... loading ...
معصوم مرادآبادی
……………..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا دوسرا حصہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعصاب شکن تکرار کی نذر ہوا چاہتا ہے ۔ پانچ دن بعد بھی پارلیمنٹ چلنے کے آثار نہیں بن سکے ۔لندن میں دئیے گئے راہل گاندھی کے بیان کو مودی سرکار نے ملک دشمنی کا سب سے بڑا کیس بنادیا ہے اور اس معاملے میں ان سے غیرمشروط معافی کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔کہا جارہا ہے کہ اگر معافی نہیں مانگی تو راہل گاندھی کی لوک سبھا سے معطلی کے لیے کارروائی شروع کی جائے گی۔اس سلسلے میں مرکزی وزیر نشی کانت دوبے نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو ضابطہ نمبر223کے تحت خط لکھ کر راہل گاندھی کے ‘توہین آمیز’ تبصرے کی جانچ کرنے اور انھیں لوک سبھا سے معطل کرنے کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے کامطالبہ بھی کردیا ہے ۔واضح رہے کہ راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں برطانوی دارالحکومت لندن کے سفر میں ہندوستانی جمہوریت کے تسلسل پر کچھ سوال قایم کیے تھے ۔انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں جمہوری ماڈل کی سوچ پر حملہ ہورہا ہے ۔ اگر ہمارا جمہوری ماڈل زوال پزیر ہوا تو کرہ ارض پر جمہوریت کو دھچکا لگے گا۔ انھوں نے ایک ہندوستانی نژاد خاتون کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یہ ہرہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ دنیا میں ہرجگہ ہندوستان کی بنیادی اقدار کے لیے آواز اٹھائے اور اپنی جمہوریت کی حفاظت کرے ۔
راہل گاندھی کے اس بیان کو حکمراں طبقہ نے ہندوستان پر حملہ تصور کرتے ہوئے ان کے خلاف محاذکھول دیا ہے ۔ ملک گیر سطح پر بی جے پی کے لیڈران راہل کو نشانہ بنارہے ہیں۔ الزام ہے کہ انھوں نے غیرملکی سرزمین پر ہندوستان کو بدنام کیا ہے ، جس کے لیے انھیں پارلیمنٹ میں تحریری طورپر معافی مانگنی چاہئے ۔ مرکزی وزیروں پرہلاد جوشی، ارجن رام میگھوال،ممبرپارلیمنٹ سدھانشو ترویدی اور انل بالونی نے راہل گاندھی پر جارحانہ الزامات لگائے ہیں۔کہا گیا کہ پورے ملک میں راہل گاندھی کے خلاف غم وغصہ ہے کیونکہ انھوں نے غیرملکی سرزمین پر پارلیمنٹ کی توہین کی ہے اور ہندوستان کی بے عزتی کی ہے ۔اس دوران مرکزی وزیرقانون کرن رجیجو نے راہل گاندھی پر ہندوستان مخالف زبان بولنے کا الز ام لگاتے ہوئے کہا کہ ملک نے انھیں مسترد کردیا ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھیں غیرملکی سرزمین پر جمہوریت کی توہین کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے ۔
اس سوال سے قطع نظر کہ خود حکومت کی غیر جمہوری اورفرقہ وارانہ کارروائیوں سے ملک کی کتنی عزت اور وقار بلند ہورہا ہے ، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جمہوری نظام میں ہرشخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہے ۔ وہ ملک کے اندر کہی جائے یا پھر ملک کے باہر۔ کیا ملک کی سرحد عبور کرنے پر اظہاررائے کی آزادی ختم ہوجاتی ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ ہراس شخص کا منہ نوچنے کی کوشش کی جارہی ہے جو حکومت سے سوال کرنے کی جرأت کررہا ہے ۔ ملک میں اس وقت کوئی اپوزیشن پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے لیڈروں کے پیچھے سی بی آئی، انکم ٹیکس اور ای ڈی نہیں لگے ہیں۔ ملک میں اصل بے چینی اور ناراضگی دراصل اسی بات پر ہے کہ آخر سرکاری ایجنسیاں صرف اور صرف اپوزیشن لیڈروں کو ہی کیوں نشانہ بنا رہی ہیں جبکہ حکومت میں بیٹھے ہوئے یا اس کی حمایت کرنے والوں پر کسی ایجنسی کی کوئی نگاہ نہیں ہے ، خواہ وہ کتنا ہی بڑی بدعنوانی میں کیوں ملوث نہ ہوں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے جمہوری اداروں کی خودمختاری اور ان کے مستقبل کے تعلق سے طرح طرح کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ پارلیمنٹ جیسے جمہوریت کے مندر میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن کے کئی ممبران نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ جب بیان دینے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے مائک بند کردئیے جاتے ہیں تاکہ ان کی آواز کوئی سن نہ سکے ۔