے کا بدلہ ہوں۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے قرآن ورمضان کی صرف تین مشترک خصوصیات کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔لیکن صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے۔ اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے۔ گزشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ”تقویٰ” کہا جاتا ہے۔
٭٭٭