یہاں تک کہ راہل گاندھی نے بجٹ اجلاس کے شروع میں اڈانی اسکینڈل سے متعلق جو تقریر کی تھی اس کے بیشتر حصوں کو ریکارڈ سے ہٹا دیا گیا ہے ۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ممبر کی تقریر کو اس حدتک ایڈٹ کیا گیا ہے کہ اس کا مفہوم ہی ختم ہوگیا۔ دراصل حکومت کا سب سے بڑا درد سر اس وقت اڈانی کا معاملہ ہی ہے ۔ اپوزیشن اڈانی معاملے کی جانچ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی)بنانے کا مطالبہ کررہی ہے تاکہ اس معاملے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے ۔ لیکن حکومت اڈانی کے انتہائی سنگین اسکنڈل کو رفع دفع کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے توجہ ہٹانے کے لیے ہی راہل گاندھی کے بیان کوحب الوطنی سے جوڑ کر بڑا موضوع بنایاجارہاہے ۔
راہل گاندھی حالانکہ شروع سے بی جے پی کے نشانے پر ہیں، لیکن جب سے انھوں نے کنیا کماری سے کشمیر تک کی کامیاب بھارت جوڑو یاترا کی ہے تب سے وہ حکومت کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکنے لگے ہیں۔ راہل گاندھی نے اپنی یاترا کے دوران ملک کے عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک اور افلاس جیسے مسائل کے علاوہ بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے سنگین خطرات سے آگاہ کیاہے ۔ موجودہ حکومت کا سب سے کامیاب حربہ یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے انھیں فروعی معاملات میں الجھاکر رکھنا چاہتی ہے ۔ ‘بھارت جوڑو یاترا’کے دوران راہل گاندھی کے سری نگر میں خواتین کے جنسی استحصال سے متعلق ایک بیان پر بھی دہلی پولیس نے انھیں نوٹس بھیج کر بازپرس کی ہے ۔راہل نے کہا تھا کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ خواتین کا اب بھی جنسی استحصال ہورہا ہے ۔بے عزتی کے خوف سے وہ پولیس کے پاس نہیں جاتیں۔دہلی پولیس نے راہل گاندھی کو نوٹس بھیج کر ان خواتین کی جانکاری طلب کی ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں حالیہ تعطل کی بڑی وجہ حکومت کے اراکین کا جارحانہ رویہ ہے ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے چلوانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ماضی میں جب کبھی اپوزیشن کو حکومت سے کوئی شکایت ہوئی ہے تو مسائل کو مفاہمت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور پارلیمنٹ کی کارروائی کو چلایا گیا ہے ۔لیکن بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں خود حکومت کے اراکین نے ہی راہل گاندھی کی معافی کو ایک بڑا موضوع بناکر ایوان کو ٹھپ کردیا ہے ۔راہل گاندھی نے اپنے لندن کے بیان کے تناظر میں اسپیکر سے ملاقات کرکے کہا تھا کہ وہ لوک سبھا میں جواب دینا چاہتے ہیں، کیونکہ چار وزیروں نے پارلیمنٹ کے اندر ان پر الزامات عائد کیے ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی تھی کہ جمعہ کو انھیں ایوان میں بولنے دیا جائے گا، مگر جمعہ کے دن بھی
صورتحال جوں کی توں رہی اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے کارروائی اگلے ہفتہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔ اس طرح بجٹ اجلاس کے دوسرے دور کا پہلا ہفتہ ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ اڈانی کے مسئلہ اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے حکومت پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چلنے نہیں دے رہی ہے ۔ اس دوران تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے پارلیمنٹ میں انسانی زنجیر بناکر مرکزی حکومت سے اڈانی معاملے میں جے پی سی بنانے کا مطالبہ دوہرایا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اڈانی کے معاملے میں حکومت اپوزیشن کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں، جبکہ اسے پوری دنیا میں ایک بڑے اسکینڈل کے طورپر دیکھا جارہا ہے ۔ اگر واقعی اڈانی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے تو حکومت کسی بھی جانچ سے پرہیز کیوں کررہی ہے ؟
٭٭٭٭٭